ذہانت (36) ۔ لیول/وہاراامباکر

کچھ دیر کے لئے فرض کیجئے کہ ہم ایسی دنیا میں ہیں جہاں پر مکمل طور پر خودکار گاڑیاں موجود ہیں۔ الگورتھم کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ جہاں ممکن ہو، تصادم نہ ہو۔ اور یہ اصول ٹریفک کو ہی بدل دے گا۔ اگر آپ پیدل ہیں اور گاڑی کے آگے کھڑے ہو گئے ہیں تو پھر گاڑی کو تو رکنا ہی پڑے گا۔ اگر چوراہے پر عام گاڑی پر ہیں اور دوسری طرف سے خودکار گاڑی ہے۔ آپ اسے راستہ نہیں دیتے تو خودکار گاڑی کو ہی پیچھے ہٹنا ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور اگر آپ کسی راستے میں ہی لوٹنا چاہیں تو چاہے سڑک پر بھاگتی خودکار گاڑی کے آگے کھڑے ہو جائیں، گاڑی رک جائے گی۔
اگر ایک سائیکل والا گاڑی کے آگے سڑک کے درمیان سائیکل چلانے لگے تو گاڑی غصہ نہیں کھائے گی۔ چپ چاپ پیچھے آتی رہے گی۔
سٹلگو کے مطابق یہ اصل مسائل ہیں۔
ان کا حل قوانین میں تبدیلی ہو گا۔ ایسے پیدل چلنے والے یا سائیکل سوار جو ان کی “شرافت” کا ناجائز فائدہ اٹھائیں، ان کی پکڑ ہو گا۔ اور ایسا کیا جاتا ہے۔ جب موٹرکار آئی تھیں تو پیدل چلنے والوں کے لئے قوانین بنے تھے۔ یا پھر موٹروے گھوڑے، سائیکل، پیدل، ٹانگے یا بیل گاڑیاں نہیں ہوتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر مکمل خودکار گاڑیاں درکار ہیں تو یہ سب کرنا ہو گا۔ جارحانہ ڈرائیور، سڑک پر بچے، سڑک کی مرمت کے سائن، مشکل پیدل لوگ، ایمبولینس وغیرہ، ان سب کو محدود کرنا ہو گا (اور یہ ہمیں دکھائے گئے سائنس فکشن کی طرز کے مستقبل سے مختلف ہے)۔
سٹلگو کہتے ہیں کہ “خودکار ٹرانسپورٹ کا جو خواب بیچا جاتا ہے اس میں دنیا ویسے ہی رہتی ہے اور روبوٹ اس میں انسانوں کی طرح ہی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ احمقانہ سوچ ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا ٹھہرئے۔ آپ میں سے کچھ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا تو ہو نہیں چکا؟ کیا خودکار گاڑیاں کروڑوں میل کا سفر نہیں کر چکیں؟
جی، بالکل۔ لیکن تمام سڑکیں برابر نہیں۔ کچھ آسان ہیں اور کچھ مشکل۔ خودکار گاڑیاں ہر جگہ پر کام نہیں کرتیں۔ (اگر ان کو طے شدہ go-zone تک محدود رکھا جائے تو یہ مسئلہ بہت آسان ہو جاتا ہے)۔
پال نیومین کا خیال ہے کہ خودکار گاڑیوں کا یہی مستقبل ہے۔ “یہ اس علاقے میں کام کریں گی جو ان کے لئے بہت جانا پہچانا ہے۔ جہاں پر ان کے مالک بہت پراعتماد ہوں کہ مسئلہ نہیں ہو گا۔ یہ شہر کا کچھ حصہ ہو سکتا ہے۔ کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں غیرمانوس سڑک ہو۔ یا جہاں گائے راستے میں آ جاتی ہو۔ دن کے خاص حصے مختص کئے جا سکتے ہوں”۔
جیک سٹلگو کہتے ہیں کہ “جو خودکار سسٹم لگتے ہیں، دراصل ایسے سسٹم ہیں جن کے اطراف کی دنیا پر قدغن لگائی گئی ہے تا کہ وہ خودکار لگیں”۔
ایسی گاڑیوں کے بارے میں مستقبل کے جو خواب دکھائے جاتے ہیں، وہ سراب ہیں۔
اور اگر آپ اس بارے میں قائل نہیں ہوئے تو آخری قطعہ امریکہ میں اس موضوع کے سب سے بڑے میگزین “کار اینڈ ڈرائیور” سے۔
“گاڑیوں کی کوئی بھی کمپنی یہ توقع نہیں رکھتی کہ بغیر ڈرائیور اور تصادم کا یوٹوپیا مستقبل قریب میں حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ کم از کم اگلی چند دہائیوں میں تو بالکل نہیں۔ کمپنیاں یہ خواہش کرتی ہیں کہ سرمایہ کار ان کو سنجیدہ لیں اور اس وجہ سے عام لوگوں کے تصور کو ابھارا جاتا ہے تا کہ دلچسپی برقرار رہے۔ اور اس دوران یہ بہت سی ایسی گاڑیوں فروخت کر سکیں جس میں ڈرائیور کی مدد کرنے والی جدید ٹیکنالوجی ہو”۔
ڈرائیور کی مدد کرنے والی ٹیکنالوجی؟ جی۔ ڈرائیور کے بغیر گاڑٖی “سب کچھ” یا “کچھ نہیں” والا معاملہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈرائیور لیس ٹیکنالوجی کو چھ الگ لیول میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ لیول 0 کا مطلب ہے کہ کسی قسم کی کوئی آٹومیشن نہیں۔ جبکہ لیول 5 مکمل خودمختار گاڑی کا سائنس فکشن والا خواب ہے۔ لیول 1 اور 2 میں کنٹرول ڈرائیور کے پاس ہی ہوتا ہے لیکن ڈرائیور کی مدد سسٹم کرتا ہے۔ لیول 3 اور 4 میں سسٹم کے پاس۔ اگر ایک محدود geo-fenced علاقے میں مکمل خودکار موڈ کی آپشن ہے تو یہ لیول 4 ہے۔
(اس کو کئی بار ایسے کہا جاتا ہے کہ لیول 1 میں پیر ہٹائے جا سکتے ہیں، لیول 2 میں ہاتھ ہٹائے جا سکتے ہیں، لیول 3 میں آنکھ ہٹائی جا سکتی ہے۔ لیول 4 میں توجہ ہٹائی جا سکتی ہے)۔
شاید لیول 5 تو ابھی دور ہے لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ گاڑیوں میں بتدریج بہتری کے ساتھ اوپر جاتے رہیں؟ گاڑی کو رفتہ رفتہ خودمختار کیا جائے اور انسان کی ضرورت صرف ایمرجنسی میں ہو؟ جس طرح ٹیکنالوجی بہتر ہوتی جائے، یہ ضرورت کم ہوتی جائے؟
بدقسمتی سے، چیزیں اتنی سادہ نہیں ہوتیں۔ اس کہانی میں ایک آخری twist ہے۔ ایک ناگزیر رکاوٹ جو کہ مکمل خودمختار سے ذرا سی بھی کم گاڑیوں کے لئے مسائل کی بڑی پٹاری ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply