مجھے یاد ہے۔۔۔قسط نمبر 14۔۔۔حامد یزدانی

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں

14 قسط

لاہور میں اہلِ تشیع کے دینی ادارے ’’جامعہ المنتظر‘‘ کی جانب سے ایک نعتیہ مشاعرہ کا دعوت نامہ والد صاحب کا موصول ہوا ہے اور یہ دعوت نامہ پہنچانے کا فریضہ ڈاکٹر عبدالرؤف کریمی صاحب نے انجام دیا ہے جو  ہمارے مکان مالک ہیں اور مزنگ کے ایک جانے پہچانے متمول خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلے تو وہ مزنگ ہی میں رہتے تھے۔ انہی کی وسیع رہائش کا  عقبی حصہ انھوں نے ہمیں کرایہ پر دے رکھا ہے ۔ ان کے ڈائننگ روم کی کھڑکیاں ہمارے صحن میں کُھلتی ہیں اور تین کھڑکیوں کے ساتھ ایک دروازہ بھی موجود ہے جسے بوقتِ ضرورت کھول دیا جاتا تھا۔ یہ بازار جانے کا شارٹ کٹ ہے ۔  ڈائننگ روم سے بائیں مڑیں تو ڈاکٹر صاحب کے کلینک کا اندرونی دروازہ آجاتا ہے۔ اسے عبور کریں تو مشورے کا کمرا، دائیں طرف ڈسپنسری کے باہر دھری کرسیاں۔ بس ان کے پاس سے گزرتے ہوئے بیرونی دروازہ پار کریں اور آگیا بازار۔ اگر ہم اپنے گھر کا دروازہ استعمال کریں تو ڈیوڑھی سے نکل کر ساری گلی عبور کرنا پڑتی ہے۔ پھر بائیں مڑیں اور پھر سے بائیں مڑیں اور اب بازار شروع ہوگا اور چھ سات دکانوں کے بعد کلینک کا وہ دروازہ آئے گا جس تک شارٹ کٹ سے چند سیکنڈ میں پہنچ سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے کلینک کا وقت ہو تو شارٹ کٹ کا استعمال بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ہاں، کبھی کبھار آنکھ بچا کر ہم ادھر سے کھسک بھی لیتے ہیں مگر اکثریہ سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ اب کچھ عرصہ سے ڈاکٹر صاحب مع اہل وعیال گلبرگ منتقل ہوچکے ہیں۔ پہلے ان کے پاس ایک پرانے ماڈل کی کار تھی جسے سٹارٹ کرنے کے لیے بچوں کو دھکا لگانا پڑتا تھا مگر اب وہ مرسیڈیز میں سفر کرتے ہیں۔ تو اِسی کشادہ مرسیڈیز میں ہم جامعہ المنتظر پہنچے ہیں۔ ڈاکٹر رؤف والد صاحب کا بہت احترام کرتے ہیں اورجب بھی کسی نعتیہ محفل کا اہتمام کرتے ہیں والد صاحب کے لیے سواری بھیجتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ پہلی بار آیا ہوں۔ وہ مجھے دیکھ کر خوش ہیں اور میرے نعت کہنے پر والد صاحب کو مبارک باد دیتے ہیں۔ میں اس جامعہ المنتظر میں بھی پہلی بار آیا ہوں۔ یہ کافی وسیع و عریض ہے اور بہت سلیقے سے بنی ہوئی ہے۔ منتظمین دروازے پر ہمارا استقبال کرتے ہیں اور ادارہ کی مسجد میں لے جاتے ہیں جہاں محفل کا انعقاد کیا گیا ہے۔ یہاں ہر مسلک کے نعت گو شعراء اور نعت خواں حضرات موجود ہیں۔ محفل بہت اچھی رہی ہے اور واپسی پر ہم گلبرگ ڈاکٹر صاحب کے گھر رُکے ہیں۔ چائے کا ایک اور دور چلا ہے۔ چائے کے دوران میں نعت اور قومی یکجہتی اور تصوف کے مختلف مسالک میں پائے جانے والی مماثلتوں اور اختلافات پربات ہوتی ہے۔ مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ان دنوں دینی اور فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ تصوف میں بھی دل چسپی لینے لگے ہیں۔ یہ ان کی شخصیت کا ایک نیا رُخ ہے میرے لیے۔

٭٭٭٭٭                                                                                                                   

’’بھئی، حامد۔یہ بتاوؤتم مشاعرہ پڑھنے جارہے ہو یا کلاس؟‘‘

شہزاد احمد صاحب کے اس اچانک سوال نے مجھے ہڑبڑا دیا ہے۔ شاعروں سے بھری ویگن اپنی سی رفتار سے جڑانوالہ کی جانب رواں دواں ہے جہاں سیلاب زدگاں سے اظہار ہمدردی و یک جہتی کے لیے مقامی انتظامیہ نے ایک خصوصی مشاعرہ کا اہتمام کیا ہے۔ لاہور سے جن شعرا کو مدعو کیا گیا ہے ان میں شہزاد صاحب کے علاوہ والدصاحب (یزدانی جالندھری) عارف عبدالمتین اور دوسرے سینئر شعراء بھی شامل ہیں اور نوجوان شعرا ءمیں سے مجھے، اصغر عابد اور عباس تابش کو دعوت دی گئی ہے۔

’’جی، کیا مطلب؟‘‘ میں شہزاد صاحب کے سوال پر استفسار کرتا ہوں۔

’’ یار، تم نے گورنمنٹ کالج کا بلیزر پہنا ہوا ہے۔اس لیے پوچھ رہا ہوں۔‘‘ شہزاد صاحب شریر آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

مجھ سے کوئی جواب بن نہیں پارہا۔

’’پریشان ہونے ضرورت نہیں۔ میں تو بس یونہی مذاق سے کہہ رہا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ کالج کے دنوں میں میں بھی بلیزر ہی میں دکھائی دیتا تھا۔ بہت اچھا لگتا تھا مجھے اسے پہننا۔ مجھے وہ دن یاد آگئے۔‘‘ مجھے پریشانی سے نکالنے کے لیے  وہ وضاحت  کرتے ہیں اور پھر اعلان کرتے ہیں  کہ مشاعرہ سے واپسی پر ویگن میں طرحی مشاعرہ ہوگا اور یہ کہ مصرع طرح نوجوان شعرا ءطے کریں گے اور بزرگ شعر کہیں گے۔ اس پر فضا میں ہلکا سا قہقہہ بلند ہوتا ہے۔

مشاعرہ گاہ واقعی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ کرسیوں کی اگلی دو قطاریں مہمان شعراء کے لیے مختص ہیں۔ سو، ہمیں وہاں لے جایا گیا۔میں والد صاحب کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا ہوں۔ میرے ساتھ والی کرسی پر شہزاد احمد بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ پروفیسر غلام جیلانی اصغر اور ان کے ساتھ ڈاکٹر وزیر آغا۔مشاعرہ کی صدارت بزرگ شاعر جناب ساغر نظامی کررہے ہیں۔ ان کے برخوردار فرخ راجا بھی، جوجڑانوالہ ہی میں مقیم ہیں، شعرا ءکی فہرست میں شامل ہیں۔ شہزاد صاحب پروفیسر غلام جیلانی اصغر سے گفتگو میں مصروف ہیں۔ اصغر صاحب انھیں کہہ رہے ہیں:

’’ شہزاد صاحب، آپ کے سائنس سے متعلق مضامین اور تراجم میری نظر سے گزرے۔ بہت وقیع ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ اب آپ سماجی علوم کی جانب بھی آئیں اورامریکی سوشیالوجسٹ ایلوِن ٹافلر کی مستقبل بیں تصانیف ’’ فیوچر شاک‘‘ اور ’’تھرڈ ویوو‘‘ کو اردو میں منتقل کریں۔‘‘

’’ جی بہتر۔ آپ کی علم میں ایسی گہری دل چسپی سے مجھے ہمیشہ بہت فائدہ ہوا ہے۔‘‘ شہزاد صاحب خوش ہوکر کہتے ہیں۔ اتنے میں میری خالہ ذاد بھائی سید زاہد حسین گیلانی ہم سے ملنے آگئے ہیں اور مشاعرہ کے بعد مجھے اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ شہزاد صاحب احتجاجاً کہتے ہیں:

’’ بھائی، کیوں آپ ہمار ایک شاعر ’توڑ‘ رہے ہیں۔ واپسی پر طرحی مشاعرہ طے ہے۔‘‘

’’اس کے حصے کے شعر بھی میں کہہ لوں گا۔ اسے رہنے دیجیے۔ اپنی خالہ اور ان کے بچوں سے بہت بیار ہے اِسے۔اسی خالہ کی ایک بیٹی تو ہماری بہو بھی ہے۔ ساجد بیٹے کی بیوی ہے۔‘‘ والد صاحب میرے ٹھہرنے کی راہ ہموار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ زاہد بھائی شکریہ کہہ کر خوش خوش اپنی نشست پر لوٹ گئے ہیں۔مشاعرہ میں لاہور اور سرگودھا کے ساتھ ساتھ فیصل آباد اور دوسرے شہروں کے شعرا ءکی بھی بڑی تعداد موجود ہے ۔ والد صاحب تو اختتام پر لاہور واپس لوٹ گئے ہیں اور میں کچھ روز اب یہیں رہوں گا۔

٭٭٭٭٭

جون کا مہینہ اپنے شباب پر ہے۔ اس گرمی میں زندہ دلانِ لاہور یا تو نہر کا رُخ کرتے ہیں یا لارنس گارڈن (باغِ جناح) کے بوڑھے پیڑوں کی خُنک اور شفیق چھاؤں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ ایسے میں سال کے طویل اور گرم ترین دن نزوالی بازار مزنگ میں واقع ڈاکٹر تبسم رضوانی صاحب کے مطب پر، جس کے بیرونی حصہ میں مزاحیہ شاعر استاد پھل آگروی صاحب نے’’الذائقہ‘‘ کے نام سے ایک ننھی منی دکان کھول رکھی ہے، استاد  کی ’’برسی‘‘ یا سال گرہ منعقد کی جارہی ہے۔

’’ اس قدر گرم دن اور پھر پھل صاحب کی تقریب۔۔۔پاپا جی، یہ برسی ہے یا سال گرہ؟‘‘ میں دعوت نامہ دیکھ کر والد صاحب سے پوچھتا ہوں۔

والد صاحب مسکرا دیتے ہیں۔

’’ دونوں ہیں۔ یہ ثمر اکبرآبادی کی برسی کا دن ہے اور پھل آگروی کی ولادت کا۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔ میرے چہرے پر پھیلی حیرت کی عبارت پڑھ لیتے ہیں۔ فرماتے ہیں۔

’’بھئی، اِس روزعبدالحمید صاحب ثمراکبرآبادی سے پھل آگروی بنے تھے اور انتقال و ولادت کی اس واردات کے پیچھے ہمارے ڈاکٹر تبسم رضوانی کا ہاتھ ہے جنھوں نے ایک سنجیدہ شاعر کو مزاحیہ شاعری کی جانب مائل کرنے کی ٹھانی تھی اور کام یاب بھی ہوگئے۔ چناں چہ اس دن دونوں تقریبات ساتھ ساتھ منعقد ہوتی ہیں۔ تقریب کافی دل چسپ ہونے والی ہے۔ یہ دیکھو، رسالہ ’’احساسات‘‘ نے تو اس موقع پر ’’پھل آگروی نمبر‘‘ بھی شائع کردیا ہے۔‘‘

میں نے والد صاحب کے ہاتھ سے رسالہ لے لیا اور اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔

تقریب واقعی دل چسپ ہے۔ تقریب سے قبل پھل صاحب کو موسمی پھلوں کا ایک ہار پہنایا گیا ہے اور شعرا ءاور ادبا ءان کی قیادت میں بازار کا ایک چکر لگاتے ہیں۔ پھر واپس پہنچتے ہیں اور تقریب کا آغاز ہوتا ہے۔ تقریب میں پھل صاحب کے شاگرد ہل، چل اور ٹل صاحبان بھی شریک ہیں۔ پھل صاحب کو ایک کشتی نُما ٹوپی پیش کی جاتی ہے جس پر بجلی کا ایک قمقمہ بھی آویزاں ہے۔ پھل صاحب مہمانِ خاص کی نشست پر رونق افروز ہوتے  ہیں اور وہ قمقمہ روشن ہوجاتا ہے۔ یہ گویا تقریب کے آغاز کا اعلان ہے۔ پھر پھل صاحب کی شاعری اور شخصیت پر کھللکھلاتی تحریریں پیش کی جاتی ہیں۔صلاح الدین ناسک کی ہندی لب و لہجہ کی تحریر کا لطف اب بھی کچھ کچھ تازہ ہے۔ والد صاحب بھی ایک نظم سناتے ہیں جس پر انھیں بہت داد ملتی ہے۔ تقریب آغاز ہونے کے بعد پھل صاحب اپنے گلے میں جھولتا  پھلوں والا وزنی ہار اتار کر میز پر رکھنا چاہتے ہیں مگر ڈاکٹر تبسم  انھیں ایسا کرنے سے روک دیتے ہیں۔ پھل صاحب اور حاضرین تقریب سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ آخر میں استاد پھل صاحب سے ان کا کلام سنا جاتا ہے اور داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ کچھ اشعار مجھے اب بھی یاد ہیں:

لے لے سِنگر مشین قسطوں میں

میں دِلا دوں گا تین قسطوں میں

۔۔۔۔۔۔۔

جٹّی سے ملاقات اٹل کھیت کے اندر

میں اُس کو سناتا ہوں غزل کھیت کے اندر

ٹِک سکتے نہیں فصلی بٹیرے مِرے آگے

یہ بات سمجھنی ہوتو چل کھیت کے اندر

۔۔۔۔۔۔۔

نہ میری آنکھ نہ قلب وجگر میں رہتا ہے

وہ درد بن کے مرے آدھے سر میں رہتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔

تُو اگر اُس کو کرے گا یاد پکڑا جائے گا

چھپ گئی ہے یہ خبر استاد پکڑا جائے گا

گر جلی آتی رہیں پکی پکائی روٹیاں

دوستوِ ملتان میں شہزاد پکڑا جائے گا

(شاعر شہزاد احمد ملتان میں روٹی پلانٹ کے سربراہ رہے ہیں)

……..

پھل بِک رہا ہے پھل کی دکاں پر تو کیا ہوا

تھانے میں تھانیدار برائے فروخت ہے

٭٭٭٭٭                                                                                                        

یہ قہقہہ بار تقریب شام ڈھلے اختتام پذیر ہوئی ہے۔ والدصاحب وہیں سے روزنامہ ’سیاست‘ کے دفتر یعنی اپنےکام پر روانہ ہوگئے ہیں اور میں اپنے بھائیوں خالد، شاہد، ساجد، راشد اور ماجد یزدانی کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑا ہوں۔

استاد پھل اب’’باقیاتِ تقریب‘‘ سمیٹ رہے ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

٭٭٭٭٭

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply