موسمیاتی تبدیلی اور زرعی ملک پاکستان۔۔سید عمران علی شاہ

پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بدترین انداز میں متاثر ہوئی ہے، اور موسمیاتی تبدیلی جیسی اس دور میں ہے اس کی نذیر تاریخ ِانسانی میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی، کچھ ممالک میں صرف اور صرف سردی ہوتی ہے تو دنیا میں کچھ ممالک ایسے ہیں کہ جہاں کا درجہ حرارت انتہائی زیادہ ہوتا ہے،۔
جنوبی ایشیا میں زیادہ تر گرم مرطوب آب و ہوا کا دور دورہ رہتا ہے،
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ، دنیا میں رونماء ہونے والی اس خطرناک حد کی موسمیاتی تبدیلی کے سب سے  زیادہ ذمہ دار دنیا کے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ہی ہیں، کہ جن کی صنعتوں سے اگلنے والے زہر نے نہ صرف اوزون کی تہہ کو تباہ کیا بلکہ پورے گلوب میں ماحولیاتی آلودگی میں بھی بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالا، لیکن دوسری طرف دنیا کے انہی ترقی یافتہ ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں بدلتے وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، اپنے بہترین مفاد میں بہت زبردست حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اور اس ضمن میں نہایت ٹھوس اقدامات کیے، جیسے کہ موسمی اثرات سے مطابقت رکھتے ہوئے اپنے لائف سٹائل کو تبدیل کیا،

اپنے رہن سہن کو ڈھالا، آبی ذخائر میں اضافے کے  حصول کیلئے  جدید خطوط پر ڈیمز کی تعمیرات کیں ، زرعی شعبہ جات میں تحقیق اور عرق ریزی کر کے موسمی حالات سے مقابلے کے حامل ہائیبرڈ بیجوں اور فصلات کی تیاری کو یقینی بنایا، اور ان سب سے بڑھ کر جنگلات کی پیداوار میں اضافہ کیا اور عالمی میعار کے مطابق موجود رقبے کا کل 25 فیصد سے پُر جنگلات کو اگایا، جو ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور بنی نوع انسان کے سب سے بہترین دوست ہیں، درختوں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ یہ ماحول میں موجود آلودگی کو اپنے اندر سمو کر اس ماحول کے انسانوں کے جینے کے لائق بناتے ہیں،
مادر وطن پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ابھرے 73 سال کا عرصہ ہوچکا ہے، پاکستان کو پروردگار عالم نے قدرتی و انسانی وسائل سے مالا مال کیا ہے، ایشیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہمارے ملک میں ہے، جو کسی بھی زرعی ملک کے لیے سب اہم ترین جزو ہے، کیونکہ زراعت کا دارومدار ہی مؤثر نظام آبپاشی پر منحصر ہوتا ہے، پاکستان زرعی ممالک میں سے چاول، چنا اور گندم کی بہترین فصلات کے ساتھ ساتھ آم کی ایکسپورٹ میں بھی ایک مقام کا حامل رہا ہے، اس کے باوجود کہ ہماری  زراعت میں ترقی کرکے اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی ثابت کرتے، اس کے بر عکس ہی ہوتا رہا ہے،
پاکستان کا کسان وقت کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، اس کی فصل سے منافع تو دور کی بات ہے، لاگت تک بمشکل پوری ہو پاتی ہے، اور اگر ہم نیشل نیوٹریشن کی صورت حال کا جائزہ لیں تو ملک کی آبادی کا 36 فیصد غذائی قلت کا شکار ہے، پاکستان کے لیے تشویش کی بات ہے کہ تقریباً پانچ سال تک کی عمر 45 فیصد بچوں کا قد اپنی عمر کے حساب سے کم ہے،
جب ایک زرعی ملک میں کسانوں کا کوئی پُرسان حال ہی نہیں ہوگا تو نتیجتاً، کسان یا تو اپنی زمین بیچ دے گا یا پھر اسے رہائشی کالونی میں بدل دے،
گزشتہ چند سالوں پاکستان میں زرعی زمینوں پر کاشت کو ختم رہائشی ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بنانے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا، جس سے اوسط قابل کاشت رقبے میں تشویشناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے، اس کا سب سے بدترین اثر یہ ہوگا کہ آنے والے وقت میں پاکستان غذائی قلت کا مزید شکار ہوتا ہوا دکھائی دے گا،
دنیا میں تو باقاعدہ آئین سازی کی جاچکی ہے کہ جو زمین زراعت کے لیے مخصوص ہے وہاں کسی بھی قسم کی تعمیرات کی اجازت نہیں ہوتی اور خلاف  ورزی کی صورت میں سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں،
وزیراعظم نے اپنی پہلی تقریر میں جہاں پاکستان میں بچوں کی غذائی قلت کے معاملات کو اپنی ترجیحات میں اوّلیت دی تھی، وہیں پاکستان میں زراعت کے شعبے کی ترقی اور زرعی رقبے کی حفاظت کے پیش نظر جدید طرز کی محفوظ اور کثیر منزلہ تعمیرات کے فروغ کے عزم کا اعادہ بھی کیا تھا،۔
مگر انکا  یہ وعدہ بھی دیگر وعدوں کی مانند ایک نہ  وفاء ہونے والا وعدہ نظر آیا،۔
حکومت کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو بہت سنجیدگی سے لینا ہوگا، کیونکہ اگر ان اثرات کی وجہ پاکستان میں غذائی ضروریات کے مقابلے میں خوراک کی پیداوار وافر نہ ہوئی تو نہ جانے، غذائی  قلت کا شکار ہونے والی آبادی کی شرح کہاں تک جاپہنچے،
ملک میں زراعت کے شعبے میں برق رفتار، اور ٹھوس اصلاحات کا نفاذ ہی مفلوک الحال کسان کو مزید تباہی سے  بچانے میں کارگر ثابت ہوگا،
حکومت کو پورے ملک میں موجود غیر آباد سرکاری رقبے کا از سر نو جائزہ لے کر، اسے غریب کسانوں کو آسان شرائط پر دے دینا چاہیے، تاکہ مجموعی زرعی پیداوار میں اضافہ ہو جس سے ملک کی معیشت میں بجا طور پر بہتری آئے گی، ساتھ کے ساتھ زراعت سے متعلقہ شعبے لائیو سٹاک، ڈیری ڈویلپمنٹ اور مرغبانی کو ایسی سرکاری  زمین پر فروغ دیا جانا چاہیے جہاں زرعی اجناس کی پیداوار زیادہ آسانی سے نہ  ہوپائے، حکومت کو ان شعبوں میں پر کشش پیکجز کا اجراء کرنا ہوگا،
محکمہ زراعت کی استعداد کار کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا، زراعت میں تحقیق کے شعبے پر مزید توجہ وقت کا تقاضَا ہے، پاکستان کے زرعی سائنسدانوں کو تمام اہم اور نقد آور فصلات کے موسمی حالات سے ہم آہنگ بیجوں کی اقسام دریافت کرنا ہونگی،
ہمارے کسان بھائیوں کو بھی اپنی زراعت تکنیکی صلاحیتوں کو دور جدید کے تقاضوں مطابق ڈھالنا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کو قدرتی کھاد کے استعمال کو پھر رواج دینا ہوگا تاکہ ہماری خوراک ایک مکمل، جامع اور صحتمند خوراک ہو جو ہماری تمام بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کو توانا بنائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان تحریک انصاف نے کلین اینڈ گرین پاکستان کے نام سے ملک گیر تحریک شروع کی تھی، جس کا مقصد پورے ملک میں وسیع پیمانے پر پر جنگلات کی افزائش کرنا تھا، مگر پورے ملک جنگلات کی کٹائی بھی اپنے عروج پر ہے، جس یہ حکومت کی بلین ٹری سونامی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دکھا نہیں دے رہا،۔
حکومت کو وفاق، سے صوبائی سطح، صوبائی سے ضلعی سطح اور یونین کونسل اور بستی کی سطح جنگلات کی حفاظت کے حوالے سے سخت ترین قانون سازی کے ساتھ ساتھ مکمل ایمانداری سے اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے سماجی تحریک کا سہارا لے کر جنگلات کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا، تاکہ آنے والے دنوں میں ہمارا وطن ہر لحاظ سے بہتر اور مضبوط بن سکے۔

 

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply