• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہماراازلی دشمن بھارت نہیں،بھوک اور پانی ہے۔۔اسد مفتی

ہماراازلی دشمن بھارت نہیں،بھوک اور پانی ہے۔۔اسد مفتی

پانی۔۔آج دنیا بھر کے ممالک میں باہمی و سرحدی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بن رہا ہے،بلکہ بنا گیا ہے۔اندرونِ ملک پانی کی کمیابی اور نایابی سے تو ہم سبھی واقف ہیں،لیکن تین سو سے زیادہ بین الاقوامی،دریاؤں،جھیلوں اور ندیوں کے کنارے آباد ملکوں میں پانی کے استعمال اور تقسیم کے سوال پر تنازعے سنگین رُخ اختیار کرچکے ہیں۔
برصغیر میں گنگا،برہم پتر اور میانگ وغیرہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم پر پڑوسی ملکوں میں تنازعے چل رہے ہیں۔مشرقِ وسطیٰ میں یہودیوں،فلسطینیوں اور اُردن کے درمیان تصادم نا صرف مذہب اور علاقے کا ہی ہے بلکہ پانی کا استعمال بھی جھگڑے کی ایک اہم وجہ ہے۔
ابھی حال ہی میں شام اور اسرائیل میں گولان کی پہاڑیوں کی واپسی کے لیے اسرائیل اور شام میں جو گفت و شنید ہوئی اس میں پانی کے ذخیرے اور منج کا بطور خاص ذکر ہوا،چونکہ دونوں فریقوں کو ایک دوسرے ے پانی کی تقسیم کا فارمولہ قبول نہ تھا،اس لیے کوئی معاہدہ نہ طے پاسکا۔یورپ کا سب سے بڑا دریا ڈینوب جو کہ اکثر یورپی ممالک کے بیچوں بیچ سے گزرتا ہے۔اس کے پانی پر بھی وسطی یورپ کے ممالک میں اکثر زبانی کلامی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں،امریکہ کے مغربی علاقے کی ریاستوں میں کولاراڈو اور دیگر دریاؤں پر متنازع اور مشہور پلنٹ نہر سے متعلق فلورڈا اور جارجیا ریاستوں کے درمیان تنازعوں کی خبریں اکثر اخبارات میں جگہ گھیرتی ہیں،اقوامِ متحدہ کے چیف انجینئر پیزے نجلس کے ایک بیان کے مطابق پانی سے متعلق تنازعے اب صرف ملکوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ ایک ہی ملک کی مختلف وزارتوں،ریاستوں اور صوبوں کے درمیان بھی موجود ہیں،
ہمارے یہاں سندھ اور پنجاب،اور صوبہ سرحد اور پنجاب کے درمیان پانی کی تقسیم پر مار دھاڑ کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔اسی طرح ہمسائے بھات میں کرشنا،کاویری اور جمنا کے پانیوں کی تقسیم پر مختلف صوبوں اور ریاستوں کے درمیان تنازعے ابھرتے رہتے ہیں۔
اگرچہ خوش حال اور ترقی یافتہ ملکوں میں پانی کی قلت ابھی تک سنگین مسئلہ نہیں بنی،لیکن ایسا ناممکنات میں نہیں۔۔۔
اقوامِ متحدہ کی 2019کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی مجموعی آبادی میں سے 20فیصد افراد کو محفوظ اور پاک صاف و شفاف پینے کا پانی میسر نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق2028تک دنیا کی دوتہائی آبادی پانی کے مسئلے سے دوچار ہوجائے گی،
عالمی بنک کے مشیر جی پیس کے مطابق دنیا کے تمام حصوں میں پانی کی کمی کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔مگر ترقی پذیر ملکوں کی حالت بہت زیادہ بُری ہے۔یہاں تیس سے چالیس فیصد آبادی پینے کے پانی سے محروم ہے۔اس وقت دنیا کے اسی ممالک میں پانی کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔مگر مشرقِ وسطیٰ،جنوبی مشرقی(جس میں پاکستان بھارت،بنگلہ دیش،وغیرہ شامل ہیں)شمال افریقہ وسط ایشیا اور صحارا افریقہ کے ملکوں میں پانی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیاہے۔
پانی کا یہ مسئلہ کیوں درپیش ہے۔ بلاشبہ اس کا بنیادی سبب دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ساڑھے چار بلین سال بوڑھی اس دنیا کی آبادی 7بلین سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔اور آئندہ25برسوں میں اس بوڑھی دنیا کی موجودہ آبادی 8.5بلین تک پہنچ جائے گی،مگر پانی کی مقدار اتنی ہی رہے گی جتنی اب ہے۔مطلب یہ ہے کہ اس کمرے یعنی اس سرزمین پر تین حصے پانی اور ایک چوتھائی خشکی ہے۔اور پانی کی سمندر میں گہرائی زیادہ سے زیادہ گیارہ ہزار میٹر ہے،لیکن کرہ ارض پر موجود پانی کا 97.5فیصد حصہ کھارا ہے۔اور باقی پانی کے ایک فیصد حصے تک ہی انسان کی رسائی ہے۔باقی پینے کے قابل پانی زمین کے نیچے اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہے۔ا س کے بعد بھی جو پانی بچتا ہے،وہ پوری دنیا کے لیے کافی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسانی لاپرواہیاں اور سرگرمیاں پانی کو بربادکررہی ہیں۔
آلودگی نے پانی کے ایک بڑے حصے کو استعمال کے قابل نہیں چھوڑا،اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ترقی پذیر ملکوں میں تقریباً 90فیصد انسانی غلاظت بے روک ٹوک آبی وسائل میں شامل ہورہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں ہیضے،پیچس،اور معدے کی کئی بیماریوں نے اپنے پاؤں مضبوطی سے جما لیے ہیں،عالمی صحت کی تنظیم کااندازہ ہے کہ ان بیماریوں سے ہر سال 50لاکھ لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے کیا کہا جاسکتا ہے۔
پہلے مرحلے میں تو مسئلے کی سنگینی کو تسلیم کرکے اس کے خطرناک نتائج کو سمجھنا ہوگا۔علاوہ ازیں اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا میں پانی کی تقسیم کے نظام کی جدید کاری بہت ضروری ہے،جس سے پانی کی بربادی اور آلودگی کو روکا جاسکتا ہے،عالمی بنک کا کہنا ہے کہ اس پر 600بلین ڈالر خرچ آئے گا،اس سمت میں کئی ملکوں نے پہل شروع کردی ہے۔اس سلسلے میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔سب سے زیادہ کام موسم کی درست پیش گوئی پر کیا گیا ہے۔سمندر اور خراب پانی کو صاف کرنا ایسے مسائل ہیں جن پر ریسرچ کا آغاز ہوچکا ہے۔
ہم نے پوچھا کہ کیا پلاؤ گے؟
اُن کی آنکھوں میں آگئے آنسو!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply