وہ چار بھائی اور تین بہنیں ہیں‘ سارا گھرانہ تعلیم یافتہ‘ با شعورو بااخلاق ہے۔ ایک دفعہ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی ماں ان کے لیے ایک دعا کثرت سے مانگتی ہے کہ اے پروردگار‘ میری اولاد کو بیٹی نہ دینا۔ یہ سن کر میں چونک گیا کہ ایک مذہبی و تعلیم یافتہ گھرانہ اور ایسی سوچ کیوں؟ ٹھیک ہے‘ بیٹوں کی خواہش ہوتی ہے مگر بیٹیاں بھی تو رحمتِ خداوندی ہیں۔ میں نے وجہ کے لیے استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ والدہ کو اللہ کی تقسیم سے اختلاف نہیں لیکن وہ زندگی میں اپنی بیٹیوں کی شادی کے بعد ان کے اتنے دکھ اور پریشانیاں دیکھ چکی ہے کہ اب یہ دعا نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے لبوں پر آ جاتی ہے۔
سالہا سال سے ہندوؤں کے ساتھ رہنے کی بدولت ہم آج بھی تمدن میں ہنود ہیں۔ اس برعظیم میں اسلام کی کرنیں پھیلی تو سہیں لیکن اس کے نام لیواؤں کی زندگیوں میں ان کرنوں نے خاطر خواہ اثر نہ ڈالا اوروہ آج بھی فرسودہ رسم و رواج کے خلاف بغاوت کرنے کو تیار نہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ برائی اور عجیب و غریب رسم و رواج معاشرے میں اچھائی کے مقابلے میں انتہائی برق رفتاری سے پروان چڑھتے ہیں اور ان کی جڑیں اتنی مضبوط ہو جاتی ہیں کہ کوئی بھی ان کی انجام دہی سے پہلے دلیل طلب کر نا پسند نہیں کرتا جیسا کہ شبِ برات پر پٹاخے چلانا‘ بسنت و ویلنٹائن ڈے منانا‘ صرف عاشورہ کے دن فاتحہ خوانی و قبروں پر مٹی ڈالنے کے لیے قبرستان جانا‘ پیدائش والا دن شان و شوکت سے منانا اور صرف کیک ہی کاٹنا‘ جہیز دینا یا مفت خوری کو پروان چڑھاتے ہوئے طلب کرنا یابخوشی قبول کرنا وغیرہ وغیرہ۔ والدین کا بیٹی کو پالنا‘ اچھی تربیت و اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنااور سادگی سے اگلے گھر کو رخصت کر دینا کیا کافی نہیں ؟ یا پھر جاہلانہ رسوم کی پاسداری میں پیدائش سے ہی اس کے لیے جہیز اکٹھا کرنا شروع کر دیں‘ بارات پر ایک کثیر تعداد کی تواضع کریں‘ دولہے اور اس کے گھر والوں کو قیمتی تحائف سے نوازیں‘ نواسے یا نواسی کی پیدائش پر ایک دفعہ پھر مِنیّ جہیز کا بندوبست کریں وغیرہ وغیرہ۔
آج کے اس تہذیب یافتہ اور ترقی کی منازل طے کرتے دور میں بھی بنتِ حوا مظلوم اور نا انصافیوں کی دلدل میں پھنسی نظر آتی ہے‘اولاد نہ ہونے کی صورت میں اور بیٹیوں کی پیدائش پر لعن طعن کی حقدار یہی صنفِ نازک ہے جس سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی جیسی حرام موت کو بھی گلے لگانے سے نہیں کتراتی‘ مسئلہ اگر خاوند کی طرف سے ہو تو ساری زندگی نفسیاتی مریض بن کر خاموشی سے گزار دیتی ہے لیکن اگر پیچیدگیاں اس کی طرف سے ہوں تو تکلیف دہ طعنوں کے ساتھ ساتھ طلاق یا پھر سوتن کا دکھ بھی اسی کے مقدر میں ہے جبکہ مرد ہر حال میں گنگا نہایا ہوتا ہے‘ آخر کیوں؟ہر شادی شدہ خاتون خود عورت ہوتے ہوئے ہمیشہ بیٹے کی خواہش کرتی ہے لیکن کیا یہ اختیاری ہے‘ یقیناََ نہیں! اگر نہیں تو پھر وہ کیوں جواب دہ اور ایسے طعنے سننے کی مجاز ہے کہ تو نے کون سا بیٹے جنے ہیں؟طبّی لحاظ سے بھی یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جنس کے اعتبار سے بیٹے یا بیٹی کی پیدائش ہونا سراسر مرد پر منحصر ہے اور عورت کا اس میں کوئی کردار نہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ خالقِ کائنات کا یہ فرمان کہ وہ جس کو چاہے بیٹے دے یا بیٹیاں یا دونوں ملا کر یا پھر کسی کو کچھ نہ دے چاہے پوری دنیا اپنی طرف سے زور لگا لے۔
ہمارے مشاہدہ میں ایسے بہت سے والدین ہوں گے جو اپنی بیٹیوں کا رشتہ نہ ہونے‘ شادی کے اخراجات کو لے کر‘ شادی کے بعد بیٹی کے سسرال کی طرف سے دی گئی تکالیف کی بدولت مختلف قسم کے امراض میں مبتلا ہو کر اس جہانِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ لوگ آج بھی عموماََ لڑکیوں کے وجود کو بلا اور مصیبت سمجھتے ہیں ‘ نبوت محمدی نے اس بلا اور مصیبت کو ایسی رحمت بنا دیا کہ وہ نجات اخروی کا ذریعہ بن گئیں‘ فرمایا ’’جو کوئی ان لڑکیوں میں سے کسی لڑکی کی مصیبت مبتلا ہو اور پھر اس کے ساتھ محبت و مہربانی کا سلوک کرے تو وہ دوزخ کے عذاب سے اس کو بچا لے گی‘ وہ اس کے اور دوزخ کے درمیان پردہ بن کر حائل ہو جائے گی‘‘ نیز فرمایا ’’جو دو لڑکیوں کی بھی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائیں تو قیامت میں میرا اور اس کا مرتبہ دو انگلیوں کو اٹھا کر فرمایا کہ یوں برابر ہو گا‘‘ مزید فرمایا ’’ کہ جس کے لڑکی ہو اور وہ اس کو زندہ باقی رہنے دے اور اس کی بے تو قیری نہ کرے اور نہ اس پر لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا‘‘
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں