“کتے، تیتھوں اتے”….محمد اشفاق

بھیڑیوں میں حفظ مراتب کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ شکار پہ پہلا حق سینئر موسٹ بھیڑیے کا ہوتا ہے اور پھر یونہی درجہ بدرجہ۔ اس میں قباحت یہ ہوتی ہے کہ برادر خورد کی باری آنے تک عموماً کچھ بچتا ہی نہیں۔ انسان اسی لئے کہتے کہ “سگ باش، برادر خورد مباش” لیکن برادر خورد ہی سگ بھی ہو تو اس بیچارے کے پاس تو کوئی آپشن ہی نہیں۔
آج سے تیس چالیس ہزار سال قبل مگر ایک بھیڑیے نے اس ہائیرارکی سے بغاوت کا فیصلہ کیا۔ قیاس ہے کہ یہ ایک مادہ بھیڑیا رہی ہوگی۔ یہ اپنے غول سے الگ ہوئی اور انسانوں کی ایک بستی کے قریب ڈیرہ ڈال کے بیٹھ گئی۔ یہ غالباً کائناتی تاریخ کی سب سے سمارٹ موو تھی۔
یہ جانتی تھی کہ بقاء کی جنگ میں انسان دیگر تمام جانوروں سے زیادہ کامیاب جا رہا ہے۔ اس نے کئی ایک جانوروں کو تو یوں مسخر کر لیا ہے کہ اب وہ اس کے اشارہ ابرو کے غلام ہیں۔ اس کے پاس خوراک اور پناہ گاہ بھی ہر موسم میں دستیاب ہوتی ہے۔ وہ ہجرت اختیار کرتا ہے تو اپنے جانوروں کو بھی پیچھے نہیں چھوڑتا۔ چنانچہ اس نے انسانوں سے دوستی گانٹھنے کا فیصلہ کیا۔
انسانوں کا اس وقت تک (اور اب بھی) صرف سبزی خور جانوروں پہ بس چلتا تھا۔ گوشت خور درندوں سے وہ خائف رہا کرتا تھا۔ بھیڑیے اس کیلئے خصوصاً خطرے کا باعث تھے کہ ان سے اس کے پالتو جانور محفوظ تھے نہ وہ خود۔ چنانچہ اس مادہ بھیڑیے کو انسانوں کے سامنے خود کو بےضرر ظاہر کرنے کیلئے بہت ایکٹنگ کرنا پڑی۔ مگر پاپی پیٹ کی خاطر اس نے کی۔
یہ پہلا بھیڑیا تھا جسے بھوک کے ہاتھوں کتا بننا پڑا۔
اور یہاں سے کرہ ارض بلکہ معلوم کائنات میں دو مختلف انواع کے جانداروں کے درمیان سب سے کامیاب پارٹنرشپ کا آغاز ہوا۔ انسانوں اور کتوں میں ایک دوسرے کیلئے جو ہمدردی، پیار اور یگانگت پائی جاتی ہے اس کی کوئی دوسری مثال ہمیں نہیں ملتیں۔ بلیاں ڈسٹینٹ سیکنڈ ہیں اس معاملے میں۔
ہم انسان کتوں کو اپنے بعد دنیا کی دوسری ذہین ترین مخلوق قرار دیتے ہیں۔ سچ تو یہ کہ اس میں خودنمائی اور خوش فہمی زیادہ ہے، حقیقت کم۔ حقیقت تو یہ ہے، جیسا کہ آپ آگے چل کر خود دیکھیں گے کہ ہم کتوں کے بعد دنیا کی دوسری ذہین ترین مخلوق ہیں۔
کتوں کی چونکہ دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے اور محسوس کرنے کی تمام صلاحیتیں ہم سے کہیں بہتر ہیں اور مشاہدے کے سوا انہیں اور کوئی خاص کام بھی نہیں ہوتا تو وہ جلد انسانوں کے بارے میں وہ کچھ بھی جان گئے جس کا خود انسانوں کو بھی ادراک نہیں۔
مثلاً ابتدائی چند برس ہی میں وہ سمجھ گئے کہ انسان سے زیادہ کمینہ، سفاک اور مطلبی آقا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ کتوں نے دیکھا کہ انسان اپنے پالتو جانوروں کے بچوں کے حصے کا دودھ پی جاتے تھے۔ صرف ان کی درندوں اور موسم کی چیرہ دستیوں سے حفاظت کے بدلے ان سے دن رات مشقت لیتے تھے۔ حتیٰ کہ اپنے ان دیکھے آقاؤں کے نام پر اپنے لاڈپیار سے پالے جانور تہہ تیغ کر ڈالتے اور ان کی لاشوں کے گرد والہانہ رقص کرتے تھے۔ ان کا گوشت چبا ڈالتے تھے، کھال کے پہناوے بنا لیتے تھے، یہاں تک کہ ان کی ہڈیاں اور آنتیں بھی نہیں بخشتے تھے۔
کتوں نے اس سے یہ سبق سیکھا کہ انسانوں کے درمیان سلامت رہنے کا یہی طریقہ ہے کہ اپنے دانت اور پنجے سلامت رکھے جائیں اور اپنی چابک دستی و چستی برقرار۔
دوسرا وہ یہ جان گئے کہ جس جاندار کی کوئی عملی افادیت نہ ہو انسان اس پہ وقت ضائع نہیں کرتے۔ اسے مار ڈالتے یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کتوں کی خوش نصیبی یہ ہوئی کہ ان کی طرح انسان بھی ٹیریٹوریل تھے۔ یعنی اپنے ٹھکانے اور ملکیت کی حدود کے بارے میں بے حد حساس۔ کتوں نے ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور ان کی ٹیریٹری کو اپنی ملکیت بنا لیا۔ کتے اپنی حدود کی خاطر اپنے کزنز اور دیگر جانوروں سے لڑتے بھڑتے تھے، انسان یہ سمجھے کہ ہماری حفاظت کر رہے۔ چونکہ انسانوں کے پالے اور کوئی جانور ان کی باؤنڈریز کی حفاظت کے اہل نہ تھے تو کتے اس ایک ہی چھلانگ میں دیگر پالتو جانوروں سے اوپر پہنچ گئے۔ یہاں تک کہ انسانوں نے اپنے دیگر جانوروں کی حفاظت بھی کتوں کے سپرد کر دی۔
ad
تیسرا سبق کتوں نے یہ سیکھا کہ انسان کو شکار کا شوق تو بہت ہے مگر شکار کرنے میں وہ بہت اناڑی ہے۔ چنانچہ انہوں نے شکار میں بھی انسانوں کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ ان کی فطرت میں ہائیرارکی رچی بسی تھی تو وہ سینئر سے پہلے شکار نہیں کھاتے تھے۔ انسانوں نے اسے بھی ان کی محبت سمجھ لیا۔
اس دوران وہ اپنے طاقتور مشاہدے کی بدولت انسانوں کے جذبات و محسوسات کو سمجھنا اور ان کے مطابق ردعمل دینا سیکھ گئے تھے تو اب ان کی حیثیت ایک کارامد اسسٹنٹ سے بڑھ کر فیملی ممبر والی ہو گئی۔ یہاں تک کہ انہوں نے ہماری خواب گاہوں میں آ کر دم لیا۔
انسانوں کو رحمت کے فرشتے اور کتے کے درمیان انتخاب کا موقع دیا جائے تو اینی گیون ڈے، انسان کتے کا انتخاب کرتے ہیں۔ کیونکہ رحمت کا فرشتہ نہ تو گیند پکڑ کے لاتا ہے نہ مہمانوں سے ہینڈ شیک کرتا ہے۔ نہ ہی آپ کے صوفے کے کشن پھاڑتا اتنا کیوٹ دکھتا ہے۔
لیکن ہم سمجھتے یہی کہ ہم کتوں سے زیادہ ذہین ہیں۔
اب وہ بولتے نہیں تو آپ کو خوش فہمی ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے سب کچھ ہیں تو یقیناً بولنا بھی ان کیلئے مشکل نہ تھا۔ لیکن انہوں نے دیکھا کہ طوطا بیچارہ دو حرف سیکھ جائے تو انسان گھنٹوں اس کے سامنے بیٹھے بک بک کرتے رہتے تو یہ دیکھ کر انہوں نے خاموشی اختیار کی۔ ویسے بھی جب محض دم ہلانے یا غرانے سے کام چل جاتا ہو تو بولنا ضروری ہے کیا؟
اب یہاں تک صرف اتنا فرق رہ گیا تھا کہ انسان آقا تھے اور کتے غلام۔ ان کی ذہین تر نسلوں نے ہمارے گھروں میں داخل ہو کر یہاں بھی ہمارا تختہ الٹ دیا۔
اب انسانوں کی ہزاروں فیکٹریاں ہیں جہاں لاکھوں انسان دن رات کتوں کیلئے خوراک تیار کرنے میں لگے رہتے۔ لاکھوں انسان ہیں جنہوں نے دکھی “کتانیت” کی خدمت کو اپنا شعار بنا رکھا ہے، ان کا تعارف یوں کروایا جاتا کہ “ان سے ملیں یہ ہمارے کتے کے ڈاکٹر ہیں”
آپ خود کو ہی دیکھ لیجئے۔ آپ کہلاتے کتے کے مالک ہیں۔ مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ اس کے قیام و طعام کا خیال رکھنا آپ کا فرض ہے۔ آپ کے گھر کے وہ گوشے جہاں آپ کا جانا ممنوع ہے، آپ کا کتا وہاں دندناتا پھرتا۔ اسے نہلانا دھلانا، بال شیمپو کرنا، کنگھی کرنا، ان کا پیڈی کیور کرنا سب آپ کے ذمے ہے۔ اپنے بچوں کو آپ بھلے ویکسینیٹ نہ کرائیں، کتے کی ویکسینیشن لازمی ہے۔ اس کے ساتھ اس کے موڈز اور ٹینٹرمز کا خیال رکھنا، اسے بلاناغہ واک پہ لے جانا۔ اور دوران چہل قدمی جیب میں خالی شاپر اور ہاتھ میں دستانہ رکھنا تاکہ اس کی پوٹی صاف کر سکیں۔ تو مالک کون ہوا؟
ہماری حکومتیں ان کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہیں۔ پوٹی کتا کرتا ہے، جرمانہ آپ پر ہوتا ہے۔ اب یہ کہاں کا انصاف ہے؟
اب یہ تو ان کا احوال ہوا جو ازراہ کرم دم ہلا کر، ہمارے پالتو کہلاتے ہیں۔ لیکن کتوں میں اکثر آزاد منش ہیں، جنہیں اپنے معاملات میں ہماری مداخلت گوارا نہیں۔ یہ ہمارے گھروں کے علاوہ باقی ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ یعنی سڑکوں، گلیوں، محلوں، قبرستانوں، مارکیٹوں، کھیتوں کھلیانوں میں۔ غرض جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔ سندھ میں تو یہ ہسپتالوں کا راؤنڈ بھی لگاتے رہتے۔
ہماری مسجد میں جیسے ہی فجر کی اذان ہوتی ہے، ایک نوعمر بانکا سا سفید کتا مسجد کے گیٹ کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ درویش ہر نمازی کی قدم بوسی اپنے لئے سعادت اور نجات اخروی کا باعث سمجھتا ہے۔ اب اپنی صبح کا آغاز کون کم بخت کسی معصوم بے زبان کو پتھر یا چھڑی مار کر کرے۔ چنانچہ آپ لوگ خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثناء کرتے فجر پڑھنے جاتے ہیں، تو ہم اہل محلہ ہش ہش اور دھر دھر کرتے۔
آپ یہی دیکھ لیں کہ کوئی انسان بیچارہ آپ کی زمین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ بھی لے تو آپ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ جبکہ کتے صاحب اعلانیہ اور سرعام، عین آپ کے کھیت کے وسط میں کھڑے وصل کے پرنشاط لمحوں کا لطف اٹھا رہے ہوتے اور آپ خجل ہو کر ادھر ادھر دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
چونکہ ان کے وصل کے لمحات بھی گھنٹوں پہ محیط ہوتے تو اس دوران آپ ٹریکٹر سائیڈ پہ کر کے خاموش تماشائی بنے رہتے۔ میں تو ان کی ٹائمنگ دیکھ کر اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے حکماء نے شیر اور ریچھ سے لے کر بیچارے سانڈے تک کو نہیں بخشا، آخر انہیں کتے کے فوطوں کا عرق نکالنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟
فرینڈز لسٹ میں شامل حکماء اس مسئلے پر فوری توجہ دیں۔
مختصر بات وہی جو عظیم صوفی شاعر نے بہت پہلے کر ڈالی کہ “کتے تیتھوں اتے”
میں تو فقط اتنا کہنا چاہ رہا تھا کہ ہم کتوں کے دورحکمرانی میں جی رہے ہیں۔
اب اس کا کوئ غلط مطلب نہ نکالے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ حکومت وقت کی میں دل سے عزت کرتا ہوں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply