خدا کا عجوبہ/مسلم انصاری

تمہیں پتہ ہے میں کبھی مرا نہیں تھا
میں نے بس اپنی ہیّت بدلی تھی
گو کہ جب تم آگے جاکر میری یہ پوری بات پڑھ لوگے سب سمجھ جاؤ گے
اور میں بھی چاہتا ہوں کہ تم یہ جان لو
یہ بڑی ضروری چیز ہے اور آخر میں اس سے اتفاق کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا

زمانہ قدیم کے سات عجائبات جن کی فہرست 204 سے 305 قبل مسیح کے دوران ترتیب دی گئی یعنی
اہرام مصر، بابل کے معلق باغات، معبد آرتمیس، زیوس کا مجسمہ، موسولس کا مزار، روڈس کا مجسمہ اور اسکندریہ کا روشن مینار یہ سب میرے بعد کی باتیں ہیں

اور تو اور جدید دنیا کے سات عجائبات جن کی فہرست 2000 سے 2007 کے بیچ طے کی گئی
آگرہ کا تاج محل، دیوارِ چین، چیچن ایتزا کا ایل کاستیو، پیرو کا ماچو پیچو، ریوڈی جینرو میں موجود مسیح نجات دہندہ کا مجسمہ، اردن کا بترا اور روم کا رومن کولوزیئم یہ سب بھی بے مطلب ہیں
کیونکہ میں ہی پہلا عجوبہ تھا
مجھے پتہ ہے تم مجھ پر ہنس رہے ہو
مگر بہتر ہے تم مجھ پر ہنسنے سے پہلے میری پوری بات سن لو

میں کبھی مرا ہی نہیں
میں یہاں سے کبھی کہیں نہیں گیا بلکہ یہیں تھا
جب سب سے پہلے مجھے بیج، درخت، پھل اور ہریالی کی وجہ سے بہشت سے بے دخل کیا گیا
میں نے زمین پر آکر مٹی سے نکلی ہوئی چیزیں ہی کھائیں
قریب سبھی پھل چکھے اور درختوں کے سائے میں رکا
پھر ایک روز میں مر گیا
مسلمانوں نے مجھے نہلا دھلا کر ایک مٹی کے گڑھے میں رکھ دیا
میں نے ساری زندگی مٹی کھائی تھی
اناج، پھل، دالیں، چاول سب مٹی سے نکلے تھے اور میں نے ساری عمر پیٹ میں یہی کچھ بھرا تھا
سو میں مٹی ہو گیا
وہ گڑھا جہاں مسلمانوں نے مجھے قیمتی سامان کی طرح چھپایا کئی سالوں بعد اس مٹی پر ایک پھول اگا
برس ہا برس کے بعد
اسی تودے پر ایک درخت جڑ پکڑ گیا
میں جو وہاں مدفون تھا اگر مضبوط دل کا مالک تھا تو درخت کا پھل انتہا کا سرخ ہوا
ساری بات میری ہے
میں اگر اس گڑھے میں اچھی یادیں لیکر گیا تھا تو پھل میں ذائقہ بن کر نکل آیا

مجھے معلوم ہے اب تمہاری ہنسی تھم گئی ہے
مگر میری بات باقی ہے
دیکھو تو ایک مرا ہوا انسان کیسے درخت بن گیا؟
شجر ایسے ہی تو سانس نہیں لیتے
انسانوں کی طرح ان پر بھی موسموں کا اثر رہتا ہے
تمہیں بھی فرحت عباس کے اس شعر سے اتفاق کر لینا چاہیے کہ

تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد

میں بھی جیتے جی شام میں اداس ہو جاتا تھا
اب جو میں درخت بن گیا ہوں تو یہ میرے جرثومے میں رہ گیا ہے

یہ دفنانے، مردہ چھپانے، دبانے یا جلانے کی بات ذرا مذھبی ہے
سو جب میں ہندؤوں کے پاس مرا انہوں نے میرا جسم جلا دیا
میری راکھ سمیٹی اور گنگا جمنا میں بہا دی
ویسے تو میں نے جیتے جی بھی بہت سفر کیے تھے
مگر اب میں مر کر بہنے لگا
دریاؤں، آبشاروں، نالوں اور سمندروں میں سفر کرتا رہا
پانی بھاپ بنا تو میری راکھ اٹھ کر بادلوں میں چلی گئی اور بارش کے ساتھ میری راکھ بھی برسی
میں کھیتوں پر اترا
نئی کھڑی فصل کو سینچے گئے اور نالیوں سے پہنچائے گئے پانی میں سالہا سال سے بہتا ہوا میں بھی کھیت کھلیانوں کو جا لگا
اب میں اناج بن گیا
نئی صورت لیکر اگا
اور دوسروں نے مجھے کھایا

دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ میں کہیں نہیں گیا تھا
میرا جسم یہیں کہیں رہ گیا
ہر بار ہر ایک بار اور بار بار
اس میں بڑی محنت لگی ہے
اب جب حاکمِ وقت نے غلہ ناپید کر کے اناج کو بے وقعت کیا ہے تو در اصل اس نے وہ کئی صدیوں، سالوں پہلے مرے انسان کو بے وقعت کیا ہے
مجھے بے وقعت کر دیا ہے
انسان کا جسم یہاں سے کبھی کہیں گیا ہی نہیں
خدا نے اس زمین سے اب تک میرے مذھب کے مطابق بس تین ہی چیزیں اٹھائی اور لی ہیں
یا تو دعا یا روح یا پھر عیسی علیہ السلام
مگر وہ بھی بالآخر مٹی میں دفن ہوں گے
اور اس کے سوا سبھی کچھ صدیوں کھربوں سالوں سے ادھر ہی گھوم پھر رہا ہے

اس زمین اور مٹی پر انسان کا ہونا سب سے بڑا عجوبہ ہے
تم سوچ بھی نہیں سکتے
ہر طرف میں ہی میں پھیلا ہوا ہوں
کتنی عمارتوں کی مٹی میں، کتنے انسانی جسموں کے ذرّے گارے سیمنٹ سے ملا کر لیپا پوتی کی گئی ہے
میں اینٹوں کی صورت دیواروں میں چسپاں ہوں

کانوں، کھدانوں اور غاروں میں، میں ہوں
خزاں بارش اور بہاروں میں، میں ہوں
گیتا‘ بائیبل‘ صحیفہ‘توریت‘ زبور‘ انجیل‘ لوک کتھاؤں کے بعد قرآن کے تیس پاروں میں، میں ہوں
دعا‘ سزا‘ اجر اور جزا میں میں ہوں
بھول‘ پھول‘ ریت اور دھول میں، میں ہوں
کھیل‘ ریل‘ عہدے اور جیل میں، میں ہوں
اندر‘ باہر‘ چھپا اور ظاہر میں ہوں
جیت‘ ہار اور پانی کے پار میں ہوں
میں اشرف اور انسان ہوں تو خضر اور بشر بھی میں ہی ہوں

یار میرے!
میں بس ایک کام کرتا ہوں
مرنے سے پہلے کسی کے دل میں جگہ اور گھر کر لیتا ہوں
میری ہی محبت کے قصے اور چرچے مختلف ناموں سے گردش کرتے رہیں گے
اگر میں روپوش بھی ہو جاتا ہوں تو میرا جسم نئی صورت اور شکل لے کر واپس پلٹ آتا ہے

یہاں میں ہوں
اس دھرتی، زمین، مٹی اور کرہ ارض پر
یا پھر حارث ہے
حارث شیطان کا نام ہے
اور ہم دونوں سے بڑا خدا ہے
خدا سب سے بڑا تخلیق کار ہے
اور بس اختتام میں فقط خدا ہی بچے گا

Advertisements
julia rana solicitors london

رہے نام اللہ کا

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply