پیارے انور،
کہو جانی کیسے ہو؟ کراچی کی کہو کچھ ہم وطنوں کی سناؤ۔ یہاں خلد میں تو آثار کچھ اچھے نظر نہیں آتے۔ نہرو جی دن میں دو تین بار گلاب سونگھتے ہوئے جناح صاحب کے سامنے سے قصداً گزرتے ہیں اور ان کی نظر پڑتے ہی ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ جناح صاحب کا سرخ ہوتا ہوا چہرہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ خیر ہمیں کیا کہ ہمارا گوشہ تو علیحدہ ہے اور اپنی ہی محافل ہیں۔
جانی چوتیے تو تم شروع ہی سے تھے مگر یہ تازہ کیا حرکت کی۔ ؟گئے پرسوں کی بات ہے کہ محفل گرم تھی اور جوش صاحب کی صدارت تھی۔ سامنے ضیا محی الدین اور معین اختر تماشا لگائے ہوئے تھے۔ حوریں جام بھر بھر کے حاضر ہو رہی تھیں۔ جوش نے ایک ران پہ حور اور ایک پہ غلمان کا کوہ نور بٹھا رکھا تھا۔ فیض کی گود میں البتہ فقط ایک ہی حور تھی۔ میں بھی پاس بیٹھا جام پیتا تھا اور زاہدہ کو یاد کرتے ہوئے غزل کر رہا تھا۔ سنو کیا شعر ہوا
تم آ کیوں نہیں جاتی
خلد سے بھی نفرت ہے؟
خیر اتنے میں عمر شریف ہاتھ میں سکرین سی لیے ہوئے آیا اور لونڈے نے معین کو شرارت سے دیکھتے ہوئے ایک کلپ چلا دیا۔ تم نے معین کی عمر بھر کی کمائی جیسے اپنے نام کرنے کی کوشش کی، جیسے اس کی اداکاری کو مسترد کیا، ضیا محی الدین نے زندگی کیا موت کے بعد بھی پہلی بار پنجابی میں گالی دی۔ خیر مجھ کو سمجھ تو نہ آئی، مگر فیض نے بتایا کہ بہت گندی تھی۔ معین بولا تو کچھ نہیں۔۔ مگر پھیکا سا مسکراتا رہا۔
اپنے جوش صاحب تو جانتے ہو ہمیشہ سے سراپا جلال رہے ہیں۔ سو بھڑک اُٹھے۔ جام اک ہی غٹ میں خالی کیا اور بولے “بھڑوے کا دماغ پلٹ گیا ہے بڑھاپے میں۔ کاش میں زندہ ہوتا تو اپنے عمود لحمی سے اسکی گہرائیوں میں ایسی چوٹ کرتا کہ باقی کی عمر ہوش میں رہتا۔ میرے عمود لحمی نے جسے بھی چھوا اس میں پھر عمر بھر فن اور عاجزی برقرار رہی”۔ مثال کے طور پہ دو تین شعرا کے نام بھی لیے مگر اس وقت نام یاد رکھنے کا ہوش کس کم بخت کو تھا۔
جانی !میری مانو تو مرنا ذرا موقوف کر لو، جوش کا کیا معلوم جنت میں بھی یہی کچھ کر گزریں تمھارے ساتھ۔

فیض نے دو تین بار کھو کھو کی، سگریٹ کا لمبا کش کھینچا اور بولے “بھئی اتنا ظلم کیا کرنا، اسے کہو ابھی زندہ ہے، اپنے سکرپٹ کے زور پہ ایک آدھ معین اور بنا کر دکھا دے”۔ معین پہلی بار اس بات پہ کھلکھلایا۔ پھر فیض نے ضیا سے کہا، بھئی یہ انور، یہ اچھا بھلا ہوتا تھا، ایسی یاوہ گوئیاں کیوں کرنے لگ پڑا؟ ضیا نے بھنویں اٹھائیں گرائیں اور پھر لوچ دار بولا
“یوتھیا گئے ہیں”۔
خیر یہ تو رہا یہاں کا حال۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حال تمھارا بھی اچھا نہیں اور جلد ملاقات ہونے کو ہے۔ مگر تب تک ہو سکے تو جو کمائی تھی وہ عزت بچا کر رکھ لو۔
بہت پیار
تمھارا
جونؔ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں