جب اینکر “مفتی” بنا۔۔عامر حسینی

ہر سخن سنجے کہ خواہد صی معنی ہا کند
چوں زباں می باید اول خلوتے پیدا کند

ہر سخن شناس کو معانی ہائے تازہ کی خواہش کے شکار کی خواہش ہوتی ہے لیکن اسے پہلے زبان کی طرح خلوت اختیار کرنا پڑے گی ۔ آفتاب اقبال جو ٹی وی اینکر کے طور پہ شہرت رکھتے ہیں اور انھوں نے لاہور میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں پروان چڑھنے والی تھیڑ ڈرامے کی روایت میں جگت بازی کو اپنے پروگراموں میں سمویا ہے۔ میں “جگت بازی” کو پنجابی اور سرائیکی کلچر کی اہم صنف سمجھتا ہوں اور اس سے جڑے فنکاروں کی بھی بہت عزت کرتا ہوں۔ لیکن اگر کوئی پنجابی کلچر کی جگت بازی کے اندر مذہبی پیشوائیت پہ مبنی منافرت کا زہر بھرے یا وہ حکمرا ن طبقات کے ناپسندیدہ دانشور کو اپنے نشانے پہ رکھ لے تو اس کی کسی طور پہ بھی تعریف نہیں کی جاتی۔ آفتاب اقبال ہمارے عصر کے اردو ادب کے ایک بہت بڑے نام ظفر اقبال کے بیٹے ہیں اور خود بھی ادب عالیہ اور لغت سے آشنائی کا دعوا بھی کرتے ہیں۔ ان کو بڑا شوق ہے معانی تازہ کو شکار کرنے کا- مگر لگتا ہے وہ میرزا بیدل کی نصحیت کو فراموش کرگئے اور معانی ہائے تازہ کو شکار کرنے نکل پڑے لیکن تنہائی اور خلوت کو اختیار نہیں کیا۔ وہ اپنے پروگراموں میں بار بار فنکاروں کو الفاظ کے غلط تلفظ اور کئی ایک لفظوں کی لسانی ترکیب کے تاریخی پس منظر سے واقف نہ ہونے پہ انھیں لتاڑتے پائے جاتے ہیں۔ لیکن اپنا حال یہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے اپنے ٹی وی پروگرام “خبردار” میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی پہ “ایتھیسٹ” (ملحد) اور “منکر خدا” ہونے کا الزام عائد کردیا۔ اس بنیاد پہ انہوں نے ڈاکٹر پرویز دہود بھائی کی شدید مذمت کی – ان کے لیے لفظ “عالم” استعمال کرنے پہ معذرت کی اور تو اور اپنے پروگرام کی ٹیم میں شامل دو پروفیسر صاحبان کو الزام دیا کہ وہ پرویز ہود بھائی کے مبینہ الحاد اور بے دینی سے واقف ہونے کے باوجود انھیں خبردار نہ کرسکے۔ آفتاب اقبال پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے عروج کے زمانے سے پہلے پرنٹ میڈیا میں کالم نگاری کیا کرتے تھے۔ اور پھر وہ الیکٹرانک میڈیا میں مزاحیہ پروگراموں کے عروج میں جیو نیوز ٹی وی پہ اپنے مزاحیہ شو کے ساتھ نمودار ہوئے۔ اسکرپٹ کے لحاظ سے پاکستان کے پرائیویٹ ٹی وی چینلز پہ شروع ہونے والے ایسے کامیڈی شوز میں 2008ء سے تا دم تحریر جو کچھ پیش کیا جاتا رہا ہے اس سے یہ تاثر عام ہوا کہ ان کا مقصد کسی نہ کسی طرح مذہبی سوچ کے میدان میں ضیاءالحقی مذہبیت کو دوام بخشنا ، سیاست کے میدان میں اسٹبلشمنٹ اور اس کے لاڈلوں کو سپورٹ کرنا اور ترقی پسندی، روشن خیالی اور اینٹی اسٹبلشمنٹ رجحانات کو بدنام کرنا رہا ہے۔ آفتاب اقبال کا پروگرام بھی ان چیزوں سے مبرا نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے زبردست مداح کے طور پہ پیش کیا لیکن جب کبھی سلیکٹرز اور سلیکٹڈ کسی چھوٹی سی بات پہ ایک پیج پہ نظر نہ آئے تو انہوں نے سلیکٹرز کی لائن کو سراہا اور ثابت کیا کہ وہ دراصل پاکستان کے بڑے شہری مراکز میں نشوونما پانے والے درمیانے طبقے کی تعلیم یافتہ پرت ہے جسے جمہوری سیاست اور جمہوری سوچ سے نفرت کے پاٹھ پڑھائے گئے ہیں۔ ان کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ وہ پروفیسر پرویز ھود بھائی پہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ ان کی علم طبعیات/فزکس پہ کوئی خاص ریسرچ نہیں ہے۔ جبکہ ہود بھائی نے دنیا کی چند ایک بہترین جامعات میں شمار ہونے والی امریکی جامعہ کیمبرج کے قائم کردہ بہترین تعلیمی ادارے  میں اچیوسٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی/ایم آئی ٹی سے بی ایس مییتھامیٹکس، بی ایس انجینئرنگ اور ایم ایس سالڈ سٹیٹ فزکس اور پھر نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی کی ۔ یہ چاروں ڈگریاں ایم آئی ٹی جیسے ادارے سے حاصل کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں ہے اور ان کے سائنس دان ہونے کے لیے یہی اسناد کافی ہیں۔ آپ اگر ڈاکٹر ھود بھائی کے بارے میں دنیا بھر کے فزکس اور ریاضی سے متعلقہ تحقیقاتی اداروں میں کام کرنے والے ماہرین سے دریافت کریں تو وہ آپ کو بتائیں گے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی دنیائے سائنس میں جن شعبوں میں ریسرچ کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں ان میں درج ذیل شعبے شامل ہیں

Parton distribution functions, Field Theory, Phenomenology, super symmetry and Abstract algebra

ڈاکٹر ہود بھائی نے پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ واشنگٹن یونیورسٹی سے کی- اور 1981ء سے انھوں نے تدریس کے شعبے میں قدم رکھا اور 2010ء میں وہ ریٹائرڈ ہوئے۔ یعنی 29 سال تدریس کے دوران 1985ء میں کارینگی میلان یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر مقرر ہوئے۔ پھر انھوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ فزکس میں پڑھانا شروع کیا اور اس دوران وہ ایم آئی ٹی۔ جامعہ میری لینڈ اور سٹینفورڈ لینر کولی ڈر یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ 1984ء میں انھوں نے عبدالسلام پرائز فار فزکس جیتا۔ 2003ء میں سائنس کو مقبول بنانے والوں کو دیا جانے والا کالنگا پرائز انھیں ملا۔ امریکن فزکس سوسائٹی نے انھیں جوزف اے برٹن ایوارڈ سے نوازا ۔ بین الاقوامی سائنسی جریدوں میں ان کے 20 سے زائد تحقیقی مقالے اور مضامین شائع ہوئے۔

فزکس ، ریاضیاتی فزکس سے ہٹ کر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی شہرت ان کی ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی عالمی تحریک سے وابستگی ہے۔ وہ پوری دنیا میں ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کے ممتاز داعی شمار ہوتے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کرنے کی کمپین کے سفیر بھی رہے۔ وہ اپنے آپ کو برصغیر پاک و ہند میں مسلم روشن خیالی، عقلیت پسندی کی اس تحریک سے وابستہ کرتے ہیں جسے سرسید احمد خان نے شروع کیا تھا۔ وہ خود کو مسلم سیکولر ترقی پسند روشن خیال عقلی پسند دانشور کہتے ہیں۔ ہم نے ان کو کبھی خود کو ایتھیسٹ کہتے نہیں سنا جس کا اردو مترادف “ملحد” ہے اور ہندی میں اسے “ناستک” کہتے ہیں۔برصغیر میں جس مسلم مصلح نے سب سے پہلے سیکولر کا ترجمہ “لادین” اور “ملحد” کیا وہ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلی مودودی تھے جس کے بعد جماعت اسلامی اور سید مودودی سے وابستہ ہر ایک شخص نے سیکولر کا یہی ترجمہ کیا۔ اب سیکولر ہونے کا مطلب “ملحد” اور “لادین” ہونا لینا صرف جماعت اسلامی تک خاص نہیں رہا بلکہ پاکستان کی سب ہی مذہبی سیاسی جماعتیں سیکولر ہونے کا مطلب خدا اور مذہب کا انکار ہونا کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ جمعیت علمائے ہند سے جمعیت علمائے اسلام ہونے والی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سیکولر ہونے کو ملحد ہونے کے معانی میں لیتے ہیں جبکہ ان کی ہندوستان میں نمائندہ جماعت “جمعیت علمائے ہند” خود کو ہندوستانی سیکولر آئین کا سب بڑا محافظ قرار دیتی ہے۔

آفتاب اقبال کہتے ہیں کہ جو شخص ملحد ہو اس کے لیے “لفظ “عالم” استعمال کرنا اور اس کی تعریف کرنا انتہائی غلط ہے۔ وہ اپنے کیے پہ پیشمان نظر آئے۔ لیکن اگر ان کی بات مان لی جائے تو مصور پاکستان، مفکر پاکستان اور پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کو ہم کس خانے میں رکھ پائیں گے جنھوں نے اپنی شاعری میں “مرگ یزداں” کا اعلان کرنے والے نطشے کی بہت تعریف کی- انھوں نے صوفی ملحد کہلانے والے فلسفی سپنوزا کا اپنے مشہور خطبات میں شاندار الفاظ سے تذکرہ کیا۔ انھوں نے کارل مارکس کے بارے میں یہاں تک کہہ ڈالا

آں کلیم بے تجلی ، آن مسیح بے صلیب

پیغمبر نیست ولے دربغل دارد کتاب

کارل مارکس تجلی کے بغیر کلیم اور صلیب کے بغیر مسیح تھا ،پیغمبر تو نہیں تھا لیکن اس کے پاس ایک (آسمانی صحیفے کی طرح کی ) کتاب تھی ۔ اور وہ کارل مارکس کے ملحد ہونے کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہتے ہیں

قلب او مومن دماغتش کافر است

اس کا دل مومن اور دماغ کافر تھا

ہم مسلم سائنس دانوں میں کئی ایسے نام دیکھتے ہیں جن کے پہ الحاد کا الزام تھا جیسے ابوبکر رازی تھے ، ایسے ہی بوعلی سینا اور فارابی پہ بھی یہ الزام تھا لیکن فلسفے اور سائنس میں ان کی خدمات کا ذکر ہماری نصابی اور غیر نصابی کتابوں میں تواتر سے ملتا ہے جبکہ پرویز ھود بھائی نے تو کبھی سرے سے اپنے ملحد ہونے یا خدا کے وجود سے انکاری ہونے کی بات ہی نہیں کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستانی سماج کسی سوچ اور فکر سے اختلاف کی بنیاد پہ کفر اور غداری کے فتوؤں کی رسم بد جاری ہونے کی پہلے ہی بہت سزا بھگت چکا ہے۔ ہمارے پاس پاکستان کی جامعات میں فزکس اور ریاضی کے شعبوں میں ایسے لوگ انگلیوں پہ گنے جاسکتے ہیں جن کا مقام اور مرتبہ ڈاکٹر امیر علی پرویز ہود بھائی جیسا ہو۔ سماج میں “نظریاتی جدال” “فکری بحث و مباحثہ” اور “حق اختلاف” کے  سلب کرنے سے فکر میں سڑاند اور تعفن پیدا ہوتا ہے۔ ہود بھائی سماجی علوم کی روشنی میں عصر حاضر کے مسائل پہ جن خیالات کا اظہار کرتے ہیں ان سے اختلاف کرنا حق ہے لیکن ان کو ملحد قرار دینا جبکہ وہ خود کو نہیں کہتے اور ان کو “بے خدا” کہنا جبکہ وہ ایسا نہیں کہتے انتہائی زیادتی ہے اور یہ برصغیر میں سرسید و اقبال و جناح کی روایت کی پیروی کا دعوی کرنے والوں کو زیب بھی نہیں دیتا۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply