• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرّہ ارض سے بیگانگی،سرمایہ داریت اور کارونجھر کی نیلامی/ناصر عباس نیّر

کرّہ ارض سے بیگانگی،سرمایہ داریت اور کارونجھر کی نیلامی/ناصر عباس نیّر

اب تک ہم بیگانگی کی تین قسموں سے واقف تھے۔ محنت کش، جب اپنی محنت کا صلہ نہیں پاتا تو محنت کےعمل ہی سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔ یہ بیگانگی کا اشتراکی تصور تھا۔ جب کوئی شخص دنیا کو اپنے وجود کے مقاصد سے اجنبی پاتا ہے تو وہ دنیا سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔ یہ بیگانگی کا وجودی تصور تھا۔ جب کوئی محکوم باشندہ، اپنے ہی وطن میں بالا دست طبقے کی زبان و ادب وثقافت کو اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے تو وہ اپنی زمین وزبان وادب و ثقافت سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔ یہ بیگانگی کی نوآبادیاتی قسم ہے۔

اس وقت ہمارا سامنا بیگانگی کی ایک نئی قسم سے ہے۔ کرہ ارض برباد ہورہا ہے، تیزی سے اور انسانوں ہی کے ایک گروہ کے ہاتھوں۔ اسی کرہ ارض پر رہنے والوں میں مٹھی بھر لوگ تو بربادی، بربادی کی تیز رفتاری کو محسوس کررہے، اور ان ہاتھوں کو پہچان رہے ہیں اور روکنے کی اپنی سی سعی بھی کررہے ہیں، مگر اکثریت اس زمین، اس کے پانی، پہاڑوں، چشموں، دریاؤں، جنگلوں، جانوروں، پرندوں، حشرات کی قیامت خیز تباہی سے بیگانہ ہے۔

وہ جس خاک سے بنے، جس خاک کا رزق کھاتے، جس خاک پر بستے ہیں، اور جس خاک میں بالآ خر پہنچیں گے، اسی سے لاتعلق و بیگانہ ہیں۔ یہ بیگانگی کے ساتھ احسان فراموشی بھی ہے اور خود اپنی اجتماعی موت کے پروانے پر دست خط کرنے کے مترادف بھی۔

زمین سے ہماری بیگانگی ہی کا سبب ہے کہ ہم ماحولیاتی تباہی کی شدت کو محسوس نہیں کررہے۔ جب واقعی کوئی مصیبت میں ہو، اور ہم اس مصبیت کو محسوس کریں نہ اس کے لیے کوئی چارہ کریں تو یہ بیگانگی کے ساتھ سنگ دلانہ بے حسی ہے۔ زمین اور ماحول کے سلسلے میں ہمارا عمومی رویہ بیگانگی اور بے حسی ہی کا ہے۔

ہم سماج، تاریخ، نفسیات، مذہب، سیاست، ادب کےسلسلے میں جس قدر مضطرب ہوتے ہیں، اور ہمارے جذبات فوری طور پر بیدار اور مشتعل ہوتے ہیں، وہ ماحول کے سلسلے میں نہیں ہوتے۔ حالاں کہ ہماری بقا کی حقیقی ضمانت یہ زمین اور اس کی فطری اکالوجی ہی فراہم کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماحول کی تباہی کے ضمن میں ہم مجموعی طور پرسرے سے حساس ہی نہیں ہیں۔ اس کے باوجود کہ ہم میں سے کسی کو کھلا صاف پانی، صاف غذا، صاف ہوا دستیاب نہیں ہے، اور کوئی دن ایسا نہیں جب ہم ایک یا دوسری قسم کی ماحولیاتی آلودگی کا راست اثر محسوس نہ کرتے ہوں۔

پرانی بات نہیں کہ ہم نے ایک خوفناک وبا کا سامنا کیا اور دنیا کے خاتمے کے امکان کے یقینی ہونے کو محسوس بھی کیا، مگر ہم انسان زود فراموش ہیں۔ تجربے، تاریخ اور خود اپنی خطاؤں سے کم ہی سبق سیکھتے ہیں۔ مکر، گریز اور انکار میں ہم جس قدر طاق ہیں، سچائی کاسامنا کرنے اور بصیرت اخذ کرنے اور مستقبل بینی میں اسی قدر غبی ہیں۔

ماحولیاتی بربادی کے ذمہ دار عناصر کئی ہیں۔ کچھ دیرینہ، کچھ نئے۔ دیرینہ عنصر میں انسانی تہذیب کا یہ تصور شامل ہے کہ تہذیب، فطرت کی تسخیر ہے۔ بڑی اورترقی یافتہ تہذیب گویا وہی ہے، جس نے زیادہ سے زیادہ فطرت کو انسانی مقاصد کے تحت ڈھالا ہو۔ اس تصور کے تحت، فطرت انسان کی حلیف نہیں، حریف اور غیر ہے۔ غیر کو قابو میں لایا جاتا ہے، اس سے ہمددری نہیں کی جاتی۔ تہذیب کے اس تصور میں ایک اجتماعی نرگسیت اور تفاخر بھی ہے، اسی لیے یہ ان مصائب کا اندازہ لگانے سے قاصر رہتا ہے جو اس کے ہاتھوں فطرت کو پہنچے۔

جدیدیت اور سرمایہ داریت نے تہذیب کے اسی تصور پر اپنی عمارت کھڑی کی ہے۔ جدیدیت وسرمایہ داریت، دونوں نئے عناصر ہیں، ماحول کی تباہی کے ذمہ دار۔ جدیدیت، لامتناہی نئے پن کی تلاش میں رہتی ہے، یہاں اس کی حلیف سرمایہ داریت بنتی ہے۔ وہ نئی نئی چیزیں اختراع کرنے اور دنیا بھر میں بیچنے اور لامتناہی منافع کمانے کو اپنا واحد مقصود بناتی ہے۔ سرمایہ داریت، جدیدیت کی ہر لحظہ تازہ دم رہنےو الی تخلیقیت پر انحصار کرتے ہوئے، فطرت کا بے دریغ استحصال کرتی ہے۔ لامحدود منافع کی آرزو کی راہ میں آنے والی ہر شے۔۔ بستیاں، دریا، پہاڑ، جنگل، مسجد، مزار، مندر، گرجے، مور، ہرن، انسان کچھ اہمیت نہیں رکھتے، اور نہ ان کے مصائب۔ لامحدود منافع کی آرزو کا سیلاب بلا ہر شے کو بہا لے جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوال صرف اتنا ہے کہ ان مصائب کو ہم سب محسوس کیوں نہیں کرتے اور کارونجھر کو جب وہاں کی “عوام دوست” حکومت ایک عالمی سرمایہ دار کو بیچ دیتی ہے تو صرف وہاں کے باسی اکیلے ہی کیوں گریہ گرتے ہیں؟ ہم سب ان کے احتجاجی گریے میں شریک کیوں نہیں ہوتے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply