ذہانت (20) ۔ میڈیسن/وہاراامباکر

میڈیسن کی تمام تاریخ ڈیٹا میں سے پیٹرن تلاش کرنے کی ہے۔ آج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل بقراط یہی کام کر رہے تھے۔

 

 

 

 

قدیم زمانے میں میڈیسن اور جادوگری کو الگ کرنا مشکل تھا۔ یہ عام یقین تھا (اور کچھ جگہ پر اب بھی ہے) کہ بیماریوں کے اسباب میں آپ کے کئے کی سزا یا آپ پر کسی کی بری نظر ہے یا کسی شے کا سایہ ہے۔ علاج کے طریقے توہم پرستی سے پُر تھے۔
بقراط کا انقلابی خیال یہ تھا کہ بیماریوں کے اسباب کو عقلی تفتیش سے سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ جادوئی نہیں۔ مشاہدہ، رپورٹ رکھنا اس میں اہم ہے۔ انہوں نے میڈیسن کو سائنس کے طور پر دیکھا۔
اگرچہ بقراط اور ان کے ساتھیوں کی پیشکردہ سائنسی وضاحتیں جدید سائنس کے مطابق درست نہیں تھیں۔ لیکن انہوں نے ڈیٹا سے جو نتائج نکالنے تھے، وہ اچھی راہنمائی کر سکتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ کہ “فربہ مریض باقی کے مقابلے میں جلد انتقال کر سکتے ہیں”۔
اور یہ صدیوں سے ایسا رہا ہے۔ ہماری سائنسی سمجھ درمیان میں غلط ہو سکتی ہے لیکن پیٹرن ڈھونڈنے کی صلاحیت، علامات کو کلاسیفائی کرنا اور ان کی مدد سے مریض کے مستقبل کی پیشگوئی۔
میڈیکل سائنس ایسے مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ چین میں پندرہویں صدی میں چیچک کی ویکسین لگائی جا رہی تھے کیونکہ صدیوں سے اس پیٹرن کو پہچان لیا گیا تھا کہ اس طریقے سے موت کا امکان دسواں حصہ رہ جاتا ہے۔ ایسا مریض ڈھونڈیں جس کو بیماری کم شدت سے ہوئی ہو۔ اس کے زخم کھرچیں،اس کو خشک کر کے پیسیں اور صحتمند شخص کی ناک میں ڈال دیں۔ یہ چین میں چیچک کی ویکسین کا طریقہ تھا۔
ڈیٹا میں پیٹرن دیکھنا اور ان سے فائدہ اٹھانا میڈیکل کی تحقیق کی بنیاد تھا۔
انیسویں صدی میں ہنگری کے ایگناز سیملوائز تھے جنہوں نے یہ زچگی کے دوران اموات کے ڈیٹا میں کچھ چونکا دینے والی چیز نوٹ کی۔ ڈاکٹروں کے ہاتھوں زچگی سے ہونے والی اموات دائیوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ تھی! ڈیٹا اس کی وجہ کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ ایسا وہاں پر تھا جہاں پر ڈاکٹر کسی مردے کو آپریٹ کر کے آیا ہو۔ ہاتھ نہ دھونا اس کی وجہ تھی۔سیملوائز نے ڈیٹا کا یہ پیٹرن بھانپ کر آپریشن سے پہلے ہاتھ کو نہ دھونے کے نتیجے کی بڑی دریافت کر لی تھی۔
اور میڈیکل سائنس میں ایسا ہی ہے۔ نہ صرف بیماریوں میں بلکہ روزمرہ کی دیکھ بھال میں بھی۔ کیا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے؟ کیا یہ سردرد نارمل ہے؟ کیا اینٹی بائیوٹک تجویز کرنی چاہیے؟ یہ تمام سوال پیٹرن پہچاننے اور اس کی مدد سے پیشگوئی کرنے کے ہیں۔ اور یہ وہ مہارت ہے جس میں الگورتھم بہترین ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظاہر ہے کہ ڈاکٹر ہونے کی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو کبھی الگورتھم نہیں کر سکیں گے۔ ہمدردی ان میں سے ایک ہے۔ یا پھر مریض کو سماجی اور نفسیاتی مشکل میں یا کبھی مالیاتی مشکل میں بھی سپورٹ کرنے کی صلاحیت ہے۔ لیکن میڈیکل کے کئی ایسے علاقے ہیں جہاں الگورتھم مدد کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیتھولوجسٹ وہ ڈاکٹر ہیں جن کی مریض سے ملاقات کم ہی ہوتی ہے۔ جب آپ کبھی خون یا ٹشو کا نمونہ ٹیسٹ کے لئے دیتے ہیں تو یہ اس کا تجزیہ کر کے رپورٹ لکھتے ہیں۔ یہاں پر مہارت، ایکوریسی اور قابلِ اعتبار ہونا اہم ہے۔ عام طور پر یہ بتاتے ہیں کہ مریض کو کینسر ہے یا نہیں۔ اگر بائیوپسی کا تجزیہ یہ طے کر رہا ہے کہ مریض کی کیموتھراپی ہونی ہے یا سرجری ہونی ہے یا اس سے برا ہونا ہے تو آپ چاہیں گے کہ اس میں غلطی بالکل نہ ہو۔
اور یہ آسان کام نہیں ہے۔ ایک اوسط پیتھولوجسٹ روزانہ سینکڑوں سلائیڈ دیکھے گا۔ ہر ایک میں دسیوں ہزاروں یا لاکھوں خلیات ہوں گے جو کہ شیشے کی چھوٹی پلیٹ کے درمیان ہوں گے۔ ان کا کام بہت باریکی سے اس کا جائزہ لینا ہو گا اور اس میں چھوٹی سے انامولی کی تلاش ہو گا جو کہ خوردبین کے نیچے اس وسیع کہکشاں میں کہیں پر بھی چھپی ہو سکتی ہے۔
اور بائیولوجی کی پیچیدگی اس کو مزید مشکل کر دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اینڈی بیک نے پاتھ اے آئی کے نام سے کمپنی بنائی جو بائیوپسی کو جانچنے کے الگورتھم بناتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply