عدل کا معیار/ڈاکٹر ابرار ماجد

عدل کے معیارکا اندازہ لگانے کے لئے عدلیہ کی عدالتی کاروائیوں میں غیر جانبداری، شفافیت اور فیصلوں میں ہوتے ہوئے انصاف پر عوام کا اعتما دیکھا جاتا ہے۔ اگر موجودہ حالات میں دیکھیں تو عوام کی طرف سے عدلیہ پر اعتماد کے بارے حالات انتہائی بدتر ہیں۔ پچھلے دنوں وکلا، کے ایک پروگرام میں جسٹس فائز عیسیٰ کو مدعو کیاگیا تھا اور وہاں ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ عوام کا عدلیہ پر اعتما دہے۔

اس کے جواب میں انہوں نے وہی سوال وہاں پر موجود سامعین کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ جن کو اعتماد ہے وہ ہاتھ اٹھائیں تو حیران کن صورتحال پیش آئی اور وہاں پر موجود سامعین میں سےکسی نے بھی ہاتھ کھڑا نہیں کیا۔ جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہمیں ایف گریڈ ملا ہے۔ تو یہ ہے ایک جج کی زبان سے موجودہ جوڈیشری کا حال۔ یہاں ایک بات میں واضح کرتا چلوں کہ جب یہ بات ہورہی تھی تو جسٹس فائز عیسیٰ کے پاس ابھی انتظامی اختیارات نہیں تھا اور عدلیہ کے آج تک کے معیار یا اعتماد کی ذمہ داری ان پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ وہ تو خود انصاف کی فراہمی میں چیف جسٹس کے اختیارات کے مرہون منت تھے۔

انصاف کے موجودہ گرتے ہوئے معیار کی وجوہات میں جائیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار، ججز کا کنڈکٹ، ان کے فیصلے پر عوام کا اعتماداور ان پر عملدرآمد کی صورتحال ہے۔ اس کے ذمہ دار حکومت سے لے کر ججز کی تعیناتیوں کے ادارے، ججز کی جوابدہی کرنے والے ادارے اور ججز بذات خود ہیں۔ اگر ججز کی تعنیاتی کو دیکھیں تو تعلقات، حوالے اور سیاست ججز کی تعیناتی کی بنیاد ہیں جن کو ججز کی اہلیت اور صلاحیت کا درجہ سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ عدالتوں کے سیاسی فیصلوں نے رہتی سہتی کسر بھی نکال دی ہے۔ جب ججز کے فیصلے خود ہی اپنے اندر تضادات سے بھرے ہوئے ہونگے تو پھر ان پر عمدرآمد ہو بھی جائے تو اس کے نتائج سے اچھائی کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔

جب عدالت عظمیٰ کا یہ حال ہو کہ وہاں بنچز کی تشکیل کے ساتھ ہی فیصلے بارے عوام میں چہ مگوئیاں شروع ہوجائیں اور میڈیا پر اس کی پشینگوئیاں ہونے لگیں اور فیصلہ آنے پر مکمل طور پر ان پشینگوئیوں پر پورا اترے تو پھر عوام اور میڈیا کا عدلیہ بارے جانبداری اور غیر شفافیت کے شکوک شبہات پر یقین پختہ کیوں نہ ہو؟ اور ایسے حالات میں کوئی عدلیہ پر اعتماد کیسے کر سکتا ہے۔

صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ججز اور ان کی فیملیز بارے انکشافات اور آڈیو لیکس بلکہ ان کی کی کاروائیوں بارے کتابوں میں تذکرے ملتے ہوں، ان پر مین سٹریم میڈیا اور عام محفلوں میں تبصرے ہوتے ہوں۔ ان بد نظمیوں اور بد عنوانیوں میں ملوث عناصر کے درمیان سوشل میڈیا پر جھڑپیں ہوتی ہوں اور عوام ان سے محضوض ہوتی ہو۔

جب ججز سے فیصلوں پر اثرانداز ہوکر غلط فیصلے کروانے والے خود گواہیاں دے رہے ہوں اور ججز خود ان کے ساتھ ہونے والے واقعات پر عوام کو آگاہ کر رہے ہوں او ر پھر اس کی پاداش میں ان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے صاف ظاہر ہورہا ہو کہ وہ انتقامی کاروائی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو عبرت ناک مثال بنا دیا جائے۔

قانون کی یونیورسٹیوں میں فیصلوں کی غیر شفافیت اور جانبداری بارے حوالے دے کر قانون کے طالب علموں کو پڑھایا جاتا ہو اور پڑھانے والے کوئی عام استاد نہیں بلکہ ریٹائرڈ ججز اور بڑے بڑے ججز کے بھی استاد ہوں اور وہ اپنے لیکچرز میں عدالتوں میں ہونے والے تاریخ کے سیاہ ترین فیصلوں کے حوالے دے کر طالب علموں کے یقین بنا رہے ہوں۔

جب ججز پر ان کے فیصلوں، ان پر اٹھنے والے جانبداری کے الزامات اور ان پر عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کی روشنی میں اعتراض اٹھاتے ہوئے بنچز سے علیحدہ ہونے کے مطالبے کئے جائیں اور وہ اس پر کوئی توجہ نہ دیں۔

تو ایسے میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہوں کہ سائل یا مدعی بھی ججز پر انگلی اٹھا رہا ہو کہ ان کو اس جج کا فیصلہ منظور نہیں اور جس کے پاس وہ اپنا مقدمہ لے کر جانا چاہتا ہو اس جج پر مسئول علیہ یا مدعا علیہ عدم اعتماد کرتے ہوئے اس کے پاس مقدمہ لیجانے پر معترض ہو تو پھر اس تنازع کا حل کیسے اور کہاں سے ڈھونڈا جائے۔

کہاجاتا ہے کہ ججز کو نہیں بلکہ ان کے فیصلوں کو بولنا چاہیے۔ اور اگر فیصلے بولتے ہوں تو پھر یہ نوبت ہی نہیں آتی کہ کوئی ججز پر انگلی اٹھائے۔ جب فیصلوں کے انصاف پر مبنی ہونے کی گواہی اپنے اور غیر سب دے رہے ہوں تو پھر ججز کبھی بھی متنازع نہیں بنتے۔ پھر دوست عدل کی گواہی دیتے ہیں اور دشمن اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اگر فیصلے انصاف پر مبنی نہ ہوں تو اس نے مستفید ہونے والے ہی سب سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں اور نا انصافی کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں۔

میرے نانا پنچائت کے طور پر فیصلے کیا کرتے تھے اور ماموں نے مجھے واقعہ سنایا کہ وہ بچپن میں ایک نزدیکی گاؤں میں پیدل پڑھنے جایا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو بچپن سے ہی والد صاحب کا حقہ تیار کرنے کی وجہ سے حقہ پینے کی عادت پڑ گئی تھی۔ ایک دن وہ سکول سے چھٹی کے بعد واپس آرہے تھے تو راستے میں ایک کسان کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا اور اس کا حقہ کھیت کے باہر کنارے پر پڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں وہاں بیٹھ کر حقہ پینے لگ گیا۔ جب دہقاں چکر لگا کر وہاں پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر بیل کھڑے کرکے میرے پاس بیٹھ گیا اور مجھ سے پوچھنے لگا “بچے کہاں سے آئے ہو؟” کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب کا نام بتایا تو کہنے لگا کہ تمھارا باپ بہت ہی ایماندار اور انصاف کرنے والا ہے۔ پھر اس نے پور واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ اس کا ایک مقدمہ ان کے والد کے پاس گیا تھا اور اس (کسان)نے ان (فیصلہ کرنے والے بزرگ)کے دوستوں اور رشتہ داروں کی بہت ساری سفارشیں کروائی تھیں مگر وہ نہیں مانے تھے اور فیصلہ اس کے خلاف کر دیا تھا۔

وہ کہنے لگا کہ فیصلہ تو میرے خلاف ہوا تھا مگر میں آج بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ غیر جانبدارانہ اور شفافیت سے فیصلے کرنے والا ہے۔ یہ ہوتا ہے انصاف اور اس طرح فیصلے بولتے ہیں۔ انصاف پر مبنی فیصلے جن کے خلاف جاتے ہیں وہ بھی گواہی دینے لگتے ہیں۔

دیہاتوں میں ایسے ایسے لوگ تھے جن کے پاس کوئی تعلیم بھی نہیں تھی، آج بھی ہیں مگر ان کی راست بازی، غیر جانبداری، شفافیت، اصول اور انصاف ایسا ہے کہ ان کا نام ہی عدل کا میعار ہے۔ جہاں ان کا نام آجائے تھانیدار بھی ان کی بات کو نہیں جھٹلاتے، عدالتیں بھی ان کی بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ ان کے پاس نہ تو عمل درآمد کے لئے پولیس ہے نہ کوئی حکومتی عہدہ ہے نہ ہی ان کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت ہے مگر ان کے عدل کا معیار ایسی طاقت ہے کہ جس کے سامنے آج کی عدالتوں کے فیصلے بھی نہیں ٹھہر سکتے۔

اس طرح کے فیصلے وہ ہی کر سکتے ہیں جن کو اللہ کا خوف ہو اور وہ اللہ کے نبیﷺ کی تعلیمات کے مطابق جج کی اہلیت پر پورا اترنے کہ پہلی شرط یہ بتائی کہ اس کو اس عہدے کا شوق نہ ہو۔ اور آج ججز کی تعیناتیوں اور اعمال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنے اس شرط پر پورے اترتے ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺنے ججز کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے ایک تو وہ ہوتے ہیں جو اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ دوسرے وہ جو اہلیت تو رکھتے ہیں مگر فیصلے انصاف پر مبنی نہیں کرتے اور تیسرے وہ جو اہلیت بھی رکھتے ہوتے ہیں اور فیصلے بھی انصاف پر مبنی کرتے ہیں۔ اور اللہ کے نبی نے صرف تیسری قسم کے ججز کے بارے جنت کی بشارت دی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج جسٹس فائز عیسیٰ کے حلف سے ہم سمجھتے ہیں کہ عدل کا معیار بہتر ہوگا اور پچھلے چند سالوں کے عدالتوں کے ماحول کو بہتر کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کا اعتماد بحال کرکے عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہونگے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply