غلط عنوان/ یوحناجان

ادب کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ لگانا ہو تو یہ امر اُن لوگوں کے لیے ضروری ہے جو اس سے وابستہ اور مقصدِ تخلیق کائنات کا حصہ ہیں ۔ ورنہ بہت سے ایسے شاہکار بھی ہیں جو صرف دھرتی پر بوجھ ہی ثابت ہو کر اس مٹی میں دفن ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری بھی ہے جن کا کوئی نام و نشان تک باقی نہ بچا ہے۔ عام طور پہ ادب اور اس کاجنازہ انھی کے ہاتھوں نکلتا ملا ہے۔ جن کے کردار و خیال میں شر کا بیج بویا گیا انھوں نے براہ راست ادب اور زندگی کا بٹوارہ کرکے مقصدِ حیات کا مفہوم مٹا ڈالا۔
موجودہ دور کی بات کروں یا ماضی قریب و بعید کی ادب اپنے مقصد اور فن میں براجمان ملا مگر ادب کا بٹوارہ کرنے والوں کا کچھ پتا نہ چلا۔
ادب نہ حد بندی کا محتاج ہے نہ رنگ و نسل کا بلکہ یہ ایک احساس اور تعلق کا نام ہے جو کسی تمیز اور رنگ و نسل کی تفریق کیے زندگی کا حصہ بنتا ہے۔ یوں تو ادب ایک مشعل / چراغ ہے مطلب جس بھی طرف گیا اس نے راہ کو ہموار اور روشن کیا ۔ ادب نے مقصدِ حیات کو عیاں کیا ۔ جس نے اس سے دوستی کی اس نے وفاداری ، محبت اور تعلق کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ یہ ادب ہی ہے جس نے باادب اور بانصیب بنایا۔
کئی بار یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ ادب ، ادب کہنے والوں کو ادب کا مفہوم و معانی تک معلوم نہیں ہوتا جس کا نتیجہ نہ تو ادب کا مقام معلوم ہو پاتا ہے اور نہ تعلق قائم کر پاتے ہیں۔ یہ بے نتیجہ اور منتشر خیالات کے مارے خود آگاہی سے محروم اور تعلق کی افادیت سے خالی کشکول لیے گلی گلی ملتے ہیں۔ تب وہ معاشرہ و قوم و نسل سب کچھ ہونے کے باوجود زندگی اور اس کے مفہوم کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ میری اس بات کا ثبوت لینا ہو تو 1947 ء سے لے کر اب تک پاکستان کی عوام ہے جو بڑا ہی متحرک اور جاندار عکس ہے ۔ جن کا تعلق ادب سے قائم ہو سکا نہ کشکول بھر سکا بلکہ اُلٹا ادب کا بٹوارہ کرکے رکھا دیا۔ حتیٰ کہ ایک خاندان ، ایک خطہ ، ایک ثقافت اور ایک زبان کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ نوبت تو یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اس کو اقلیت کا ادب نام دے کر اس کی اہمیت کو ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ مجھے کئی دفعہ مختلف ایسی جگہوں پر جانے کا اتفاق ہوا جس میں قابل ذکر پاک۔ٹی ہاؤس مال روڈ لاہور ، ادارہ فروغ اُردو ، مختلف جامعات اور اس جیسے کئی مقامات جہاں مرکزی نام اور عنوان ادب کا دیکھنے اور پڑھنے کو ملا مگر ادب والا کوئی کام اور نام نہیں ملا۔ پہلے تو ان کی آگاہی کے لیے ادب کا مطلب ہرگز قنوطیت کے زیر اثر نہیں بلکہ رجائیت پسندی پر مبنی ہے۔ یہ ایک باہمی تعلق کا نام ہے جو ہمیشہ جوڑتا ہے مگر افسوس یہاں تو ادب کا بٹوارہ کرتے کرتے آنے والی نسلوں کا بھی مستقبل منقسم کر چکے ہیں۔ ادب لفظ کے لفظی مطلب پر بات کریں تو مُراد سلیقہ زندگی ، طریقہ زندگی ، زندگی گزارنے کا فن ، اصول و ضوابط جو زندگی کا کامیاب اور بامعانی بناتے وہ ادب کے معنوں میں آتے ہیں۔ جو یگانگت ، خوش اسلوبی ، رواداری ، میل میلاپ ، گٹھ جوڑ اور وسعت خیال و جذبات کو فروغ دیں تاکہ تخلیق اور تحقیق کار کے مابین باہمی تعلقات کی فضاء قائم ہو سکے۔ یہاں تخلیق کار سے میری مُراد رب کائنات ادب کا گہوارہ اور محبت کی لازوال نشانی ہے۔ جس نے ادب کے ذریعے اس خاک کے پُتلے کو وہ مقام اور اختیار دیا جو کسی دوسرے کے کھاتے میں نہ آسکا۔ اس ادب کی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس انسان نے چیزوں کے نام رکھے اور وہی نام قرار پائے۔ اس ادب نے حکم کی تعمیل اور محبت کا بے حساب درس دیا، دُوری ختم کرکے قُربت کو فروغ دیا ۔ جس نے یہاں تک کٙہ دیا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکم کرو۔ اسی ادب نے بیان کیا کہ جان دینے تک وفادار رہ تو تجھے زندگی کا تاج ملے گا۔ اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا ہے کہ ادب نے کہا جو میرے پیچھے چلے گا وہ اندھیرے میں نہیں بلکہ روشنی میں چلے گا۔
اب ان انعامات و اعزازات کا صرف چند سکینڈز کے لیے احاطہ اپنے ذہن میں کریں تو تقسیم ، بٹوارہ ، اقلیت ، اکثریت اور کسی مخصوص طبقہ کی بات نہ کی گئی ہے بلکہ مجموعی تاثر ، ایک آواز اور باہمی ربط کی بات ہے نہ کسی رنگ کا ذکر اور نسل کا فرق ، نہ زبان کی تمیز اور طبقاتی کشمکش ۔ صرف ایک بلند جو تعلق جوڑنے کی بات نہ کہ توڑنے کی۔ ادب نہ اقلیت کا ہے نہ اکثریت کے لیے بلکہ یہ یکساں اور برابر ہے۔
بیج کو اُگنے کے لیے باقاعدہ ماحول اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ۔ افسوس صد افسوس یہاں تقسیم کاری نے ماحول کو ماحول نہیں رہنے دیا ۔ ماحول کا مناسب میسر نہ ہونا ادب کے فقدان کا سبب بن چکا ہے۔ نوجوان نسل جوش و جذبہ سے عاری ہے ۔ مستقبل و ادب سے لاتعلق ہے ، تبدیلی اور انقلاب کے اُدھورے خواب دن بدن ادب کو بے ادبی میں بدلنے کا عندیہ لیے رواں دواں ہیں۔ اس لیے نہ ادب رہا اور نہ ادب پارہ ، اس تقسیم کاری نے ایسا اثر دکھایا ہے کہ خاندان کے خاندان بکھر چکے ہیں۔ ایک 1947 ء میں ہوا تو پھر 1971ء میں ہوا۔ یہ ایک تسلسل چل پڑا ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ ادب کا بٹوارہ ان کے جسم کی رگوں میں سما چکا ہے اور مستقبل قریب میں یہ اپنا اثر نئے رنگ میں لیے براجمان ہو گا۔ ماضی قریب میں ایک ابھی نندن تھا اور حال میں ابھی ایک لندن ہے جو اس زندہ دلیل ہیں ۔ بات تو واضح ہے کہ اگر لوگوں کو مجھ سے مسئلہ ہے تو یاد رکھیں کہ یہ ان کا مسئلہ ہے میرا نہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply