مہنگائی مارچ والی حکومت کا اختتام/محمد وقاص رشید

عمران خان صاحب کے دورِ حکومت میں مسلم لیگ نون کی قیادت ٹی وی پروگراموں میں کہا کرتی تھی کہ ” اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی “۔ فضل الرحمان صاحب کا مشہورِ زمانہ دھرنا گجرات کے چوہدریوں کی مداخلت پر ایسے ختم ہوا تھا کہ فضل الرحمان صاحب اسکے بعد یہ معنی خیز بات کہتے ہوئے پائے گئے کہ ” عمران خان کا استعفی چوہدریوں کی جیب میں ہے “۔ زرداری صاحب پارلیمان کے فلور پر کہتے تھے کہ “آپ کو ہم نے نہیں گرانا، گرنا آپ نے خود ہے “۔ خواجہ آصف صاحب کا اعتراف کہ ہمیں 2019 میں پنجاب اور 2020 میں وفاق کی پیشکش کر دی گئی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی صاحب کا بیان کہ “اسٹیبلشمنٹ عمران خان صاحب کی نیپیاں بدلتی رہی ہے اور اب ساتھ اس لیے نہیں دے رہی کہ نیپیاں بھی مہنگی ہو گئیں ”
جی تو جناب مندرجہ بالا تمہید سے یہ واضح ہو گیا کہ پی ڈی ایم کے مہنگائی مارچ کی بنیاد کیا ہے۔ وہ مہنگائی مارچ جسکے کنٹینر پر کھڑے ہو کر شہباز شریف صاحب نے خدا کی قسم کھاتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے جو معیشت تباہ کی اسکو چھے مہینے سے ایک سال میں پیروں پر کھڑا کریں گے۔ مریم نواز صاحبہ مہنگائی کو ” وچوں وچوں کھائی جاؤ اتوں رولا پائی جاؤ” کہا کرتی تھیں۔
بہر کیف مہنگائی مارچ پر چل کر آنے والی حکومت معیشت کی بحالی کے دعووں کے ساتھ تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے کامیاب ہو گئی۔ نون لیگ ہی کے دعوے کے مطابق انہیں اسٹیبلشمنٹ کی معاونت حاصل ہو گئی۔
پی ڈی ایم کے حکومت میں آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بیانیہ بنایا گیا کہ چند ہی دن میں آئی ایم ایف ڈیل فائنل ہو جائے گی۔ مارکیٹ میں بے یقینی کی کیفیت ختم ہو جائے گی اور گزشتہ حکومت کی پھیلائی گئی معاشی تباہی کا ازالہ شروع ہو جائے گا۔
اور پھر وہی ہوا جو شاہی خاندانوں میں ہوا کرتا ہے۔ مفتاح اسماعیل صاحب کو محض اس لیے کام کرنے سے روکا گیا کہ شاہی وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار کی انٹری ابھی باقی تھی۔ جن کی راہ میں کچھ قوانین حائل تھے۔ یہ پہلے چھے مہینے بہت ہی نازک تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مفتاح اسماعیل صاحب کو فری ہینڈ دیا جاتا اور وہ فوری طور پر آئی ایم ایف سے ڈیل مکمل کرتے لیکن ہوا اس سے الٹ۔ شاہی خاندان کی اگلی نسل کے ہونہار سپوت جناب سلمان شہباز کی طرف سے وزیرِ خزانہ کو “جوکر” کہا گیا۔ یاد رہے کہ مفتاح اسماعیل صاحب کے وزیرِ خزانہ ہوتے ہوئے اسحاق ڈار صاحب بڑی رعونت سے کہا کرتے تھے کہ “آئی ایم ایف سے ڈیل میں نے کرنی ہے کسی اور نے نہیں “۔ مفتاح اسماعیل کرکٹ کی اصطلاح میں بس نائٹ واچ مین تھے اور افسوس کہ بے عزت کر کے نکالے گئے۔
افسوس اس بات کا نہیں کہ شاہی خاندان نے ایک وزیرِ خزانہ کو اپنا شاہی درباری سمجھا افسوس اس بات کا کہ اس خاندانی لڑائی کا نقصان ان غریب لوگوں کو مہنگائی کی صورت میں ہونا تھا جنکے درد میں ٹسوے بہا کر پی ڈی ایم حکومت میں آئی۔
شہباز شریف صاحب جلسوں میں اپنی مخصوص جوشِ خطابت سے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کرنے کا ایک انقلابی معاشی منصوبہ لائے۔ اسحاق ڈار صاحب ٹی وی پر ڈالر کے نیچے آنے اور نتیجتاً مہنگائی میں کمی کو چند دنوں کی بات کہتے رہے تو دوسری طرف ہمارے سوشل میڈیا کے نون لیگی احباب باغ کو مزید سبز کرتے رہے۔
آپ اندازہ کیجیے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ایک بار پھر تعطل کا شکار تب ہوا جب نون لیگ حکومت چھوڑنے پر اس لیے پر تولنے لگی کہ وہ اس سارے سیاسی ڈرامے کا نقصان برداشت نہیں کرنا چاہتی تھی یعنی جس سارے کھیل کا مقصد ہی سیاسی نقصان کے عوض قانونی فوائد حاصل کرنا تھے نون لیگ ایک شاطر کھلاڑی کی طرح “چوپڑیاں نالے دو” کے مصداق سیاسی نقصان سے بھی بچنا چاہتی تھی۔
یہ معاہدہ نہ ہونے کی بابت اسحاق ڈار صاحب کی فرسٹریشن کا عالم یہ تھا کہ محض معاہدہ نہ ہونے کے سوال پر ایک صحافی کو پہلے کہا کہ اسکی وجہ تم ہو اور پھر تھپڑ جڑ دیا۔
بحرحال یوں لگتا ہے کہ نون لیگ آئی ایم ایف معاہدے کو عمران خان صاحب کے مکمل سیاسی خاتمے سے جوڑے ہوئے تھی اور “فیصلہ سازوں” کو اس پر بلیک میل کر رہی تھی۔ اور پھر معاہدہ ہو گیا۔
اس ساری سیاسی کھچڑی کا نقصان براہِ راست عوام کو ہوا۔ کہ انکے حصے میں نہ چاول آئے نہ دال۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط معاشی حالات سے براہِ راست متناسب ہوتی ہیں۔ جتنی معیشت بری اتنی شرائط کڑی۔
قصہ مختصر یہ کہ عمران خان صاحب کے دور کو مہنگائی مارچ جمع تحریکِ عدم اعتماد سے ختم کرنے والی پی ڈی ایم کی حکومت کا خاتمہ عوام کے بجلی کے بلوں کے ساتھ خودکشیوں پر ہو رہا ہے۔ جس پر نون لیگ کے “خوش گفتار ” رہنما عابد شیر علی صاحب نے کہا ہے کہ “میرے منہ سے کچھ سخت نہ نکل جائے لیکن بجلی بل بحران کے ذمہ دار واپڈا کے ملازم ہیں جو سب سے بڑے چور اور ڈاکو ہیں ”
اسحاق ڈار صاحب کہہ سکتے ہیں کہ بھئی ہم نے تو عوامی نمائیندوں کو عوامی خرچے پر حج پر بھیج کر معیشت کے لیے دعا کرنے کو کہا تھا اب خدا کی مرضی جو دعا قبول نہ ہو اسکا اجر روزِ قیامت ملے گا جیسے آرمی چیف صاحب نے کہا کہ خدا ہمیں بھوک اور پیاس سے آزماتا ہے۔
بحرحال اٹھارہ مہینے پہلے برطانیہ سے جس تحریک اور حکومت کا آغاز ہوا تھا اسکا انجام یہ ہے سابقہ وزیراعظم سے جب پاکستان میں انکی حکومت کے اختتام پر سیاسی و معاشی بحران کا تزکرہ کیا گیا تو انہوں نے کہا “برطانیہ میں پاکستان کے حالات پر بات کرنا مناسب نہیں “۔۔۔۔۔۔۔اللہ اللہ خیر سلہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply