• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایم ایم اے کی بحالی پہ ایک نظر۔۔۔طاہر یاسین طاہر

ایم ایم اے کی بحالی پہ ایک نظر۔۔۔طاہر یاسین طاہر

انتخابات متوقع ہیں اور سیاسی جماعتیں اپنی فطری ضرورتوں کے مطابق جوڑ توڑ میں مگن نظر آ رہی ہیں، بے شک ہر انتخابی عمل کے دوران میں سیاسی اتحاد بنتے ٹوٹتے ہیں۔ ایم ایم اے یعنی متحدہ مجلس عمل بحال کر دی گئی۔ بحالی سے مراد یہی ہے کہ پہلے مذہبی سیاسی جماعتوں کا یہ اتحاد مفادات کے ٹکرائو کے سبب معطل تھا۔ حالانکہ درست یہی ہے کہ ایم ایم اے اپنی اصل میں ختم ہوچکی تھی اور اس کا بے عکس سا ایک نام باقی رہ گیا تھا۔ مفادات کا ٹکرائو یا مفادات کا باہم ہونا سیاسی گٹھلیوں کو دائیں بائیں کرتا رہتا ہے۔ عالمی سطح پہ بھی باہمی مفادات کے تابع رہ کر ہی ملکوں کے تعلقات بنتے بگڑتے ہیں۔ ملک میں سینیٹ کے انتخابات کے دوران میں ہم نے دیکھا کہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھا ہے۔ کوئی بھی فہیم اخبار نویس ملکی منظر نامہ پہ سیاسی چالوں یا مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو غیر سنجیدہ نہیں لے سکتا۔ ایم ایم اے کی بحالی کا ڈول کئی ماہ پہلے ڈال دیا گیا تھا اور اس حوالے سے کئی میٹنگز بھی ہوئی تھیں۔

نومبر 2017ء میں ایم ایم کی بحالی کا اعلان جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی پریس کانفرنس کے دوران کیا گیا تھا۔ اس اعلان کے موقع پر سراج الحق کے ساتھ جمعیت علماء اسلام (ف) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن اور جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ پیر اعجاز ہاشمی اور دیگر جماعتوں کے سربراہان بھی موجود تھے۔ ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے سراج الحق کا کہنا تھا کہ دسمبر 2017ء میں نئے اتحاد کا سربراہی اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ پھر غالباً دسمبر کے وسط میں کراچی میں متحدہ مجلس عمل کے بانی سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم کی رہائش گاہ بیت الرضوان میں ایک اجلاس کے بعد ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے شاہ اویس نورانی کا کہنا تھا کہ اسٹیئرنگ کمیٹی کی تجاویز پر ایم ایم اے کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018ء کے الیکشن میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے کتاب کے نشان پر حصہ لیا جائے گا۔ کراچی اجلاس کے بعد مرحوم شاہ احمد نورانی کے صاحبزادے نے کہا تھا کہ متحدہ مجلس عمل کو دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے اور اجلاس میں اتفاق رائے سے یہ طے ہوا ہے کہ اسٹیرنگ کمیٹی کی تجاویز کے بعد ملکی سطح پر ایک ماہ کے اندر تنظیم سازی مکمل ہوگی اور عہدیداروں کا اعلان کیا جائے گا۔

اگرچہ ایم ایم اے کی مکمل بحالی اور عہدیداران کا اعلان ایک ماہ کے بجائے تین ماہ کے بعد ہوا، لیکن یہ عمل مرحلہ وار اور کئی ایک براہ راست سربراہ یا نمائندگان کی ملاقاتوں کے بعد ہوا۔ ایم ایم اے ہے کیا؟ اور اس کا ہدف کیا ہے؟ کیا واقعی یہ کوئی بڑا انقلابی سیاسی اتحاد ہے؟ جیسا کہ بحال ہونے والی ایم ایم اے کے نومنتخب صدر نے کہا کہ ایم ایم اے ایک انقلابی اتحاد ہے۔ دراصل ایم ایم اے سابق جنرل پرویز مشرف کے دور، 2002ء میں آمرانہ سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بنائی گئی، متحدہ مجلس عمل نے خیبر پختونخوا میں 2002ء سے 2007ء تک حکومت کی تھی، جس کے بعد جماعت کے اندر اختلافات پیدا ہونے سے ایم ایم اے کی مقبولیت ختم ہوگئی تھی۔ بعد ازاں 2008ء اور 2013ء کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ کیونکہ اتحاد میں شامل مذہبی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی مسلکی و مذہبی شناخت قائم کرنے کی تگ و تاز میں لگ گئی تھیں، جو کہ بہرحال ان ساری مذہبی سیاسی جماعتوں کی سیاست کا مرکزی نقطہ ہے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) نے 2013ء کے انتخابات سے قبل البتہ ایم ایم اے کی بحالی کی کوشش کی تھی، لیکن جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر سید منور حسن نے اس کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ جماعت اسلامی کو ایم ایم اے کی سیاست میں جمعیت علمائے اسلام (ف) سے شدید تحفظات تھے۔

ایم ایم اے کے نومنتخب صدر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بہت سے لوگ اس ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں کہ پاکستان جس مقصد کے لئے معرض وجود میں آیا تھا، وہ مقصد پورا ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت عراق، شام، لیبیا اور افغانستان کی صورتحال ہمارے سامنے ہے اور متحدہ مجلس عمل مسلم امہ کی آواز بنے گی۔ نومنتخب صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ سودی معیشت نے پورے معاشی نظام کو جکڑ لیا ہے، ہماری کوشش ہوگی کہ ہم ملک کے نظام کو بہتر کرکے قوم کی امیدوں پر پورا اتریں۔ بعد ازاں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ سیاست پر ظالم و جابر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے، لیکن ہم ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے عام پاکستانیوں کے لئے ایوان کے دروازے کھلیں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ ان سارے سہانے خوابوں کی تعبیر کیسے ممکن ہوگی؟ کیسے عوام پہ ایوانوں کے دروازے کھلیں گے؟ عام آدمی کو تو مسجد کی پہلی صف میں کوئی نہیں گھسنے دیتا۔ کیا شام، عراق اور لیبیا کے مسائل ایم ایم اے حل کر پائے گی؟ جبکہ ان مسائل کی عالمی وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ فرقہ وارانہ فہم بھی ہے، جبکہ ایم ایم اے میں شامل سب ہی مذہبی سیاسی جماعتیں اپنی اصل میں فرقہ وارانہ مذہبی سیاسی جماعتیں ہی ہیں، بے شک قرآن کی اس آیت تلے سٹیج جما دیا جائے کہ “اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں مت پڑو” مگر زمینی حقیقت تو یہی ہے کہ مسلم امہ فرقہ وارانہ سوچ کے باعث انتشار و زوال کا شکار ہے۔

ایم ایم اے کا ہدف 2018ء کے انتخابات میں کم از کم بلوچستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے حمایت یافتہ امیدواروں کی برتری کو حاصل کرنا ہے، اسی طرح کے پی کے میں۔ جہاں جماعت اسلامی اپنے اتحادیوں سے مل کر زور لگائے گی اور بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، جبکہ حریف مذہبی جماعتوں میں تحریک لبیک اور جمعیت علمائے اسلام (س) ایم ایم اے کو بے اثر کرنے کے لئے اپنے ووٹرز اور فتویٰ دونوں کو متحرک کریں گی۔ اب جبکہ ایم ایم اے مرحلہ وار مگر مکمل بحال ہوچکی ہے اور مذہبی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی مسلکی اور فرقہ وارانہ سوچ کے ساتھ ملک میں نئی سیاست اور مدینہ جیسی ریاست کا تصور بیچنے کو بے قرار ہیں، تو سوال یہ ہے کہ کیا عوام ان کے جھانسے میں آجائیں گے؟ بہت سہل جواب ہے کہ بالکل نہیں۔ مذہبی جماعتوں کا مشترکہ بیانیہ بھی اب قابل توجہ نہیں رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایم ایم اے کی بحالی اصل میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی بقا کی جدوجہد ہے۔ اس جدوجہد میں کتاب کے نشان پہ آیات و احادیث کو نئے مفہوم و معانی پہنائے جائیں گے۔ فرقہ واریت اور تعصب کے خاتمے کی بات کی جائے گی۔ دہشت گردی کی بھی مذمت کی جائے گی اور امن و راستی کی بات بھی کی جائے گی۔ ہاں عالمی سطح پہ قیام امن کی راہ بھی ہموار کرنے کے لئے خود کو پیش کیا جائے گا۔ لیکن اس سب کے باجود یہ اتحاد نہایت کمزور اور بے عکس ہے۔ اس کا نتیجہ سوائے ناکامی کے کچھ نہیں۔ کیا ملی یکجہتی کونسل کوئی بڑا کارنامہ انجام دے پائی؟ قریب قریب یہ سارے مذہبی لوگ ایم ایم اے میں ہیں اور یہی ملی یکجہتی کونسل میں بھی۔ بقا کی جنگ اور خود پرستی کا رواج، اس سے بڑھ کے کچھ بھی نہیں۔ ملک کے معاشی و فرقہ وارانہ مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ یہ ایم ایم اے یا ملی یکجہتی کونسل سے حل ہونے والے نہیں، کیونکہ اس پلیٹ فارم پہ کوئی معاشی ماہر ہی نہیں، جبکہ مسلکی تنور سب نے مل کے جلایا ہوا ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply