ایک مصری ٹیلی ویژن چینل پر النہایہ ۔ The End نامی ڈرامہ سیریل کے ابھی پہلے سیزن کا ہی آغاز ہوا ہے کہ اسرائیلی میڈیا اور حکومت کی چیخیں بلند تر ہوتی جا رہی ہیں۔ مکمل طور پر سائنس فکشن کہانی میں آج سے 100 سال بعد یعنی سنہ 2120ء کی دنیا دکھائی گئی ہے۔ ڈرامہ کی کہانی میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان مل کر بیت المقدس اور فلسطین کو ناجائز اسرائیلی قبضہ سے آزاد کروا لیتے ہیں۔ ڈرامہ میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ اسرائیل نام کا کوئی ملک بھی سنہ 2120ء میں دنیا کے نقشہ پر موجود نہیں ہے جبکہ امریکی ریاستیں بھی ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے آزادی حاصل کر کے الگ الگ ملکوں میں تقسیم ہو چکی ہیں۔ النہایہ عربی زبان میں اختتام یعنی The End کو ہی کہتے ہیں۔
اس ڈرامہ سیریل النہایہ ۔ The End کے ٹیلی کاسٹ ہونے پر اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ النہایہ ۔ The End ایک ایسے مسلمان ملک میں بنایا اور دکھایا جا رہا ہے جس کے اسرائیل سے کئی دہائیوں سے تعلقات ہیں۔ اس سے ہی اندازہ لگائیں کہ ان ممالک میں اسرائیل کے خلاف لوگوں کی سوچ کیسی ہو گی جن کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات بالکل نہیں ہیں۔ اسرائیل چکے ساتھ ساتھ امریکی میڈیا میں بھی اب النہایہ ۔ The End کے خلاف خبریں لگنی شروع ہو چکی ہیں جن کے لئے سابق امریکی صدر کے داماد جیراڈ کوشر کی کوششیں بتائی جا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ جیراڈ کوشر نسلاً یہودی ہیں اور صدر ٹرمپ کے دور میں مشرق وسطی سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کی بنائی تمام پالیسیوں میں ان کا بنیادی کردار رہا ہے۔ سعودی ولی عہد بن سلمان اور متحدہ عرب اماراتی ولی عہد بن زید کے جیراڈ کوشر سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ انہی تعلقات کی وجہ سے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان 400 ارب ڈالرز اسلحہ کی خریداری کا معاہدہ ہوا تھا جس نے کمزور امریکی معیشت کو بہت سہارا دیا تھا۔ اسی معاہدہ کے بعد سعودی افواج نے اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر یمن کے نہتے اور کمزور لوگوں پر پچھلے 4 سالوں سے شدید بمباری جاری رکھی ہوئی ہے۔ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر ڈرون حملہ کے ذریعہ قتل کئے جانے والے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے پیچھے بھی 5 ادب ڈالرز کے عوض جیراڈ کوشر ۔ بن سلمان اور بن زید ٹرائیکا کے ملوث ہونے کے الزامات موجود ہیں۔
ایک ٹیلی ویژن ڈرامہ النہایہ ۔ The End کے نشر ہونے پر اتنا واویلہ مچاتے ہوئے مغربی میڈیا نہ جانے آزادی اظہار رائے کا وہ سبق خود کیوں بھول جاتا ہے جسے پڑھانے کے لئے وہ 46 مسلمان ممالک سمیت تیسری دنیا میں کروڑوں، اربوں ڈالرز خرچ کرتا ہے اور اپنی حکومتوں سے کرواتا ہے۔ مغربی میڈیا میں بغیر کسی ثبوت کے یہ لکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ مسلمان نوجوانوں کی اکثریت “دہشت گرد” ہے مگر ایک خیالی کہانی میں بھی یہ نہیں دکھایا جا سکتا کہ آج سے 100 سال بعد فلسطین آزاد ملک کے طور پر موجود ہو گا۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ انکار کرے کہ دوسری جنگ عظیم میں ہولو کاسٹ کا واقعہ من گھڑت ہے تو وہ بھاری جرمانے اور لمبی سزا کا مستحق ہو گا۔ حالانکہ بہت سے مؤرخین کا خیال ہے کہ ہولوکاسٹ ایک من گھڑت کہانی ہے جو اتحادیوں، سوویت کمیونسٹوں اور یہودیوں نے خود اپنے مفاد کی خاطر گھڑی تھی تاکہ دنیا کو ہٹلر کے خلاف متحد کیا جائے اور بعد ازاں اسرائیل کے قیام کا جواز بنایا جا سکے۔
ہولو کاسٹ کا انکار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سنہ 1945ء میں اتحادیوں کو جرمنی پر قبضہ کرنے کے لئے اور نازیوں کی حمایت کرنے والوں پر “سخت” تشدد کے جواز کے طور پر “ہولوکاسٹ کی من گھڑت کہانی” کی ضرورت تھی۔ نیز یہودیوں کو جرمنی سے معاوضہ حاصل کرنے کے لئے اور اسرائیلی ریاست قائم کرنے کے لئے “ہولوکاسٹ کی من گھڑت کہانی” کی ضرورت تھی۔ ہولوکاسٹ کا استعمال دوسری جنگ عظیم کے فاتحین، یہودی اور اسرائیل کی ایک وسیع و عریض سازش ہے جس کے ذریعے یہاں اپنے مقاصد حاصل کرسکیں۔ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہولوکاسٹ کا خاکہ پیش کرنے والی ایک انفرادی دستاویز موجود نہيں ہے، اور نہ ہی ہٹلر نے کسی دستاویز پر دستخط کر کے ہولوکاسٹ کا حکم دیا تھا، لہذا ہولوکاسٹ ایک مفروضہ ہے۔
دوسری طرف یہودی اور اسرائیل اس واقعہ میں 60 لاکھ تک یہودیوں کی موت کا ذمہ دار ہولو کاسٹ کو قرار دیتے ہیں اور اس واقعہ کی صحت سے مکمل یا جزوی انکار کو سخت ناپسندیدہ سمجھتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہولو کاسٹ میں قتل ہونے والے 60 لاکھ یہودیوں کو ہٹلر رہا کر کے یورپ بدر کرنا چاہتا تھا لیکن یروشلم کے مفتیِ اعلیٰ امین الحسینی نےاُنھیں کہا کہ یہودیوں کو ’جلادو” جس کے بعد ہزاروں یہودیوں کو ایک بڑے اپنی چیمبر میں بند کر کے زہریلی گیس چھوڑ دی جاتی۔ پھر ان یہودیوں کی لاشیں باہر پھنکوا کر دوسرے یہودی اس میں ڈال کر مار دئیے جاتے۔ اس طرح ہٹلر اور امین الحسینی کے اتحاد سے 60 لاکھ یہودی مارے گئے۔ اسرائیل اور یہودیوں کے دباؤ کی وجہ سے تقریباً تمام یورپی ممالک میں قانون موجود ہے کہ جو شخص بھی ہولو کاسٹ کی صحت سے کلی یا جزوی اختلاف کرے گا، اسے بھاری جرمانہ اور سالوں لمبی قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یعنی سچ بھی صرف وہ ہو گا جو اسرائیلی اور یہودی بیان کریں گے وگرنہ سب جھوٹ قرار دیا جائے گا اور قابل سزا ہو گا۔:
درحقیقت مغرب کا یہ طرزعمل انصاف، توازن، تہذیب اور دلیل سے خالی ہے۔ دنیا میں آزادی اظہار رائے، حقوق انسانی اور مساوات کا ڈھنڈورا پیٹنے والا مغرب کا رویہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دوہرا معیار اپنائے ہوئے ہے۔ وہ اپنی منافقت اور تعصب کو آزادی اظہار کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب جو آزادی رائے، حقوق انسانی، روشن خیالی، وسعت نظر، عدم تشد د، مذہبی رواداری، شہری آزادی، جمہوریت اور آزادی نسواں کے چیمپئن ہونے کا دعویدار ہے وہاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز متعبصانہ رویہ رکھتا ہے۔ یورپ اور مغرب یہ آزادی اظہار تو ہر ایک کو دینے کے لئے تیار ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑائیں مگر اسے یہ ہرگز قبول نہیں ہے کہ وہ “ہولو کاسٹ” میں مبینہ طور پر مارے جانے والے 60 لاکھ یہودیوں کی لاشوں اور باقیات کے بارے سوال کر سکے کہ آخر 60 لاکھ لوگ مارنا اور مر جانا کیا لمحوں کا کھیل تھا کہ کسی کو اتنی بڑی تعداد میں مارے جانے والوں کی لاشوں، ان کی باقیات اور ان کے مسلسل غائب ہونے کا بھی پتہ نہیں چلا۔
اسرائیل اور یہودی دنیا بھر کو تحریری اور بصری طور پر بھی اپنے مظالم کے خلاف پرامن احتجاج کا حق دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف یورپ اور امریکہ میں کوئی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ تک بھی نہیں کر سکتا۔ اسرائیلی سرپرست امریکہ کی 27 ریاستوں میں اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے والی کمپنیوں، افراد یا اداروں کے خلاف سزا کا قانون موجود ہے۔ یہ قوانین جن ریاستوں میں لاگو ہیں وہ امریکہ کی کُل آبادی کا 75 فیصد ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کے خلاف قراردادیں پاس کر چکے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے زیادہ بہتر احتجاج بھلا کیا ہو سکتا ہے۔ یہ قانونی بھی ہے اور غیر متشدد بھی۔ مگر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف امریکہ میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے ذریعہ پر امن احتجاج کی بھی اجازت نہیں ہے۔
یورپ میں ہولو کاسٹ کی صداقت پر بھی شک کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں۔ اسرائیل اگر شام کی پہاڑیوں پر حملے کرے۔ انہیں قبضہ میں لے تو بھی مغربی میڈیا خاموش۔ دوسری طرف ایک کہانی پر ڈرامہ سیریل بنے جس میں پرامن جدوجہد سے فلسطین کی آزادی کی بات دکھائی جائے۔۔ اسرائیل کے ناجائز وجود کا خاتمہ دکھایا جائے اور امریکہ کو ٹوٹتا ہوا دکھائی دیں تو اس پر احتجاج بھی کیا جا سکتا ہے اور اس ٹیلی ویژن چینل کے ملک مصر پر دباؤ بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ جنرل سیسی کی قیادت میں قائم مصر کی فوجی حکومت یہ دباؤ نہ برداشت کر سکے اور درامہ سیریل النہایہ ۔ The End اپنے پہلے سیزن کے بعد دوسرا سیزن شروع نہ کر سکے مگر اس ڈرامہ کے نشر ہونے سے نکلنے والی اسرائیلی اور امریکی چیخوں نے یہ ضرور ثابت کر دیا کہ مغرب اور امریکہ آزادی اظہار کے پراپیگنڈہ میں مکمل منافقت اور جھوٹ کے خوگر ہیں۔
Facebook Comments