• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تحریکِ شناخت کا دوہرے ووٹ کے تین نکاتی مطالبہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے یہ کیوں ضروری ہے ؟اور کیسے ممکن ہے۔؟ کے پانچویں زیر اشاعت ایڈیشن سے اقتباس

تحریکِ شناخت کا دوہرے ووٹ کے تین نکاتی مطالبہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے یہ کیوں ضروری ہے ؟اور کیسے ممکن ہے۔؟ کے پانچویں زیر اشاعت ایڈیشن سے اقتباس

حکومت برطانیہ نے برصغیر میں انتخابی سیاست متعارف کروانے کے بعد انڈین کونسلز ایکٹ 1909جسے مورلی منٹو اصلاحات بھی کہا جاتاہے ۔۔ میں ہی اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے علاؤہ جنرل نشستوں پر انتحابات لڑنے اور ووٹ ڈالنے کا حق بھی متعارف کروایا تھا،جو یقیناً دوہرے ووٹ کا ہی حق تھا،کیونکہ اس میں مخصوص نشستوں پر انتخابات کے ساتھ اقلیت قرار دیئے گئے مذہبی گروہوں کو جرنل نشستوں پر ووٹ ڈالنے اور انتحاب لڑنے کا حق تھا۔۔۔جس میں بعد میں 1930میں دلتوں کو بھی پسے ہوئے طبقات کے نام سے ایک اقلیتی گروہ قرار دیا گیا ۔۔جس کے لئے برطانوی وزیر اعظم رمزے میکڈونلڈ نے برصغیر کی 11مذہبی اقلیتوں کے لئے کمیونل ایوارڈ کے سے انتحابی نظام متعارف کروایا ،لیکن گاندھی جی کی اس نظام کے خلاف بھوک ہڑتال کے نتیجے میں ڈاکٹر بھیم ،راؤ ،رام، امبیڈکر نے اپنے ساتھیوں کے کہنے پر پونا پیکٹ کرکے کے اپنے لوگوں کے لئے ہندؤ دھرم کے اندر رہتے ہوئے کمیونیل ایوارڈ سے کہیں زیادہ نشستیں مخصوص کروا لی ۔ اس تاریخی واقعہ  کے بارے میں کئی کتب و آرٹیکل میں یوں لکھا گیا ہے ۔۔۔یقینا  ًیہ 1930 ہی کا زمانہ تھا ۔جب اقلیتوں کے لئے خصوصاً سماج و معاشرے کے پسماندہ اور ٹھکرائے ہوئے طبقات کے لئے جداگانہ مذہبی شناخت کے ساتھ جرنل نشستوں کے لئے بھی انتخابات کا راستہ کھلا رکھنے کے لئے دوہرے ووٹ کی اصطلاح استعمال کی گئی ۔اسی پونا پیکٹ کے اثرات گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935پر پڑے ۔جس میں مسلمانوں، سکھوں ، مسیحو ،ودیگر اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کا انتحابی نظام معتارف کروایا گیا ۔ جو صرف جداگانہ طریقہ انتحاب کے نام سے مشہور ہوا ۔۔۔جس کے لئے امبیڈکر ہمیشہ یہ کہتے رہے ۔۔”کمیونیل ایوارڈ میں دیا گیا ہمارا دوسرا ووٹ ہمارا بہت بڑا سیاسی ہتھیار ہوتا جو ماضی کی ناقابل تلافی غلطیوں کا ازالہ کرتا ۔۔”

انڈین کونسلز ایکٹ 1909، المعروف مورلی منٹو اصلاحات ،پونا پیکٹ ،کمیونل ایوارڈ کے پس منظر اور ڈاکٹر بھیم راؤ رام امبیڈکر جی کے پونا پیکٹ پر پچھتاوے کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ کہ دلتوں کے لئے مذہبی شناخت کےلئے مخصوص جداگانہ نشستوں کے ساتھ جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے اور ووٹ ڈالنے کا راستہ بھی کھلا رکھا گیا تھا  ۔اس کے لئے دوہرے ووٹ کی اصطلاح استعمال کی گئی ۔اس تاریخی حقیقت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ضیا الحق نے اقلیتی زعماء خصوصاً مسیحیوں  کے کہنے پر جو انتخابی نظام ان پر تھوپا۔وہ اقلیتوں اور معاشرے کے پسماندہ طبقات کے لئے حکومت برطانیہ کے متعارف کروائے گئے کمیونل ایوارڈ/دوہرے ووٹ کے ایک حصے کی مسخ شدہ شکل تھی ۔جس میں ضیا الحق کے ماہرین نے مذہبی شناخت پر الیکشن لڑنے کا حق دے کر اقلیتوں سے جنرل نشستوں پر انتحابات لڑنے اور ووٹ ڈالنے کا حق سلب کرلیا تھا ۔

اس نظام کے وضع ہونے کا سب سے شرم ناک پہلو یہ تھا کہ ہمارے  اُس وقت کے سیاسی و سماجی اکابرین بھی آج جیسے ہی تھے ۔جو اجتماعی مفادات کی حفاظت کے لئے درکار فہم فراست و خلوصِ سے عاری تھے ۔ ان میں سے اکثر جو میرے لئے انتحائی قابل احترام ہیں ۔لیکن انھیں آج بھی اگر کہا جائے کہ جناب اس مسلئے پر بات کرنے سے پہلے کچھ   پڑھ کر اس مسئلے کو سمجھ لو تو وہ بڑے تفاخر سے کہتے ہیں “پڑھنے کا ہمارے پاس وقت نہیں”شائد اسی لئے وہ جداگانہ انتخابی  نظام کو  بغیر کوئی متبادل دیے  مخالفت بھی کرتے رہے۔ اور پانچ بار اس نظام کے تحت الیکشن بھی لڑتے رہے۔

کمال یہ ہے کہ ان تاریخی حقائق کے ہوتے ہوئے بھی نہ 21 نومبر 1975 کو آئینی ترمیم کروانے والےمسیحیوں  نے، نہ کبھی 1985سے لے کر 1997 تک پانچ بار الیکشن میں حصہ لینے والے ایم این ایز ،ایم پی ایز نے نہ این جی اوز والوں نے ان تاریخی حقائق کی طرف توجہ دی ۔۔ مجموعی طور پر 1970کے “بالغ حق رائے دہی والے”کے بعد سے آج 2023 تک 53 سال میں کسی کی نظر ان حقائق پر   پڑی ہی نہیں  ۔۔انتہائی   ندامت کی بات یہ ہے ،ان سینکڑوں خواتین وحضرات میں سے خاصے پڑھے لکھے، اور کئی تو وکلاء بھی رہے ہیں۔۔ ان سارے حقائق کے آشکار ہونے کے بعد تو   ستمبر 2023 کو یہ سطریں لکھے جانے تک ۔۔جو بیچارے اس تاریخی غلط العام کی بنیاد پر ضیاء الحق کے دیے گئے مسخ شدہ جداگانہ انتخابی نظام کو ہی برطانوی جداگانہ اقلیتی انتخابی نظام جو دراصل دوہرے ووٹ والا انتخابی نظام تھا سمجھے  بیٹھے ہیں ،انکا کوئی قصور بھی نہیں اور وہ بہت ہی سادہ لوح اور معصوم ہیں ۔۔ ہاں اگر ان میں سے کچھ یہ حقائق جاننے کے بعد پھر بھی اپنے مطالبے پر ڈٹے رہتے ہیں۔۔ پھر نہ تو وہ معصوموں کی فہرست میں ہونگے نہ سادہ لوحوں کی۔
تحریک شناخت زندہ باد پاکستان پائندہ باد

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے ۔۔وہ سماجی آگاہی کی ایک فکری تحریک کے بانی رضا اور 20کتب کے مصنف ہیں ۔جن چار رئیل اسٹیٹ کے موضوع پر جن میں نمایاں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اور 15کتب تحریک شناخت کے اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے ہیں ۔جن میں نمایاں” دھرتی جائے کیوں پرائے”، شان سبزو سفید ، پاکستان کے مسیحی معمار ،کئی خط اک متن ، اور شناخت نامہ دی آئی ڈنٹنٹی ہیں.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply