لاہور کا پُر خطر راستہ ۔۔ محمد فیاض خان سواتی

ہماری معلومات کے مطابق گوجرانوالہ سے لاہور میں داخلہ کے لئے جی ٹی روڈ سے صرف ایک ہی راستہ ہے ، جب بھی گوجرانوالہ سے کسی کام کے لئے لاہور جانا ہوا ، جی ٹی روڈ پر عدمِ سہولیات کی بناء پر ہر قسم کی بے ہنگم ٹریفک کی بہتات آڑے آئی اور شاذ و نادر ہی کبھی مقررہ وقت میں منزل مراد تک پہنچ پائے ، بلکہ قدم قدم پر ٹریفک جام کی وجہ سے عموماً لیٹ ہی پہنچے ، اس گھمبیر صورت حال کی ویسے تو متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں ، تاہم جو مجھے ذاتی تجربے  سے سب سے زیادہ کھٹکی ہیں ، وہ کافی عرصہ سے عرض کرنے کو جی چاہتا تھا ، چنانچہ آج عرض  کئے دیتا ہوں ، اس موہوم سی امید کے ساتھ کہ ہو سکتا ہے کہ یہ نحیف و لاغر آواز اربابِ حل و عقد کی اس جانب کبھی کوئی معمولی سی ہی توجہ مبذول کرانے میں ممد و معاون ہو سکے ، داخلی لاہور میں تو کافی سڑکوں اور پلوں کے جال بچھا دیئے گئے ہیں جو اہل لاہور کی سہولت کے لئے قابل تعریف کام ہیں ، لیکن جو لوگ لاہور میں کسی کام کے لئے داخل ہونا چاہتے ہیں ، وہ ایسی سہولتوں سے یکسر محروم ہیں ، خصوصاً وہ ملازمت پیشہ لوگ جو اسی وجہ سے ہر روز بر وقت اپنی ڈیوٹیوں پر نہیں پہنچ پاتے ، علٰی ھٰذا القیاس اور تمام محکموں کے لوگ ۔

جبکہ سب سے دلخراش منظر تو اس وقت نمودار ہوتا ہے جب کوئی لاچار مریض موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ایمبولینس میں پڑا ہوتا ہے اور ایمبولینس آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں پاتی ، یوں ایسے بیمار گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں حتٰی کہ بعض تو راستہ میں ہی موت کے گھاٹ بھی اتر جاتے ہیں ۔ویسے بھی لاہور میں داخلہ کے لئے عمومی طور پر ہر طرف سے متعد راستوں کی سہولت میسر ہونی چاہیے  ، پنجاب کا پایہ تخت ہونے کے ناطے ہر خاص و عام کو وہاں کوئی نہ کوئی کام پڑتا ہی رہتا ہے ، اور پھر جن لوگوں نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ

” لَہور لَہور اِی اِے ”

خدا انہیں بھی خوش و خرم رکھے کہ ان کے اس فلسفیانہ اور عارفانہ کلام نے بھی رش اور اژدہام بڑھانے میں کافی تعاون کیا ہے ، ان کے اس جاندار مقولہ نے ان معصوم لوگوں کو بھی لاہور دیکھنے کے لئے مہمیز لگائی ہے جنہوں نے ابھی تک وہاں قدم رنجہ نہیں فرمایا تھا ، اور وہ اپنی اس دیرینہ حسرت کو پورا کرنے کے لئے باقاعدہ پورے لاؤ لشکر سمیت وہاں شرف باریابی حاصل کرنے کے لئے جوق در جوق تشریف لاتے ہیں تاکہ کم از کم وہ ایک بار تو زندگی میں دیکھ لیں کہ آخر لاہور ہے کیا ؟

پھر بعض کو تو بادل نخواستہ یقین آ ہی جاتا ہے کہ واقعی لاہور لاہور ہی ہے جبکہ بعض کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ خدا کرے کہ وہاں دوبارہ کوئی کام نہ پڑے ۔اور پھر طرفہ یہ کہ بعض لوگ محض اس لئے بھی وہاں کا قصداً و ارادۃً سفر کرتے ہیں تاکہ کوئی انہیں یہ طعنہ کبھی نہ دے سکے کہ

” جِنّے لَہور نَئیں وِیکھیا او جَمیا اِی نَئیں”

چنانچہ انہیں وہاں کا بچشم خود نظارہ کرکے اپنی ڈیلیوری کے ثبوت کے لئے کافی بھیانک مشکلات اور صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ہمارا ناقص خیال تو یہ ہے کہ حکومت پنجاب کو اس جانب ترجیحی بنیاد پر توجہ دینی چاہیے ، کیونکہ سیانے لوگ کہتے ہیں کہ

” داخلی طور پر لاہور کی تعریف کی بنسبت خارجی طور پر اس کی تعریف کی زیادہ ضرورت اور اہمیت ہے کہ وہاں پہنچ کر وہاں سے نکلنے والے اگر کوئی اچھا تاثر لے کر واپس نہ جائیں تو یہ لاہور اور منتظمین لاہور کی بدنامی کا ذریعہ ہے “اس لئے جی ٹی روڈ سے لاہور میں داخلہ کے لئے زیادہ نہیں تو کم از کم تین مواقع ایسے محسوس ہوتے ہیں کہ ان پر ہی سہولت فراہم کر دی جائے تو ٹریفک کی مذکورہ  مشکلات  میں کافی حد تک بہتری پیدا ہو سکتی ہے ۔

1۔ شاہدرہ میں جی ٹی روڈ کے درمیان سے گزرنے والے ریلوے پھاٹک پر پل تعمیر کر دیا جائے ، جس کی وجہ سے چند ہی منٹوں میں میلوں لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں ۔

2۔ شاہدرہ میں ہی جو مین چوک ہے ، اس کا نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں ، وہاں غالباً چار سے بھی زیادہ اطراف سے ٹریفک رواں دواں رہتی ہے ، جو گچھم گچھا ہو کر تھوڑی ہی دیر رکنے سے تاحد نگاہ ٹریفک جام کر دیتی ہے ، اس پر اگر چھوٹا سا ہی پل تعمیر ہو جائے تو ٹریفک کی روانی میں کافی ممد و معاون ہو سکتا ہے ۔

3۔ دریائے راوی کے پل پر ایکسپائر ٹول پلازہ کے متعدد کیبن بھی ٹریفک کی روانی میں کافی زیادہ رکاوٹ ڈالتے ہیں ، جہاں لمبی لمبی لائنیں محض اسی وجہ سے لگ جاتی ہیں ، ان کو اگر ختم کر کے سڑک کو کھلا کر دیا جائے تو وہاں بھی لائنیں نہ لگیں اور لوگ کم از کم لاہور میں آسانی اور سہولت سے بر وقت منزل مقصود تک پہنچنے میں کچھ سہولت پائیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ چند باتیں کافی عرصہ سے میرے ذہن میں کلبلا رہی تھیں ، احباب سے شیئر کرکے صرف اپنا قلبی بوجھ ہلکا کر رہا ہوں ، کسی پر تنقید مقصود نہیں بلکہ اصلاح احوال کے لئے ایک موہوم سی امید پر یہ چند سطور لکھی ہیں ۔
مولٰی کریم اصلاح احوال کے لئے یہ مخلصانہ کاوش قبول فرمائے ، آمین ۔

Facebook Comments

محمّد فیاض خان
ایک آزادتعصب سے بالاتر لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply