کم ظرفوں کا احساس کمتری اور فوجی تربیت ۔۔۔۔ محمود فیاض

کالج میں پہلا دن تھا۔ یہ سول انجینئرنگ کی ڈپلومہ کلاس کا پہلا لیکچر تھا۔ سول انجنیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ولائیت خان صاحب تشریف لائے اور ایک گھنٹہ کا لیکچر دیا۔ اس ایک گھنٹے میں انہوں نے ہمیں سمجھایا کہ یہ ڈپلومہ جس کے لیے ہم منتخب کیے گئے ہیں، کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ حتیٰ کے ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے ایسوسی ایٹ انجنئیر کو انجنیئر سے بھی بہتر اور مفید ثابت کر دیا۔ اس لیکچر کے بعد ہمارے مورال کا یہ عالم تھا کہ پاؤں زمین پر نہ پڑتا تھا۔

کسی بھی شعبے کی ٹریننگ کے دوران مورال کا بلند ہونا بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔ اور اچھے اور کامیاب ادارے اسکا خاص اہتمام رکھتے ہیں۔ جس قدر کوئی شعبہ اہمیت کا حامل اور سخت محنت کا طالب ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں حصہ لینے والوں کا مورال بلند رکھا جائے۔ انسانی فطر ت مقابلہ، مسابقت، اور دوسروں سے آگے بڑھ جانے کو پسند کرتی ہے۔ جب تک انسان کو یقین نہ ہو جائے کہ وہ کوئی کام کر کے دوسروں سے ممتا ز اور بہتر ہو جائے گا، وہ اپنی پوری صلاحتیں اس کام میں صرف نہیں کرتا۔ ڈاکٹر، وکیل، انجنئیرتو خیر ہیں ہی ایسے شعبے جن کی معاشرے میں عزت کی جاتی ہے، مگر ایک ڈاکیا بھی تب ہی اپنی ڈیوٹی خوشدلی سے نباہ سکتا ہے جب اسکو اپنے کام کی اہمیت کا یقین ہو۔

مورال کی سب سے زیادہ ضرورت ایسے شعبوں میں پڑتی ہے ، جن میں جرأت و بہادری کی ضرورت ہوتی ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ ڈاکٹر ، وکیل کے شعبوں میں آپ کو زیادہ سے زیادہ اپنے وقت، اور صحت کی قربانی دینا پڑتی ہے، مگر پولیس، آرمی اور جاسوسی جیسے شعبوں کے لیے آپ کو اپنی جان تک کا رسک لینا پڑتا ہے۔ ایسا آپ تب ہی کر سکتے ہیں جب اس کا معاوضہ اتنا زیادہ ہو کہ آپ اس کے لیے آمادہ ہوسکیں اور خاص طور پر فوجی ٹریننگ ایسی ہوتی ہے کہ اسکے لیے انسان کا مورال ایک خاص لیول تک ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ ٹریننگ کی سختیوں سے گھبرا کر ہی بھاگ جاتا ہے۔

میٹرک کے بعد میرے کئی دوست پاک فوج کو جوائن کر گئے۔ میرا مزاج فوج والا نہیں تھا اور میں ایک اور ضمیر جعفری یا کرنل خان نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس لیے میں نہیں گیا تو میرے وہ دوست جب اپنی ٹریننگ سے واپس آتے تو بڑی خوفناک باتیں سنایا کرتے تھے۔ مگر ایک خاص بات جو میں نے نوٹ کی، وہ یہ تھی کہ آہستہ آہستہ وہ فوج کی زندگی کو اپنانے لگے اور اس پر فخر  کرنے لگے۔ کبھی کبھی وہ باتوں میں ایک ایسی بات کر جاتے جو غیرفوجی کے لیے بڑی  توہین آمیز ہوتی۔ بے تکلف دوستوں سے تو اکثر توتکار کر کے انکو واپس انسانی لیول پر لے آیا جاتا تھا، مگر جن سے زیادہ بے تکلفی نہیں تھی، ان کی محفل سے اٹھنا پڑتا۔ مثلاً ایک دوست ایک دن مجھے کہنے لگے، کہ یار! تم اچھے خاصے ذہین ہو، فوج کیوں نہیں جائن کی؟ میں نے انکو سمجھایا کہ دیکھیے، فوج ایک خاص ذہانت کے لیول تک بندے لیتی ہے۔ مگر اوور انٹلیجنٹ کو ریجیکٹ کر دیتی ہے۔ اسلیے کہ ایسا بندہ فوج کے سارے احکامات من و عن نہیں مان سکتا۔ اب آپ تو سلیکٹڈ ہو ہی، اسلیے آپ کے بارے میں طے ہے کہ آپ اوور انٹیلیجنٹ نہیں ہو، مجھے اپنے اوپر ذرا شک ہے، اور میں اس شک کو قائم رکھنا چاہتا ہوں۔ اس جملے کے بعد انہوں نے کبھی مجھے فوج میں آنے کا مشورہ نہیں دیا۔

بہرحال میں بات کر رہا تھا، اپنے فوج میں جانے والے دوستوں کے بدلتے رویے کی۔ ان میں سے جو ظرف والے تھے، انہوں نے تو فوجی ٹریننگ کی سختی بھی جھیلی اور تمغے بھی لگائے، اور ہم جیسے فقیروں کے ساتھ ان پان بھی کھاتے رہے۔ مگر کوئی کوئی ایسا بھی نکلا، جس کو فوج کی جیپ، اور کاندھے پر دو بیجوں نے ایسا رنگ چڑھایاکہ وہ اپنے سویلین والدین کو بھی ڈسپلن سکھانے لگا اور ہر دوسرے بندے کو ایک ناکام اور آوارہ سویلین سمجھنے لگا۔

یہ سچ ہے کہ دنیا کی ہر فوج کی طرح پاک فوج بھی اپنے نوبھرتی شدہ رنگروٹوں کی برین واشنگ کرتی ہے۔ ان کو یہ سکھاتی ہے کہ وہ اس دنیا کا سب سے اہم کام کرنے جارہے ہیں اور مین ایٹ دئیر بیسٹ پاک آرمی کو عملی شکل میں سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فوجی افسروں کو ٹریننگ میں احساس برتری، کمانڈ کرنے کی صلاحیت، اور افسرانہ رعب و دبدبے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ایسی ٹریننگ انسان میں تھوڑا غرور بھی پیدا کر دیتی ہے۔ کبھی کبھار ایسے افسر ، جن کے اندر احساس کمتری کہیں چھپ کر بیٹھ رہا ہوتا ہے، اس غرور کا اظہار فوج سے باہر بھی کرتے نظر آ جاتے ہیں۔

جہاں فوج کی یہ ٹریننگ انسان کو بڑے کام کرنے کا حوصلہ دیتی ہے، اور حالات اور دشمن کے خلاف نڈر کرتی ہے، وہیں کسی کم ظرف بندے کے لیے یہ الٹا اپنوں پر رعب نکالنے کی وجہ بھی بن جاتی ہے۔ ایسے کم ظرف بندے ہر شعبہ زندگی میں ہوتے ہیں، لیکن میرا موضوع ابھی فوج تک محدود ہے۔ ایسے فوجی افسروں کی نشانی یہ ہے کہ یہ اپنے بیٹ مینوں سے لے کر مالی، ڈرائیور پر اپنا بے جا رعب دکھاتے نظر آتے ہیں، سبزی والے کو ڈانٹتے ، درزی کو پیٹتے، اور چوکیدار کو سیلوٹ کرنا سکھارہے ہوتے ہیں۔ ان کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنے افسری کا یہ رعب و دبدبہ ان کمزوروں پر نہیں نکالیں گےتو فوج میں کمیشن لینے کا فائدہ۔ یہ فوج کی فراہم کردہ طاقت، جوملک دشمنوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ہوتی ہے، کا رخ موڑ کر اپنے ہی لوگوں پر استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

میرے ایک کزن کے بچپن کا واقعہ ہے، اسکی ماں نے پوچھا، میرا بیٹا بڑا ہو کر کیا بنے گا؟ بیٹے نے جواب دیا، اماں ! میں پائلٹ بنوں گا اور جنگی جہاز اڑاؤں گا۔ اور پہلا بم میں تجھ پر گراؤں گا۔ بس یہی حال فوج میں موجود ان چند کم ظرف لوگوں کا ہے، جو اپنا احساس کمتری فوج کی اتنی اعلیٰ ٹریننگ کے باوجود نہ نکال سکے، اور اپنی ہی “اماں ” پر بم مارنے چل پڑے۔

مگر آخر میں میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان چند کم ظرف اور احساس کمتری کے مارے افسروں کی وجہ سے پوری فوج کو موردالزام ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ ان کو بھی تو وہی لیکچر دیے گئے تھے ، جو سن کر کیپٹن بلال شہید نے شہادت کی طرف قدم بڑھا دیے، کیپٹن جنید شہید نے اپنی افسری اور جوانی مادر ملت پر قربان کر دی۔ یہی وہ ٹریننگ تھی جو کیپٹن منان شہید اور کیپٹن سلمان شہید کو دی گئی تھی، اور انہوں نے اپنے ملک کے اداروں سے لڑنے کی بجائے اپنے دشمنوں کی صفوں کو چیرنا مناسب سمجھا۔ اور کتنے کیپٹن، جوان، سالار گنواؤں جن کی شہادت نے پاک فوج کی جسمانی و اخلاقی تربیت کو ہزاروں چاند ستاروں کی کہکشاں سے مرصع کر دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرا آج یہ چند بے ترتیب الفاظ لکھنے کا مقصد محض یہ تھا کہ ہم اکثر جذبات کے بہاؤ میں بہہ جاتے ہیں۔ اور حقائق سے چشم پوشی کر جاتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ آئے دن مختلف حکومتی محکموں میں جاتے ہیں، اور بسا اوقات کوئی کلرک، کوئی افسر ، کوئی چپڑاسی بد تمیزی سے پیش آتا ہے، یا رشوت مانگتا ہے۔ تو ہم اسکو اس پورے محکمے کے خلاف ایف آئی آر نہیں بنا لیتے۔ امید ہے دوست احباب اس بات پر بھی سوچیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”کم ظرفوں کا احساس کمتری اور فوجی تربیت ۔۔۔۔ محمود فیاض

  1. سر آپکا پوائنٹ بہت ویلڈ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کسی چپڑاسی کی بدتمیزی کی شکایت کرو گے تو کوئی آپ پر دشمن ملک کا ایجنٹ ہونے کا طعنہ نہیں لگائے گا نہ ہی یہ کہے گا کہ ضرور تمہارا قصور ہوگا ملک کے سارے چپڑاسی نیک ہیں جبکہ دوسری طرف معاملہ اس کے الٹ ہے کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس ادارے بھی برے لوگ موجود ہیں اور اچھے خاصی تعداد میں ہیں اور طاقت کا استعمال کر کے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں…. یہ باتیں تسلیم کیوں نہیں کیں جاتیں؟
    میرے خیال میں خامی یہیں سے شرور ہوتی ہے ورنہ اپنےہی ملک ادارے سے کون بغض رکھ سکتا ہے.. اس لیے بنیادی خرابی کو دور کیا جانا ضروری ہے ورنہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا شہادتیں پولیس بھی دیتی ہے لیکن اسے گلوری فائی نہیں کیا جاتا اسی لیے تو پولیس کا ناجائز دفاع کوئی نہیں کرتا… میں چاہتا ہوں آپ سب دوست اس رخ پر بھی سنجیدگی سے سوچنے

  2. آپ کی آخری بات کا جواب پہلے کہ، پولیس کی شہادتوں کو بھی بہت عزت دی جاتی ہے، بلکہ اکثر اوقات زیادہ دی جاتی ہے کہ ایسے محکمے میں جہاں کرپشن زیادہ اور معیار کم ہے، اچھے اور فرض پر جان قربان کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ میری اس بات کی دلیل آپ پچھلے کچھ عرصے میں ہونے والی پولیس کی شہادتوں کی سوشل یا پرنٹ میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔
    البتہ ہمارے افواج کی درجنوں شہادتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو اکثر انکی ڈیوٹی اور نارمل بات سمجھ کر آگے بڑھ جایا جاتا ہے۔ خصوصاً جب سے افواج کے خلاف ایک خاص قسم کی غلط فہمیاں شدت سے پھیلائی جا رہی ہیں، ہمارے نوجوان اس بات کا ادراک بھی نہیں کر پاتے کہ اپنی ساری خامیوں کے باوجود فوج ہماری سرحدوں، اور شہری امن امان کی حفاظت کر رہی ہے، اور اسکا رول کتنا اہم اور بسا اوقات مقدس ہو جاتا ہے۔
    یہی وجہ ہے کہ ہر ترقی یافتہ ملک میں اپنی افواج کے افراد کو ایک مخصوص عزت اور مان دیا جاتا ہے، جس کا ہمارے ہاں مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
    آپ کی پہلی بات کا جواب آخر میں کہ، کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ فوج میں برے افراد ہیں۔ آپ اگر دلیل سے بات کرو تو ناپ تول کر کرنا چاہیے۔ ورنہ جواب دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت سنجیدہ طبقہ بغیر فوج کا مذاق اڑائے فوج کے ہر اس قدم پر تنقید کر رہا ہے، جس پر تنقید بنتی ہے۔ فوج کے مارشل لاز پر تنقید، فوج کے کاروبار کرنے پر تنقید، اور پراپرٹی کے کاروبار اور جرنیلوں کی حد سے زیادہ مراعات ، یا کرپشن پر تنقید۔ اس وقت بھی فوج کے نالایق افسروں کا ساتھ دینے کی بجائے یہی سمجھایا جارہا ہے کہ سارے ادارے کو گندہ کرنے کی کوشش نہ کرو۔ تنقید کو اسی حد تک رکھو، جہاں تک آپ کے ملک کا دفاع اور نظریاتی حدیں اجازت دیتی ہیں۔
    ۔ میں امید کرتا ہوں، آپ کو اپنے سوالوں کا جواب مل گیا ہو گا۔ ورنہ آپ مکالمہ جاری رکھ سکتے ہیں۔

Leave a Reply