عو رت کا دو سرا نا م ۔۔پیکروفا

عو رت کا دو سرا نا م ۔۔پیکروفاہر جگہ عو رت مظلو م نہیں ہو تی ۔ بہت جگہ مر د بھی بے بس ہو تا ہے۔یہ بھی ایک ایسی دا ستا ن ہے جس کو میں بچپن سے د یکھتے آ ئی ہو ں۔
یہ کہا نی ہے ۔۔۔سر ور بھا ئی اور رو بینہ آ پی کی۔۔۔ہم اور سر ور بھا ئی لو گ پچھلے 15 سال سے ایک ہی محلے میں ر ہتے ہیں۔۔۔
ہمیں آ ج بھی وہ دن یا د ہے جب سر ور بھا ئی بڑ ے پیا ر سے رو بینہ آ پی کو بیا ہ کر گھر لا ئے تھے۔۔ سا را محلہ ، خا ندا ن اور گھر خو شی سے نا چ ر ہا تھا۔۔سر ور بھا ئی تو خو شی سے پھو لے نہیں سما ء ر ہے تھے۔۔سب نے دو نوں کو بہت د عا ئیں دی ۔۔ہم نے بھی ان کو دل سے خو ش رہنے کی دعا دی اور امی لو گو ں کے سا تھ گھر کی راہ لی۔۔۔
شر وع کے دن تو بہت اچھے گزرے ۔۔ایک محلے میں رہنے کی وجہ سے اکثر آ منا سا منا ہو جا تا تھا تو حا لا ت پتہ چلتے ر ہتے تھے۔۔پھر ہم بھی اپنی زندگی میں مصر وف ہو گئے۔۔ایک دن ہما رے گھر مٹھا ئی آ ئی ۔پتہ چلا کہ سر ور بھا ئی کے گھر بیٹا ہو ا ہے۔ میں بھی امی کے سا تھ مبا رک با د دینے چلی گئی۔۔ وہا ں سب بہت خو ش د کھا ئی دے ر ہے تھے۔۔ مگر مجھے رو بینہ با جی کے اند ر کو ئی بے چینی سی محسو س ہو ئی۔۔ ان کے پا س جا کر مبا رک با د دیتے ہو ئے میں نے پو چھا ،آ پی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔وہ بو لیں طبیعت ٹھیک ہے مگر میر ی قسمت ٹھیک نہیں۔۔ان کے اس جو اب سے میں کا فی حیران ہو ئی کیو نکہ جہا ں تک میر ے علم میں تھا یہ شا دی ان دو نو ں کی پسند سے تھی۔
مجھے ان کے اس جو اب سے کا فی دکھ ہو اکیو نکہ ہم سب سر ور بھا ئی کو جا نتے تھے وہ بہت اچھے انسا ن تھے۔۔ہرحا ل میں خو ش رہنے وا لے تھے۔۔ ہر ایک سے عز ت سے با ت کر تے تھے۔۔خیر ہم چا ئے پی ر ہے تھے جب سر و ر بھا ئی خو شی خو شی گھر میں دا خل ہو ئے۔رو بینہ آپی کو محبت بھری نظر وں سے د یکھتے اپنے بیٹے کو گو د میں لیے وہ ہما رے پا س آ بیٹھے اور حا ل حوال پو چھنے لگے ان کو د یکھ کے لگ ر ہا تھا کہ وہ بہت خو ش ہیں۔۔مگر رو بینہ آ پی ان کے ہر سو ال کا جو اب بڑے نا راض اندا ز میں دے رہی تھی۔۔خیر چا ئے پی کے ہم نے ان سے اجا زت لی اور گھر کی را ہ لی۔۔
مو سم بد ل گیا تھا اور ہم چھت پر د ھو پ میں بیٹھے کینو کھا ر ہے تھے جب ہم نے سر ور بھا ئی کے گھر سے شو ر کی آ واز سنی۔۔ ہم نے امی کونیچے آ کر امی کو کہا کہ جا کر دیکھے کہ آ خر ما جر ہ کیا ہے۔۔کچھ دیر بعد امی کی گھر میں وا پسی ان الفا ظ کے ساتھ ہو ئی کہ خدا بہو بھی نیک سیر ت دے اور بیٹی کا نصیب بھی اچھے لو گو ں میں کرے ۔۔امین۔۔پو چھنے پر امی نے بتا یا کہ رو بینہ سسرال وا لوں کے ساتھ نہیں رہنا چا ہتی جبکہ کہ سرور بھا ئی اپنے بو ڑھے ماں با پ کو چھو ڑ کر نہیں جا نا چا ہتے تھے ۔۔اب آگے پتہ نہیں کیا ہو گا۔۔خیر کچھ دن آرام سے گزرے مگر مجھے آتے جا تے سرور بھا ئی نظر نہ آئے تو امی سے پو چھا تو پتہ چلا کہ وہ لو گ الگ ہو گئے ہیں۔۔میں نے کہا چلو اچھا ہے ہر انسا ن کو اپنی زند گی جینے کا حق ہے۔۔پھر پتہ چلا کہ سرور بھا ئی کو خدا نے ایک اور بیٹا د یا ہے۔۔
اسی اسثا ء میں سرور بھا ئی کے چھو ٹے بھا ئی کی شا دی کا سند یہ آ گیا۔۔شا دی کے دن میں نے دیکھا سر ور بھا ئی بہت چپ چپ اور اداس سے تھے۔جبکہ ان کے مقا بلے میں رو بینہ آپی کا فی خو ش دکھا ئی دے ر ہی تھی۔با رات والے دن ایک اور ہنگا مہ بر پا ہو ا۔۔روبینہ آپی کو لے کر سر وربھا ئی چلے گئے۔سب کی ز با نی ہمیں پتہ چلا کہ رو بینہ آ پی نے نئے ز یورات کی ڈ یما نڈ کر لی تھی۔سر ور بھا ئی ایک سرکا ری ملا زم تھے۔۔اللہ کا شکر ہے اچھا گزر بسر ہو ر ہا تھا۔مگر پتہ نہیں رو بینہ آپی کو کیو ں سکو ن نہیں تھا وہ کسی حا ل میں خوش نہیں ر ہتی تھی بس زیا دہ سے زیا دہ پیسے کی ہو س تھی ان کو۔ لو گو ں کی با توں میں جیسے تیسے شادی گز ر گئی۔۔اس کے بعد ہما رابھی ادھر آنا جانا کم ہو گیا۔۔
وقت یوں ہی پر لگا کر ا ڑتا رہا۔اس دوران سرور بھا ئی کو اللہ نے دو جڑواں بچیو ں سے نوازہ۔۔امی مبا رک با د دینے گئی تو پتہ چلا سرور بھا ئی بہت خوش ہیں اور خوش ہوں کیوں نہ ان کو بیٹیا ں پسند بھی تو بہت تھی۔۔مگر امی بتا ر ہی تھی کہ رو بینہ آ پی کی نا شکری والی عادت اب بھی نہیں گئی ہر وقت گھر میں پیسوں کو لیکر جھگڑا ر ہنے لگا۔۔سرور بھا ئی خا موش رہتے تھے اور بس بیٹیوں کے سا تھ کھیل کود میں لگے رہتے ۔زیادہ مگر اب شا ہد ان کی ہمت بھی آہستہ آہستہ جواب دینے لگی تھی۔اور گھر میں تو تکا رہو نے لگی۔ اصل فسا د اس وقت پڑا جب رو بینہ آپی نے نو کری کرنے کی ٹھا نی۔سرور بھا ئی سمیت سب نے بہت سمجھا یا کہ ابھی بچیا ں چھو ٹی ہیں مگر رو بینہ آ پی بھی اپنے نا م کی ایک تھی کسی کی نہ سنی اور ہسپتا ل میں نو کری شروع کر دی۔سرور بھا ئی بچوں کی و جہ سے چپ تھے۔خیر وقت گزرتا گیا اور اب تو بچے بھی بڑ ے ہو گئے تھے۔سرور بھا ئی نے پیا ر سے ، غصہ سے دھمکی سے ہر طر ح سے آپی کو سمجھا کر دیکھ لیا مگر وہ کسی طر ح با ز نہ آئی۔کیو نکہ بچیاں بڑی ہو رہی تھی اور ان کی دیکھ بھا ل کر نے والا کوئی نہیں تھا ۔پہلے تو سرور بھا ئی کی رات کی ڈیو ٹی تھی سو وہ خود دیکھتے تھے مگر اب ان کی دن کی ڈیوٹی لگ گئی تھی تو پر یشا ن تھے۔
مگر رو بینہ آپی نے یہ کہہ کر با ت ٹال دی کہ کو ئی ملا زمہ رکھ لو ں گی پیسے میں خود دے دو ں گی مگر ملا زمہ کہ حق میں بھا ئی نہ تھ۔مر تے کیا نہ کرتے یہا ں بھی بچیوں کے لیے سرور بھا ئی خا مو ش ہو گئے۔۔دن گز رتے جا رہے تھے ۔۔بچیوں کی عمر اسکو ل جا نے کی ہو گئی مگر ماں کو پر وہ نہ تھی اور با پ بیچا رہ کیا کیا کر تا۔اس سا رے عر صے میں رو بینہ آ پی سرور بھا ئی اور بچوں سے بالکل بے غم ہو گئی تھی اور اب تو گھر میں بس بر ائے نا م آ تی تھی۔اس سا رے عر صے میں ہم نے یہ با ت جا نی تھی کہ واقعی سر ور بھا ئی نے رو بینہ آپی کو دل سے پیا ر کیا تھا ورنہ وہ اتنا بر دا شت نہ کر تے۔خیر ایک دن سرور بھا ئی نے تنگ آ کر پہلی با ر روبینہ آپی کے بڑ ے بھا ئی سے با ت کی کہ پہلے کی با ت اور تھی وہ نو کری کرتی تھی میں چپ تھا مگر اب بچیا ں بڑ ی ہو تی جا ر ہی ہی۔آپ رو بینہ کو سمجھا ئیں۔سب نے ایک با ر پھر روبینہ آپی کو اپنے اپنے طو ر پر سمجھا نا شروع کر دیا مگر ان کی ایک با ت کہ اگر نو کری نہیں کر نے دی تو میں سب کچھ چھوڑ دوں گی۔سرور بھا ئی نے اپنی بچیوں کے لیے ایک با پھر دل پر پتھر رکھ لیا۔وقت گز رتا گیا اور بچیاں اسکو ل جا نا شر وع ہو گئیں۔ان کو سرور بھا ئی تیا رکر کے بھیجتے اور پھر واپس بھی لا تے۔کھا نا کھلا کر ان کو گھر کے اندر چھوڑ کر با ہر سے در وازہ بند کر کے دو با رہ کا م پر چلے جا تے۔رو بینہ آپی سب اپنی دھند میں مگن تھی پھر ایک دن پتہ چلا روبینہ آپی نے سب کو چھوڑ کسی اور کو پسند کر لیا اور اب اسی کے سا تھ رہنا چا ہتی ہیں۔ اپنو ں ،پر اؤں سب نے بہت سمجھا یا کہ تمھا رے بچے ہیں ایسا مت کرو اور سرور جیسا پیا ر کر نے والا شوہر ہے نا شکر ی مت کر و۔مگر ان کا جو اب کہ بچے بڑ ے ہو گئے ہیں۔ اور سرور کے پا س ہے ہی کیا وہ مجھے خو شیا ں کبھی نہیں دے سکتا جو میں چا ہتی ہوں۔خیر کسی کے سمجھا نے کا کچھ اثر نہ ہو ا اور وہ چلی گئی ۔سرور بھا ئی تو ٹوٹ گئے تھے اور خا مو ش ہو گئے تھے۔ کیا کچھ نہیں بر داشت کیا تھا انھو ں نے رو بینہ آ پی کی وجہ سے مگر وہ ایک پل میں سب بھو ل گئی اور پرایا کر دیا۔نہ سرور بھا ئی کا سو چا نہ پھو ل جیسے بچوں کا خیا ل کیا۔سرور بھا ئی بچوں کو واپس لے کر پھر وا لد ین کے پا س آ گئے۔سب نے ان کو ہا تھوں ہا تھ لیا اور سرور بھا ئی بچوں کو وا لدین کے حوالے کر کے کسی حد تک مطمئن ہو گئے۔
وقت اپنی ڈگر پر چلتا رہا اب سرور بھا ئی کے گھر والوں نے انکی دو سر ی شا دی کر دی۔ وہ لڑ کی سر ور بھا ئی کی چچا زاد تھی ۔خو ش اخلا ق ہو نے کے ساتھ ساتھ خو ش شکل بھی تھی ۔اس لڑ کی نے دیکھتے دیکھتے ہی سب کے دل جیت لیے۔بچوں کو بھی ما ں کی کمی کا احسا س نہیں ہو نے دیا اور وقت نے سرور بھا ئی کے زخموں پر بھی مر ہم ر کھ دیا تھا جو وہ اب خو ش رہنے لگے تھے۔روبینہ آپی کے با رے میں پھر سننے میں مختلف با تیں آ ر ہی تھیں۔جس کے لیے وہ سب چھو ڑ کر گئی تھی اس نے بھی نہ اپنا یا اور یہ کہہ کر چھوڑ دیا جو اپنے بچوں کی اور اتنے پیا ر کر نے والے شوہر کی نہیں ہو ئی وہ میر ی کیا ہو گی۔اور اب رو بینہ آپی در در کی ٹھو کر یں کھا رہی ہیں۔کیو نکہ جس دن سے انھوں نے سرور بھا ئی کو چھوڑا تھا اسی دن سے ان کے خا ندان والوں نے اور بھائیوں نے ان سے سا رے رشتے تو ڑ دے تھے۔یہ سا رامعا ملہ تو ہما ری آنکھوں دیکھا ہے اور یہ بھی ہم د عو ے سے کہہ سکتے ہیں کہ جو عورتیں پیسو ں کے لیے اپنے بچوں اور خا وند کو چھوڑ دیں وہ کبھی خو ش رہ بھی نہیں سکتیں۔ہر جگہ مر د ہی غلط نہیں ہو تا اور ہر جگہ بے قصو ر عورت بھی نہیں ہو تی۔

Facebook Comments

عاصمہ روشن
ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ روشن نے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹر کی ڈگری کیساتھ ساتھ اردو میں بھی ماسٹر کیا ہے اور ابھی ایم فل کی طالبہ ہے -پڑھنے اورلکھنے کی کوشش بچپن سے ہیں- غیر سرکاری اداروں کیساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں اور اس وقت شعبہ صحافت سے وابستہ ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply