ورلڈکپ فائنل 1992سے 2022 تک/محمد وقاص رشید

بارِ دگر عرض ہے کہ کرکٹ پہلی محبت تھی ۔ جاننے والے جانتے ہیں   ،ان میں سے بیشتر کی بھی۔ جیسے کرکٹ ارتقائی ادوار سے گزرتی رہی ویسے طالبعلم کا فکری ارتقا ء کا سفر بھی جاری رہا۔ زندگی وقت کے خارزار سے یادوں کے پھول چننے کا نام ہے، لیکن پھولوں کے ساتھ کیونکہ کانٹے ہوتے ہیں اس لیے ساری یادیں خوشگوار نہیں ہوتیں کچھ ٹیسیں بھی بنتی ہیں۔

جب سے پاکستان ورلڈکپ کے فائنل میں پہنچا ہے، مجھے بھی تمام مماثلتوں کو لے کر وہ سرد شام یاد آ گئی جب پاکستان  نے 92 کا   ورلڈکپ جیتا تھا، جس نے ہماری تاریخ ہی بدل دی۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کیسے ؟

خبر پڑھی کہ پاکستانی  ٹیم نے 92 کی تاریخ دہرانے کے لیے روزے رکھ لیے۔ پھر ٹی وی پر شعیب اختر صاحب کا انٹرویو دیکھا، فرما رہے تھے کہ اس ٹیم کو کیا پورے پاکستان کو اللہ چلا رہا ہے تو پھر ذہن میں آیا کہ اگر ریاست کو خالقِ کائنات چلا رہا ہے تو یہ چل کیوں نہیں رہی ۔؟ یہ ان ریاستوں سے پیچھے کیوں ہے جنہیں لافانی اللہ نہیں اسکے فانی بندے چلا رہے ہیں ؟ اور ویسے رب العالمین ہو کر وہ ایک ریاست کو چلا کیوں رہا ہے اور پھر وہ بھی ایسے ؟ کیسے ؟ دیکھ لیجیے باہر نکل کر ۔ ۔

92 کے ورلڈکپ سے بہت سارے دوسرے پاکستانیوں کی طرح مجھ میں بھی جو کرکٹ کا جنون اُبھرا وہ وقت کے اثرات اپنے بالوں کی سفیدی میں چھپائے بہرحال جاری ہے میں لکھ چکا کہ کرکٹ میری پہلی محبت تھی ۔دوسری مت پوچھیے گا ۔

میں لکھ چکا کہ خواب نگر ملکوال ہمیشہ سے اعلیٰ  پائے کی کرکٹ کی آماجگاہ رہی ہے۔ میرے دیکھے بھالے باکمال کھلاڑیوں میں اب بھی چند ایک مردِ میدان نظر آتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے۔ ایک بار خواب نگر ملکوال کے ہاکی گراؤنڈ کے ایک شاندار ٹورنامنٹ کے فائنل میں ہم پہنچے اور فائنل ہمارا تھا الفتح کرکٹ کلب کے ساتھ۔ الفتح کرکٹ کلب کے کپتان اور ملکوال کے بہترین کرکٹرز میں سے ایک یعقوب صاحب کی ہمت کو سلام کہ اب بھی مردِ میدان ہیں ۔

ہماری ٹیم حیدری کرکٹ کلب ایک بہترین کمبی نیشن کے ساتھ بہت اچھا کھیل رہی تھی۔ گرمیوں کے دن تھے شام کو فائنل میچ تھا اور ہم دن کو ایک جگہ فائنل میچ کی پلاننگ کے لیے اکٹھے ہوئے تو ہمارے ایک سپورٹر جو اَب فکری ارتقاء کا سفر طے کرتے کرتے اس واقعے میں بیان کردہ نظریات سے بالکل متضاد مقام پر ہیں کہنے لگے کہ ہمیں فلاں دربار پر حاضری دینی ہے جو ملکوال کے مشہور دو درباروں میں سے ایک ہے۔

راقم الحروف کے مرشد جان (والد مرحوم) نے اولاد کے ذہن کو شروع سے روایات کی درگاہ کا مجاور نہیں بنایا تھا ۔ ہاتھوں کی لکیریں قسمت کی کہکشاں نہیں ، ہمت کا کارواں ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاتھوں پر بخت کے زائچے نہیں ہوتے محنت کشوں کے ہاتھ ہماری پیشانیاں ہوتے ہیں۔ ان پر پڑنے والی جھریوں کے نشان ہی عبادت گزاروں کے مہراب ہیں۔ خدا کا دربار درگاہ ِواحد ہے۔ جہاں پر عطاؤں کا نذرانہ محنت اور اپنی کاوش میں اخلاصِ نیت اور ریاضت ہے۔

میں اختلاف کے اظہار کے ساتھ ٹیم میں  ہونے کے ناطے ساتھ ہو لیا۔ کچھ اور لوگوں کے ساتھ میں کچھ اور درباروں پر بھی گیا۔ وہاں کے مشاہدات پھر کبھی۔۔
پیر صاحب کے پاس لے کر جانے والے ہمارے دوست نے انکی قدم بوسی کرنے کے بعد اپنا مدعا بیان کیا اور پیر صاحب نے حقے کا کش لیتے ہوئے اک نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور دوسری ہماری ٹیم کی طرف کرنے کے بعد دھوئیں والی ایک “شُف” ہم پر چھوڑی اور کہا “جاؤ جِت گئے او”۔ اس وقت نئے نئے سگریٹ شروع کیے تھے نکوٹین کی ہلکی ڈوز کے علاوہ وہاں سے کچھ نہیں ملا۔ ہاں پیر صاحب کو اس دھویں کا نذرانہ ٹھیک ٹھاک ملا۔

شام میں میچ میں خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہم بُری طرح ہارے ۔ پورے ٹورنامنٹ میں پرفارم کرنے والے ہمارے “چیتے” (یہ ہمارے کپتان کوچ اور مینٹور جناب ریاض القمر صاحب کا تکیہ کلام ہوتا تھا) سارے بھیگی بلی بن کر واپس آئے۔ نہ بالنگ چلی نہ بیٹنگ اور ہم فائنل ہار گئے۔

اس سے ویسے مجھے بھارتی چینل پر ٹاس سے لے پاک بھارت فائنل کی کنڈلیاں نکالتے انڈین جوتشی بھی یاد آرہے ہیں جنکی 60-40 سے 100-0 کی کنڈلیاں ہیلز اور بٹلر نے حقے کے کش میں اڑا دیں۔

آئیے نعرے لگانے بند کریں زندگی میں سوال کرنا سیکھتے ہیں ۔صرف ایک مثال لیتے ہیں۔ دو سیمی فائنل ہوئے دونوں میں اوپنرز نے چیز کرتے ہوئے بہترین بلے بازی کر کے حریف کو چاروں شانے چت کیا۔ پاکستان نے نیوزی لینڈ کو ۔ انگلینڈ نے انڈیا کو ۔ پاکستان کے اوپنر اور مین آف دی میچ نے شعیب اختر کی طرح اللہ پر یقین کا اظہار کیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کارکردگی کا معاملہ خدا نے اپنے ہاتھ میں دبوچ رکھا ہے اور وہ خود پر یقین رکھنے والے مسلمان روزہ دار کی محنت کو ہی بارآوری بخشے گا تو انگلینڈ کے ہیلز نے خدا پر ایمان یقین اور روزے کے بغیر خدا کی عطا کو کیسے حاصل کر لیا؟

آپ یقیناً کہیں گے محنت سے ۔۔ تو جب خدا کے ہاں کامیابی کا میرٹ ہی محنت ہے تو آپ اسکے ساتھ اسلامی ٹچ دے کر خداکا میرٹ کیوں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کبھی نہیں ہوتا۔ خدا کہتا ہے خود پر بھروسہ رکھو آپ کہتے ہیں ہمیں خداپر بھروسہ ہے۔ ورنہ شعیب اختر نے کچھ عرصہ پہلے یہ بھی کہا تھا کہ آصف کے نام کے ساتھ علی لگا ہے وہ غلط کیسے کر سکتا ہے ۔ آصف علی آج تولیہ ، کیلے اور جوس لے کر کریز پہ کیوں آتا ہے یہ شیبی بھائی بتائیں گے۔

ورنہ شیبی بھائی جیسے لوگ جو پاکستان کو اسلامی ٹچ دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو اللہ چلا رہا ہے اگلے کسی پروگرام میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ مجھے بورڈ کا چیئرمین بناؤ میں اس سسٹم کو ٹھیک کروں گا۔ اب سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ اگر نظام اللہ چلا رہا ہے تو یہ ایسا کیوں چل رہا ہے جسے شعیب اختر نے ٹھیک کرنا ہے ؟۔

میری طالبعلمانہ نگاہ میں پاکستانی ٹیم خود پر ایسا بوجھ ڈال لیتی ہے جو خدا کی طلب ہی نہیں ۔ یعنی قرآن مجید کہتا ہے کہ روزہ انسان کو متقی بناتا ہے اب کرکٹ گراؤنڈ میں کیا متقی جیتتے ہیں ؟

دل سے خواہش ہے کہ پاکستان فائنل جیتے۔ کیونکہ سیاست ، صوبائیت ، لسانیت اور جمہوریت و آمریت میں   بکھری ہوئی قوم شاید کرکٹ وہ واحد چیز ہے جس پر اکٹھی ہوتی ہے۔ اور ورلڈکپ کی فتح سے بڑا اکٹھ کیا ہو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پسِ تحریر ! ہو سکتا ہے کچھ پہلے سے ذہن سازی کیے ہوئے اس تحریر کو خدا نخواستہ اسلام کے خلاف کسی لبرلزم کا پرچار سمجھیں تو ایسے لوگوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ میں ایک ایسے استادِ محترم کا سب سے ادنی شاگرد ہوں جو کسی “ازم” کو نہیں مانتے۔ اسلام کی درست تفہیم کی جستجو اسلام کی خدمت ہے نہ کہ مخالفت ۔ہاں یہ کسی فرقے ، جماعت یا روایت کے خلاف ہو سکتی ہے جسے خود کو قطعی اسلام کہنے کا زعم خود ساختہ ہے خدا ساختہ نہیں۔ اسلام ان تضادات کو مٹانے آیا تھا جو آپ نے اسلام ہی کے علم تلے چھپا رکھے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply