مکان سے مکان تک۔۔حبیب شیخ

انتساب:
1948 میں فلسطینیوں کے جبری انخلا کی یاد میں منائے جانے والے دن النکبة ( 15 مئی) کے نام

مجھے کتنا دکھ تھا اپنی زمین، اپنی جگہ چھوڑنے کا۔ وہ محض زمین نہیں تھی بلکہ میری جنّت تھی، جہاں میں نجانے کب سےرہ رہا تھا، ان  مکینوں کی زندگیوں میں رچ بس گیا تھا۔ میں اپنی ہیئت میں ان سب سے جدا تھا پھر بھی میں خود کو انہی کی طرح محسوس کرتا تھا۔ پھر ایک دن، دنیا والوں کے لئے عام دن لیکن  میرے لئے وہ قیامت سے کم نہیں تھا، جب سورج روز کی طرح مجھے اپنی شعاؤں سے تازگی بخش رہا تھا اور شام کی خنک ہوا میرے وجود سے کھیل رہی تھی، پچپن سالہ وجیہہ ا لشکل حارث مجھے وہاں سے کسی نئی جگہ لے آیا اور اپنی دبلی پتلی بیوی ہاجرہ کے حوالے کر دیا۔ مجھے یہ نئی جگہ بالکل پسند نہیں تھی لیکن یہاں میری اور ہاجرہ کی محبت آسمانوں کو چھو رہی تھی۔ رات سونے سے پہلے ہاجرہ ضرور میرے پاس آتی، نم بھری آنکھوں سے مجھے دیکھتی، مجھے پیار سے چھوتی اور کبھی کبھار مجھ سے ہم کلام بھی ہوتی۔ لیکن پتا نہیں کیوں آج حارث مجھے اسی جگہ واپس لے آیا جہاں سے میں آیا تھا۔ مجھے تو دور ہی سے اپنی زمین کی مٹی کی خوشبو آرہی تھی، سوندھی سوندھی سی جیسے وہ مجھے بلا رہی تھی اور پھر میں اس کی آغوش میں جا کر امر ہونے کے لئے بیتاب ہو گیا۔

لگ بھگ دو سال پہلے میرے چاہنے والے ایک دم پریشان ہو گئے تھے۔ مشرقی یروشلم پہ اسرائیل کے قبضے کے کچھ عرصے بعد انہیں نوٹس ملا تھا کہ ان کا مکان ناجائز زمین پہ بنا ہوا تھا لہذا اس مکان کو گرانے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ ناجائز زمین! میں تو یہاں صدیوں سے آباد تھا۔ کتنی نسلوں سے میں نے اس میں بسنے والوں کی پذیرائی کی، ان کے ہرغم اور خوشی میں شامل رہا۔ دسیوں کو اپنا پہلا سانس لیتے دیکھا اور آخری ہچکی لیتے سنا۔ میرا تو ہمیشہ ان سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ حارث نے بلدیہ کے نوٹس کی تنسیخ کے لئے کیا کچھ نہیں کیا، کہاں کہاں نہیں گیا! اپیلیں دائر کیں، کچہریاں بھگتیں، این جی اوز کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن دو سال بعد وہ ہار گیا۔ جس دن اس کے سارے قانونی راستے بند ہو گئے وہ اور اس کی ہاجرہ کتنا روئے اور میں بھی چپکے چپکے آنسوبہاتارہا۔

پھر ایک دن حارث کئی بھاری اوزار لے کر آیا ۔ اس نےہتھوڑے کو دیکھا اور پھر اس پتھر کو جہاں سے تخریبی کارروائی شروع کرنی تھی، اوزار کو اٹھایا مگر ضرب نہ لگا سکا ، کہ آنکھوں کا بند ٹوٹ گیا تھا۔ قریب کھڑی ہوئی ہاجرہ حارث سے لپٹ گئی۔حارث حوصلے سے کام لو۔ ہم دونوں تو ساتھ ہیں ایک دوسرے کے لئے۔۔پھر ہاجرہ نے بہت مشکل سے ہتھوڑے کو سنبھالا اور پتھر پر دے مارا۔ یہ کیسی آواز تھی جیسے ان کے اندر کوئی بم پھٹ گیا ہو جیسے دونوں کی روحوں پہ کوئی ضرب لگی ہو۔

دو ماہ میں حارث نے اس مکان کی ہر شئے کو ایک ایک کر کے توڑ دیا اور ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ اس کےہاتھ چھالوں سےبھر گئے تھے جس طرح سے اس کے آباؤاجداد کے جب انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اس کی بنیادوں کو کھود کر بھرا تھا، دیواریں کھڑیں کی تھیں، چھت ڈالی تھی، دروازوں اور کھڑکیوں سے اس کو آراستہ کیا تھا، رنگ و روغن سے اس کو سنوار کر ایک شکل دی تھی۔ آخری دن حارث تاسف بھرے چہرے کے ساتھ مجھے اپنے ساتھ بھائی کے گھر لے گیا جہاں وہ پہلے ہی اپنے کنبے کے ساتھ منتقل ہو چکا تھا۔ ہاجرہ نےبہت احتیاط سے مجھے اس گھر میں رکھا۔ میں اپنی ساتھیوں سے دور ہو چکا تھا لیکن اپنے چاہنے والے کے پاس تھا۔ کتنی محبت سے ہاجرہ مجھے دیکھتی، کتنی نرمی سے چھوتی اور کبھی کبھار اشکبار آنکھوں سے مجھ سے باتیں کرتی۔

کل کا دن بہت مختلف تھا۔ حارث نے صبح سویرے مجھے اپنے ساتھ لیا اور مجھے میری زمین پہ لے آیا۔ میری زمین! میں جذبات کی رو میں بہہ  رہا تھا۔ جب مجھے ہوش آیا تو ایک بڑے بورڈ پر نظر پڑی، ’تنظیم برائے آباد کاری‘۔ بہت سا نیا تعمیری سامان میری زمین پہ لدا ہوا تھا اور بنیادوں کے لئے کھدائی ہو رہی تھی۔ کیا نئے مہاجرین کو بسانے کے لئے میرے گھر کو اجاڑنا ضروری تھا؟ میں حیران تھا کہ حارث مجھے یہاں کیوں اور کس کے لئے لے آیا تھا۔ لیکن حارث کے چہرے پہ ایک عجب سی چمک تھی، بیک وقت ایک سکون کا سمندر اور ایک فاتح کا تاثر۔ حارث نے مجھے آخری بار دیکھا اور ایک مزدور کے حوالے کر دیا۔ یہ شاید اس کا کوئی دوست تھا۔ ’حبیبی تمہارا بہت بہت شکریہ، اب ہمارے مکان کا یہ پتھر اس نئی عمارت کا حصّہ بن جائے گا اور ہاجرہ کو قرار آجائے گا۔‘
جب میں نے حارث کی یہ سرگوشی سنی تو میں خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔ چند ہی گھنٹوں کے بعد میرے نئے مالک نے مجھے گارے میں ڈال کر اس زمین پہ کھدی ہوئی بنیادوں کی گہرائیوں میں انڈیل دیا۔ اور اس طرح میں ہمیشہ کے لئے اپنی زمین میں مدغم ہو گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ کہانی ایک ویڈیو سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply