روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

دل و جگر میں پُر افشاں جو ایک موجہ ء  خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے

ستیہ پال آنند
حضور، اس شعر کی تصویر یہ بنتی ہے ذہنوں میں
کہ متموج ہے اک دریائے خوں دل اور جگر کے بیچ
یہی ہے اک نشانی سانس کی یا زندگانی کی
یہ ہم طرحی ۔۔۔۔

مرزا غالب
بہت نا اہل ہو، اے ستیہ پال آنند، پھوہڑ ہو
مرے اس شعر کا بھرتہ بنا کر رکھ دیا تم نے

ستیہ پال آنند
میں اپنی بات پوری کر نہیں پایا تھا، اے استاد
اگر تشریح سُن لیتے تو میں بھی سرخرو ہوتا

مرزا غالب
کہو، ہاں، میَں ہمہ تن گوش ہوں، تشریح تو سن لوں

ستیہ پال آنند
حضور اس استعارے کی ذرا تصویر تو دیکھیں
دل و جگر ہوں جیسے دو کنارے موجہٗ خوں کے
معالج سے اگر پوچھیں تنفس کا چلن کیا ہے
تو ’’شش‘‘ یا ’’پھیپھڑے‘‘ کا نام لے گا اس حوالے سے
جگر میں سانس کی یہ آمد و شد؟ کیا تمسخر ہے

مر زا غالب
یہی ہے کیا تمہارا باز دعویٰ ، ستیہ پال آنند؟
بھلا کیا ’’پھیپھڑا ‘‘ بھی خوش بیانی کا نمونہ ہے؟
ریہ‘‘ بھی فارسی میں پھیپھڑے کا نام ہے، دیکھو’’
بہت بودے ہیں، بھدے ہیں، بہت ہی غیر متناسب
دل و جگر کے مقابل میں یہ الفاظ ناقص ہیں
سخن گو کا تکلم خوش بیانی کا نمونہ ہو
یہی ہے کلمہ جنبانی مری، یہی تقریر ہے، سمجھو
تمہارا پیش کردہ یہ نمونہ احمقانہ ہے
میں ایسی کج زبانی سے ہمیشہ دور رہتا ہوں

Advertisements
julia rana solicitors

ستیہ پال آنند
معافی، بندہ پرور، میں فقط اتنا ہی سمجھا تھا
کہ معنی شرط ِ اوّل ہے، فصاحت ثانوی شے ہے
مگر یہ طے ہو ا دونوں میں جو اصلی توازن ہے
وہی اصلی قلمکاری ، ہنر مندی، سلیقہ ہے!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply