ساؤنڈ آف فریڈم- آزادی کی آواز/محمو داصغر چودھری

شین پاکستان سے برطانیہ پڑھنے آیا تو اسے انٹرنیٹ پر دوستی کرنے کا جنون سوار ہوگیا ۔وہ کمپیوٹر اور آئی ٹی کا ماہر تھا ۔ بہت جلد ہی اس کی دوستی ایک گوری سے ہوگئی ۔ زیبا و نازیباقسم کی چیٹنگ شروع ہوگئی ۔ کچھ دنوں بعد اس کی دوست نے اس سے ملاقات کرنے کو کہا ۔ جب وہ متعلقہ مقام پر پہنچا تواس کی دوست سے پہلے پولیس وہاں پہنچ چکی تھی اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے اسے بتایا کہ جس لڑکی سے اس نے دوستی کی تھی وہ ابھی بالغ نہیں تھی اور انٹرنیٹ پر دونوں کی چیٹنگ سائیبر کرائم پولیس مانیٹر کر رہی تھی ۔ اس پر پیڈوپورنو گرافی کا مقدمہ بن گیا ۔ اب برطانیہ میں وہ نہ تو ٹیکسی کا لائسنس لے سکتا ہے نہ سیکورٹی کا اور نہ ہی ایسی کوئی جاب کر سکتا ہے جس میں پولیس کلئیرینس سرٹیفیکیٹ چاہیے ۔

ط پاکستان سے اٹلی آیا تو بالکل فارغ تھا۔ کاغذا ت تھے نہیں کام وغیر ہ ابھی ملا نہیں تھا ۔ تو وہ رات ہوتے ہی کچھ رنگین اور کچھ حسین قسم کی ویڈیو ز ویب سائیٹس پردیکھنا شروع ہوجاتا ۔یورپ میں پورن ویڈیوز دیکھنا جرم نہیں ہیں ۔ جرم اس وقت بنتا ہے جب ایسی ویڈیوز دیکھی جائیں جس میں کوئی اٹھارہ سال سے کم عمر بچہ یا بچی موجود ہوں ۔ اور ایسے کسی بچے سے چیٹنگ تو موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ ط بھی اپنے گھر کے بچھلے کمرے میں بیٹھا ایسی کچھ ویب سائیٹس دیکھ رہا تھا کہ آدھی رات کو اطالوی پولیس کارابنیری گھر میں داخل ہو ئی اوراسے گرفتار کر کے لے گئی ۔ کیونکہ پولیس اس چیٹنگ کوبھی مانیٹر کر رہی تھی ۔ان دونوں واقعات کا جب مجھے علم ہوا تو بہت خوشی ہوئی تھی کہ یورپی پولیس بچوں کے بارے میں اس حد تک حساس ہے کہ ان کے خلاف کوئی جرم ہونے سے پہلے ہی پہنچ جاتی ہے ۔ لیکن ان دنوں ریلیز ہونے والی فلم ساؤنڈ آف فریڈم دیکھ کر دل ایک دفعہ پھر بوجھل ہوگیا ہے ۔ کہ بچوں کو تحفظ دینے کے لئے ابھی دنیا کو بہت سے اقدامات کرناباقی ہیں

فلم میں سٹیو جاب کا ایک قول سنایا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے طاقتور ترین شخص کہانی سنانے والا ہوتا ہے جو پورے معاشرے کی سوچ اور اقدار بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ واقعی کہانی سنانے والے کے اندازمیں اگر د م ہو تو وہ ہمیں وہی فکر ، وہی سوچ، وہی غم ، وہی فہم ، وہی ہنسی اوروہی آنسو منتقل کر دیتا ہے جواس کی دل میں موجزن ہوتے ہیں ۔ اگر آپ نے کئی دنوں سے کوئی اچھی کہانی نہیں سنی ، کسی اچھی کتاب کی ورق گردانی نہیں کی اگر کوئی اچھی فلم نہیں دیکھی ، اگر کئی دنوں سے آپ کی آنکھیں نم نہیں ہوئیں ، اگر کئی دن سے آپ نے کسی دوسرے کا دکھ محسوس نہیں کیا اگر کئی دنوں سے آپ کو صرف اپنی ہی زندگی مشکلات کا مجموعہ نظرآرہی ہے تو آپ کو حال ہی میں ریلیز ہونی والی فلم ساؤنڈ آف فریڈم ضرور دیکھنی چاہئے ۔

اگر آپ کو یہ زعم ہے کہ آپ بہت سنگدل ہیں اور محض ایک کہانی سن کر یامحض ایک فلم دیکھ کر آپ کا دل نہیں پسیجتا ۔ اگر آپ رائیٹر کی تحریر کولفاظی سمجھتے ہیں یا پھر ایکٹروں کی پرفارمنس آپ کو محض اداکاری کا فن لگتا ہے تو پھر آپ کواس فلم میں ”جم کاویزل ”کی اداکاری ایک دفعہ تو ضروری دیکھنی چاہیے کہ آنسووں کو آنکھوں میں ضبط کرنے کا ہنر کیسے دکھایاجاسکتا ہے ۔اس فلم میں آپ پر ایک ایسے مافیا کا راز کھلے گا جو بچوں کو اغواء کرکے انہیں جنسی غلامی میں دھکیل دیتے ہیں۔ بچوں کو مختلف امیر ممالک میں سمگل کیا جاتا ہے اور انہیں سیکس ورکر بنا دیا جاتا ہے۔ یہ فلم2018ء میں تیار ہوگئی تھی لیکن اس فلم کو رکوانے کے لئے تمام اشرافیہ کمر بستہ تھی کیونکہ اس بلیک مارکیٹ سےاستفادہ کرنے والے نہیں چاہتے کہ دنیا پر حقیقت کھلے۔ یہ فلم ایک سچی کہانی کے سچے ہیرو پر مبنی ہے جو بچوں کو اس چائلڈ سیکس سلیوری مافیا کے چنگل سے نجات دلاتا ہے ۔ اس فلم کا موضوع بھلے ہی اتنا بولڈ ہے لیکن سلام ہے اس کے رائیٹر ڈائریکٹر اور ایکٹرز کو کہ اس کا ایک بھی سین بولڈ یا سنسنی خیزی نہیں لئے ہوئے

فلم میں بتائے گئے اعدادوشمار ہوش ربا ہیں جس کے مطابق چھوٹے بچوں کی سمگلنگ کا بزنس ایک سو پچاس بلین ڈالر سے تجاوز کر رہا ہے ۔ ہر سال بیس ملین بچوں کی تصاویر پورنو گرافی میں اپ لوڈ ہوتی ہیں ۔ ان میں ہر سال پانچ فیصد اضافہ ہو رہا ہے ۔رائیٹر کا دعوی ہے کہ جتنی بڑی تعداد میں اس وقت بچوں کو جنسی غلام بنایا جا رہا ہے اتنی بڑی مارکیٹ تو غلامی کی دور میں بھی نہیں تھی ۔ یہ سب کون کررہا ہے ۔ یہ سب ممکن کیسے ہے ۔ اس میں کون کون ملوث ہے ۔ ایسے بہت سے سوالات ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہماری دنیا میں یہ سب ہورہا ہے تو ہم اس کو روکنے کے لئے کیا کر رہے ہیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors

اس فلم کے آخر میں اس فلم کو پروموٹ کرنے کے لئے ہیرو خود سامنے آتا ہے اورناظرین کو مخاطب کرکے ایک بالکل نیا آئیڈیا دیتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر آپ اس جرم کو دنیا میں ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس فلم کا ٹکٹ خرید کر لوگوں کو مفت دیں تاکہ معاشرے میں شعور پیدا ہو اور بچوں کی اس غلامی کے خلا ف بین الاقوامی سطح پر اقدامات ہوسکیں ۔ میں بھی آپ سب کو مشورہ دوں گا کہ اگر آپ صاحب دل ہیں صاحب اولاد ہیں تو ایک دفعہ وقت نکال کر اس فلم کو دیکھنےضرور جائیں ۔ اور دوسرے لوگوں کو کہانی سنانے والے بن جائیں اگر آپ کہانی سنائیں گے تو بقول سٹیو جاب آپ بھی دنیا کے طاقتور ترین شخص ہوں گے جو سوچ بدل سکیں گے ۔ البتہ اگر آپ ذرا نرم دل ہیں تو ایسی دردناک فلم دیکھنے سے پہلے سوچ لیجئے گا کہ اتنی بھیانک سچائی آپ ہضم کرسکیں گے ؟۔ کہانی نئی نہیں ہے ۔ لیکن پیش کرنے والے نے اس انداز سے پیش کی ہے کہ آپ رو پڑیں گے تالیاں بجاتے بجاتے

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply