کیا حقوق مانگنے کے لئے جھوٹ کا سہارا ضروری ہے ؟ -اعظم معراج

دو دن پہلے پھر ایک بہت ہی سینئر مسیحی سیاست دان کو ٹی وی پر پاکستانی مسیحو کے لئے برابری نہیں بلکہ بقاء جیسے بنیادی حق کا تقاضا کرتے ہوئے 23 جون 1947کو مغربی پنجاب کو پاکستان میں شامل کرنے کی قرارداد میں ووٹ ڈالنے کے عمل کوتروڑ مروڑ کر پیش کرتے سنا ۔۔

عام پاکستانی مسیحی تو اس غلط العام کو دہراتا ہی ہے۔۔، لیکن جب اچھے خاصے تجربہ کار جن میں سے کئی پڑھے لکھے بھی ہیں۔۔ اس تاریخی واقعے کو غلط سلط بیان کر کے اس کی اہمیت کا ستیاناس کرتے ہیں ۔۔تو دکھ ہوتا ہے۔ لیکن کیا کریں ایسے حضرات پڑھنے کو تو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ۔ یہ موصوف میرے لئے بہت قابل احترام ہیں ۔لیکن ایک دن میں نے کچھ پڑھنے کا مشورہ دیا تو فرما رہے تھے. “پڑھنے کا وقت نہیں ۔۔” اور یہ صرف انکا ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستان کے مسیحیوں  کے لئے شہری وانسانی حقوق کے لئے کوشاں سیاسی سماجی اور سیاسی رجحانات رکھنے والے مذہبی ورکروں کا یہ وطیرہ ہے۔۔کئی دفعہ ڈرتے ڈرتے ان سے کہا ہے ۔۔ نیلسں ،امبیڈکر ،گاندھی جی، قائد اعظم ودیگر اپنے یا کمزور طبقات کے لئے حقوق حاصل کرنے والے لوگوں نے اپنج علمی استعداد بڑھا کر ہی عملی جدو جہد سے نتائج حاصل کئے تھے۔ لیکن مجال ہے ۔جو انھیں یہ بات سمجھ آئے ۔۔۔جبکہ اچھا سیاسی ورکر علم و عمل کا مرکب ہوتا ہے ۔لیکن مصیبت یہ ہے کہ مسیحی سیاسی ورکر اپنے آپ کو سیاسی ورکر سمجھے تو تب ہے۔ وہ تو سب “راہنما  ‘ہیں۔ جبکہ راہنمائی کے دعوے دار کے لئے علم و عمل کا امتزاج ہونا بہت ہی ضروری ہے ۔۔۔ برصغیر کی تاریخ کے اس اہم واقعہ کو میں نے میری گل کی کتاب سے لے نقل کرکے تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے لکھی گئی کتاب” شناخت نامہ ” میں پہلے بھی بھی لکھا ہے ۔۔پھر مختصر کچھ اضافی تحقیق کی بنیاد کے ساتھ دوہراتا ہوں ۔۔ تاکہ مسحیو کے سیاسی ،مذہبی،اور سیاسی رحجانات رکھنے والے مذہبی “راہنماہ” پڑھ سکیں ۔ اور آنے والی نسلوں کی صحیح” راہنمائی” کرسکیں. ۔ غیر منقسم پنجاب میں اس وقت ممبران صوبائی اسمبلی کی تعداد 175تھی.. اس کا الیکٹرول کالج زمین جائیداد کے مالکان ، سرکاری ملازمین، ایک خاص میعار تک پڑھے لکھے، ٹیکس پیر اور ایسی ہی دیگر خوبیوں والے شہریوں پر مشتمل تھا ۔۔جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ممبران کی تعداد 73 آل انڈیا کانگریس کے ممبران 51 شرو مانی اکالی دل 22یونینسٹ پارٹی 20 اور ازاد ارکان9 تھے ۔۔ان آزاد میں سے پانچ مسیحی تھے۔ جن کے نام یہ تھے ۔۔دیوان بہادر ایس پی سنگھا ،چوہدری فضل الٰہی، انڈین مسیحو کی نشستوں پر اور پی, منیول اور سی ای, گبن, اینگلو انڈین کے لئے مخصوص نشستوں پر جب کے, پی, ایچ گیٹ یورپین باشندوں کی نشست پر نمائندگی کرتے تھے ۔ یہ انتحاب تاریخ میں جداگانہ طریقہ انتحاب کے طور پر جانا جاتاہے ۔ لیکن مارلے منٹو اصلاحات ، کمیونیل ایوارڈ کے بعد حالاتِ کے جبر سے مجبور ہوکر امبیڈکر کے پونا پیکٹ کرنے کے بعد پچھتاوے پر اس سارے پس منظر پر تفصیلی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔۔کہ اقلیتیں جنرل نشستوں پر بھی ووٹ ڈال سکتی تھی۔ لہذا دراصل وہ دوہرا ووٹ ہی تھا ۔۔۔ ۔ ۔۔عقل دلیل یہ کہتی ہے۔۔ کہ مخصوص نشستیں مخصوص علاقوں میں تھی تو برصغیر بھر میں دیگر اقلیتوں کو ووٹ کے حق سے محروم تو نہیں رکھا گیا ہوگا ۔۔۔ پھر آگر وہ ضیاء الحق والا جداگانہ ہوتا تو مولانا ابوالکلام آزاد کیسے کانگریس کے صدر ہوتے ۔۔۔پھر امبیڈکر کو جب گاندھی جی کے تامرگ بھوک ہڑتال کی وجہ سے دلتوں کے لئے ہندؤں سے علیحدہ شناخت کی انگریز کی دی ہوئی جداگانہ حیثیت سے پیچھے ہٹنا پڑا تو ۔۔انھوں نے اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ “ہماری مذہبی شناخت والا ہمارا دوسرا ووٹ ہماری مزہبی شناخت ہوتا اور جنرل نشستوں والا ووٹ ہماری طاقت ہوتا “۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ مذہبی شناخت پر گورے نے جن اقلیتوں کے لئے جداگانہ نشستیں مخصوص کی تھی ۔ ان سے جنرل نشستوں پر ووٹ دینے کا حق نہیں چھینا تھا ۔۔جیسا کہ ضیا الحق نے اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں والا جداگانہ طریقہ انتحاب وضع کرنے کے بعد ان جنرل نشستوں پر انتحابات لڑنے اور ووٹ ڈالنے کا حق چھین لیا تھا ۔۔ کچھ ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ یہ کارنامہ قائد ملت کا تھا۔۔۔۔ اتنے شواہد ہونے کے باوجود ابھی اس بات پر مزید تحقیق ہو رہی ہے ۔۔۔۔خیر اول لذکر قرارداد سے پہلے قائد اعظم و دیگر مسلم لیگی قائدین پورے پنجاب کو پاکستان میں شامل کرنے کے لئے لابنگ کر رہے تھے۔ جس کے لئے انھوں نے سنگھا صاحب کو بھی رجوع کیا سنگھا صاحب نے 21جون کو1947کو اپنے گھر میں پنجاب بھر کے مسیحی اکابرین کو اپنے گھر بلایا اور اور انڈین مسیحو کی نشستوں پر ممبران پنجاب اسمبلی کے ووٹ آل انڈیا مسلم لیگ کے حق میں ڈالنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کروائی ۔۔اس طرح 23 جون کو دو انڈین مسیحو والے اور ایک اینگلو انڈین مسیحو کی نشست پر نمایندگی کرنے والے مسیحی نے آل انڈیا مسلم لیگ کے حق میں ووٹ ڈالے اس طرح مسلم لیگ کے اپنے 73 ووٹ تین مسیحو کے ووٹ دوسرے یقیناً 15ووٹ یونینسٹ پارٹی کے مسلم سیٹوں والے ووٹ ہونگے ۔۔کیونکہ یونینسٹ لیڈر الیکشن کے نتائج سے یہ یہ اندازہ تو لگا چکے تھے ۔۔۔ کہ پاکستان تو بن کر ہی رہے گا ۔۔۔اس طرح یہ تعداد 91 ہوگئی ۔۔جبکہ کانگریس اور شرومانی اکالی دل اور انکے دیگر اتحادیوں کے ووٹ کل ملا کر 77ہوے۔۔اس طرح 91اور77 کا فرق 14کا ہؤا ۔۔ ووٹنگ میں حصہ لینے والے تمام 175میں سے 168کی فہرست شناخت نامہ میں بھی موجود ہے ۔۔۔۔ 7 ممبران غیر حاضر ہونگے یا انھوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ہوگا ۔۔یہ فہرست یقیناً پنجاب اسمبلی کے ریکارڈ میں بھی دستیاب ہوگی ۔ اب یہ تین ووٹ فیصلہ کن کیسے ہوگئے ۔۔؟ پھر اس قرداد پر عمل درآمد بھی نہیں ہؤا ۔۔پنجاب تو پھر بھی تقسیم ہوگیا ۔۔اس لئے ہمیں اپنے تمام اہل وطن کو اس تاریخی واقعے کو تروڑ مروڑ یا غلط سلط بیان کرنے کی بجائے صحیح تناظر میں پیش کرنا چایئے۔۔ اور اپنی نوجوان نسلوں کو صرف یہ بتانا کافی ہے کہ” ہمارے بزرگ تاریخ کے صحیح دھارے پر کھڑے تھے ۔۔اور اہل وطن کو صرف یہ بتانے کی ضرورت ہے ۔کہ ہم اس دھرتی کے بچے ہیں۔اس ریاست کو بنانے، سنوارنے، بچانے میں ہمارے اجداد اور موجودہ نسلوں کا خون پسینہ شامل ہے ۔۔پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس دھرتی کی ہزاروں سال پرانی تاریخ یہ بتاتی ہے ۔۔کہ یہ معاشرہ کبھی بھی مونو ریلجیس معاشرہ نہیں رہا نہ کبھی ہوگا ۔۔ لیکن ایسی کوئی بھی کوشش اسے بکھیر ضرور سکتی ہے۔کیونکہ نہ صرفِ مسیحی بلکہ اس ملک کے تمام کروڑ سوا کروڑ کے قریب غیر مسلم دھرتی واسی نہ تو سارے کنورٹ ہونگے نہ ہی ہجرت کر سکتے ہیں ۔۔ اب یہ منترہ تب ہی پاکستانی میڈیا و ریاست کے آئینی ستونوں کے نمائندے عام شہریوں تک پہنچائیں گے ۔جب مسیحو کے سیاسی ،سماجی اور سیاسی رجحانات رکھنے والے مذہبی راہنماہ انھیں ربط اور منظم طریقے سے یہ سب بتا پائیں گے ۔ یہ اہلیت تب ہی ممکن ہے جب ان خواتین کو حضرات کو پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو پاکستانی معاشرے کے معروضی حالات میں درپیش مسائل، دستیاب موقعوں،اور انکی کمزوریوں توانائیوں کا صحیح ادراک ہوگا ۔۔۔ورنہ 1947 سے لے کر آج تک جب بھی جڑنوالہ جیسا کوئی واققہ رونماہ ہوتا ہے ۔۔تو غیر مسلم پاکستانی شہریوں کے اکابرین و درد دل رکھنے والے شہری اپنی اپنی بساط و فہم و فراست کے مطابق تدبیرات میں لگ جاتے ہیں ۔۔جن میں سے اکثر تدبیرات کا مثبت کی بجائے منفی اثرات ان دھرتی واسیوں کی زندگیوں پر پڑتے ہیں۔۔ لہذا اپنے خوابوں کی تعبیریں سرابوں سے نہیں تلخ حقائق کو مان کر ملیں گی ۔
ایک سوال قائدکی تقاریر میں سے11اگست کی تقریرکومذہبی اقلیتں بطور اپنی بقاءکی دلیل دہراتی ہیں۔اگر یہ تقریر نہ ہوتی تو کیا اس دھرتی کے کروڑ سوا کروڑ شہریوں کو اپنے اجداد کی سرزمین پر رہنا کاحق نہ ہوتا؟ کیا یہ ممکن ہے قومی ریاستوں کے اس دور میں ان سوا کروڑ کی جبری تبدیلی مذہب ہو جاتی یا جبری ہجرت پر مجبور کر دیا جاتا یا سوا کروڑ کی نسل کشی کردی جاتی ۔۔گو کہ کچھ لوگوں کے خیالات ایسے ہی ہوں لیکن اس ریاست کی قومی سلامتی کے ذمداروں کو یہ ضرور پتہ ہے ایسی کسی صورتحال سے پہلے وطن عزیز کو کن بحرانوں سے گزرنا ہوگا۔۔ ایسی صورت حال اقلیتوں سے زیادہ ملکی بقاء کے لئے زیادہ مضر ہوسکتی ہے ۔۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو دو قومی نظریے اور پہلی سیکنڑوں تقاریر کو کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا ۔۔ اسلئے حقائق پر جینا سیکھنا ہوگا۔ایسے سہاروں کے بغیر اس معاشرے کے معروضی حالات میں اپنی اجتماعی کمزوریوں ،توانائیوں کے درست تخمینے لگا کر حقائق پر جینا سکیھنا ہوگا ۔۔ معاشرتی جبر کی آڑ میں سنگھا صاحب کی اسپیکری چھیننے کا سنہری اور تاریخی واققہ 11اگست سے پہلے رونما ہوچکا تھا ۔۔ قائد اعظم کی اس وراثت کو قائد ملت،قائد عوام نے سیاق وسباق کے ساتھ تسلسل سے جاری رکھا جو آج تک جاری ہے ۔ لہذا ان معروضی حالات میں غیر مسلم پاکستانی شہریوں کے سیاسی سماجی و سیاسی رحجانات رکھنے والے مذہبی ورکروں کو انھی بنیاد پر اپنے لوگوں کی راہنمائی و تربیت کرنی چایئے۔۔ تاریخ گواہ ہے کہ عملی سیاسی جدو جہد کرنے والے ورکر/راہنماہ علم وعمل کا امتزاج ہوتا ہے۔ عملی سیاسی جدو جہد میں شامل دوستوں کے لئے نیک تمناوں کے ساتھ ایک بار پھر اس عاجزانہ سے مشورے کو دہراتا ہوں کہ۔۔وہ عملی جدو جہد کے لئے اپنی علمی استعداد بھی بڑھائیں ۔۔۔کیونکہ وہ چومھکی لڑائی لڑ رہےہیں۔۔ تاریخ کے جبر سے پیدا امیتازی معاشرتی رویوں کے ذیلی پیداوار امیتازی قوانینِ کی بدولت غضب شدہ حقوق کے ذمداروں کے ساتھ انکا مقابلہ جہالت کے پروردہ کمیونٹی کے اندرونی شعبدہ بازوں سے بھی ہے۔اس لئے انھیں حقائق پر مبنی ٹھوس دلیلوں کی زیادہ ضرورت ہے ۔۔لہذا اقلیتوں کے نمائندوں اور انکے کے لئے درد دل رکھنے والے پاکستانیوں کو چایئے کہ وہ غیر مسلم پاکستانی شہریوں کی اجتماعی شناخت و اجتماعی کمزوریوں اور توانائیوں کا ادارک کئے بغیر کچھ حاصل نہ کرسکیں گے۔۔اسلئے ان مظلوموں کو با اختیار کرنے کے لئے انکی اجتماعی توانائیوں کمزوریوں سے خود بھی باخبر ہوں اور انھیں بھی حقائق سے آگاہ کریں۔۔
کیونکہ باخبر شہری ہی بااختیار شہری ہوسکتا ہے ۔
تحریک شناخت زندہ باد پاکستان پائندہ باد

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے ۔۔وہ سماجی آگاہی کی ایک فکری تحریک کے بانی رضا اور 20کتب کے مصنف ہیں ۔جن چار رئیل اسٹیٹ کے موضوع پر جن میں نمایاں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اور 15کتب تحریک شناخت کے اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے ہیں ۔جن میں نمایاں” دھرتی جائے کیوں پرائے”، شان سبزو سفید ، پاکستان کے مسیحی معمار ،کئی خط اک متن ، اور شناخت نامہ دی آئی ڈنٹنٹی ہیں.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply