سنو،سنے گا کون، جب میں دکھائی دوں نظر آجاوں تب کوئی سنے گا نہ،،،خیر اپنی حقیقی کہانی سناتا ہوں شاید،،،،،میری شاید آواز کہیں تو پہنچ جائے گی، اپنے یار دوستوں لکھاری اور قارئین سے ملے ہوئے تیس دن گزر گئے ، میرے چاہنے والوں اورجاننے والوں کو یقیناً میری تلاش ہوگی لیکن خاموشی بھی ہے، ، اسی خاموشی اور کبھی جستجو میں تیس دن گزر گئے ، تیس دن کامطلب 720 گھنٹے ،،،،،مطلب43200 ہزار منٹس ،،،،،
مطلب 259200سیکنڈ، ،،،،،
،،، میں حال حوال ہوں گزشتہ 259200 سیکنڈ زسے قید ہوں مجھے کسی سے بھی ملنے نہیں دیا جا رہا ہے ، نہیں میں قیدی نہیں ہوسکتا،،، قیدی کو تو دیکھا جا سکتا ہے پھر تو میں شاید مجرم ہوں،،،،، مجرم؟؟؟ نہیں تو میرا کوئی جرم ہوتا تو پتہ چلتا کوئی تو بتاتا،، مم،،، مجرم نہیں۔ قیدی بھی نہیں، اس طرح ظالم و جابر بھی نہیں ہوسکتا،،، لیکن میں لاپتہ ضرور ہوں،،، میں لاپتہ ہوں ہاں ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ میں گزشتہ۔ ایک ماہ سے ۔۔۔۔ارے نہیں نہیں،، میں گزشتہ تیس دن سے لاپتہ ہوں کسی کو دکھائی نہیں دے رہا ہوں،،،،،،
شاید لاپتہ کیا گیا ہوں ،،،پر کیوں؟؟؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا ،،،،میرا مشن سب کچھ سب تک تھا سب کچھ میں خبریں تھیں معلومات تھے آگہی تھی لیکن پھر سوچتا ہوں کیا ان کے علاوہ بارود یا میزائل بھی تھا کیا؟؟؟؟ نہ بابا توبہ ہے،،،، اور سب تک میں میرے اپنے ہی تھے طالب علم تھے صحافی تھے شہری تھے عوام تھا بد اور کیا تھا، میرا مشن تو صرف قلم کے ذریعے معلومات پھیلانا تھا تازہ خبریں پہنچانی تھی اور عوام کو مسائل بتانے تھے، میں تعلیمی طبی سماجی۔ سیاسی مسائل وغیرہ وغیرہ یہی تو بتاتا تھا
دو سال سے اپنے قارئین اور چاہنے والوں کو اپنے بستی گلی کوچوں سرزمین اور صوبہ و ملک و وطن کا حال حوال دیتا تھا میں تو امن کا درس دیتا تھا یکجہتی میری پہچان تھی میں بلوچ پٹھان سندھی پنجابی برائیو ی سب کو ساتھ لے کر چلتا تھا قوم زبان کے مسائل روشناس کرانا تھا میں گلدستہ تھا زبانوں کا، پھول کی مانند تھا علم و آگئی کی خوشبوئیں بکھیرتا تھا، میں تو چراغ کی طرح روشن تھا سنسان راہوں اور اندھیری گلیوں میں روشن رکھتا تھا
میں پیار بانٹنے والی کشتی میں سب کچھ لے کر اور محبت بھی اور اپنائیت بھی ساتھ لے کر علم کے سمندر میں چلتے ہوئے کنارے پر معلومات اور خبروں کا خزانہ لے کر سب تک پہنچاتا تھا لیکن ایک دن میں سمندر کے بیچ نامعلوم لہروں ان دیکھے موجوں کی زد میں آگیا لیکن اب بھی ڈوبہ نہیں ہوں اور نہ ہی ڈوبونگا کیونکہ علم کی کشتی کبھی ڈوبا نہیں کرتی ہاں لاپتہ ضرور ہو گیا ہوں
لیکن ایک نہ ایک دن میرے دوستوں اور چاہنے والوں کو میرا پتہ ضرور ملے گا بلکہ امید بھی ہے جلد ان کے درمیان پھر سے موجود ہونگا پھر سے تحریروں کے محفلیں سجیں گی پھر سے داد اور واہ واہ بھی ہونگے پھر سے ہنسی خوشی محسوس ہوا کریگی پھر سے شبیر رخشانی اپنی تحریروں میں الفاظ کا جادو جگاآئینگے ، پھر سے عابد میر، سلیمان ہاشم، مریم سلیمان، ظریف بلوچ، عبدالحلیم،جاوید حیات، رفیق چاکر، ہیبتان عمر،نجیب اللہ اور میرے دیگر قابل قدر لکھاری ، اپنے تحریروں کے ذریعے مجھے آکسیجن فراہم کرتے رہینگے۔
(شہاب عمر)
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں