آفٹر دی پرافٹ/تبصرہ :محمد اشفاق

شیعہ سنی تنازعہ پہ بہت کچھ پڑھ رکھا ہے, بہت کچھ ایسا جسے پڑھ کر زبان خشک ہو جاتی ہے, حلق میں کانٹے پڑ جاتے ہیں۔ آنسو بہنے لگتے ہیں, دل ٹوٹ سا جاتا ہے۔
تجسس انسان کو بہت دکھ دیتا ہے, اور آگہی نرا عذاب ہے۔ بہت کچھ جاننے سے نہ جاننا شاید بہتر ہوا کرتا ہے۔

مگر اس آگہی کے کچھ فائدے بھی ہوئے۔ کچھ بت مسمار ہوئے, یہ سمجھ آگئی کہ ہم ان پہ تقدس کے کتنے ہی غلاف کیوں نہ چڑھا دیں, انسان بہرحال انسان ہوا کرتے ہیں۔ خوبیوں, خامیوں کا مجموعہ, خوبصورتی و بدصورتی کا ملاپ۔ اور یہ بھی کہ سچ ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہ بعض اوقات غلطی پہ کوئی بھی نہیں ہوتا مگر حالات کا جبر اور وقت کا بہاؤ واقعات کو ایک خاص نہج پہ لے جاتا ہے, اسے روکنا شاید کسی کیلئے ممکن نہیں ہوتا۔

ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ شیعہ اور سنی دونوں سے ہی بیزاری ہوگئی۔ مجھے نہ تو دونوں میں سے کسی ایک سے ہمدردی ہے اور نہ کسی ایک سے کوئی پُرخاش۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اگر توحید و رسالت کا اقرار کافی نہیں آپ کو مسلمان بنانے کیلئے تو پھر کچھ بھی کافی نہیں۔ تو آگہی کا بہرحال ایک فائدہ تو ہے۔۔یہ آپ کو آزاد کر دیتی ہے۔

عرض یہ کرنا تھا کہ جب آفٹر دی پرافٹ کے بارے میں سنا تو پہلے یہی خیال آیا کہ کیا اس موضوع پہ مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت ہے؟ مصنف کو تلاش کیا, ان کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کی تو ان کا وہ لیکچر سامنے آیا جو چند دن قبل ترجمہ کرنے کی کوشش کی۔ لیزلی کی دی فرسٹ مسلم کا نہ صرف پتہ چلا بلکہ پڑھنے کو مل بھی گئی۔ اب لیزلی پہ اعتبار ہوگیا کہ یقیناً  انہوں نے شیعہ سنی تنازعے کو بھی کسی نئے پہلو سے, غیر جانبدارانہ انداز سے دیکھا ہوگا۔ شاید کچھ نیا پڑھنے کو مل جائے۔

آج صبح کتاب پڑھنا شروع کی, اور پہلے صفحے سے ہی اس نے اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔ دوسرے باب پہ تھا تو اصغر کو کہا کہ بہتر ہے اسلام پہ بندہ اب غیرمسلموں کو ہی پڑھا کرے۔ حیرت انگیز روانی, خوبصورتی اور کسی سسپنس سے بھرپور کہانی کا سا انداز۔ یہ بھی بھول گیا کہ صبح ناشتہ نہیں کیا تھا, دن کا کھانا بھی ابھی کھانا ہے۔ اچھی کتاب ہاتھ لگ جائے تو اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ مگر جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا, ایک احساس شدت اختیار کرتا گیا۔ جانبداری کا احساس۔

جی ہاں, بجائے اس مسئلے کو ایک معروضی انداز سے, ایک غیرجانبدار مؤرخ یا تجزیہ نگار کے طور پہ دیکھنے کے, لیزلی یہاں ایک پارٹی بن گئیں۔ یہ کتاب شخصیات و واقعات کا ایک overwhelmingly شیعہ ورژن ہے۔ اور انتہائی ذہانت سے تیار کردہ۔
بظاہر آپ کو دونوں طرف کا مؤقف ملتا ہے, واقعات کی وہی ترتیب, وہی بیان جس پہ سنیوں کا اتفاق ہے۔ مگر یہاں لیزلی کا برسوں کا صحافتی تجربہ ان کے کام آیا۔
Seemingly innocent words and phrases have been added here and there; which serve to give the picture a particular touch, a direction where the writer wants you to go, a conclusion she wants you to reach at, a verdict she puts in your mouth, without clearly referring to it or even without explicitly mentioning it just once.

یہ وہ کمال ہے جس پہ صرف لیزلی ہیزلٹن جیسی کہنہ مشق صحافی ہی پہنچ سکتی تھیں۔ مگر وہ سچ کیا ہوا, وہ غیرجانبداری کہاں گئی, وہ دی فرسٹ مسلم کی دلیر, دو ٹوک بات کہنے والی لیزلی کا کیا ہوا۔

مجھے ذاتی طور پہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے امام حسین ع کی شہادت تک بہت سے متنازع  معاملات میں شیعہ موقف درست لگتا ہے۔ مگر بہرحال بہت سے معاملات میں یہ موقف غلط بھی ہے۔ ان کے پیشے سے دیانتداری کا تقاضا یہ تھا کہ یا تو وہ دونوں طرف کا موقف حتی الوسع غیرجانبداری سے سامنے رکھ کے اس پہ اپنا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتیں۔ یا پھر یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ یہ کتاب وہ شیعہ موقف کی نمائندگی کے طور پہ لکھ رہی ہیں۔ لیزلی نے اپنے قارئین سے کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ اور مجھے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ مغربی دنیا میں ان کی یہ کوشش کامیاب رہی ہے۔ ایک عام غیرمسلم, حتٰی کہ کسی ایسے مسلمان قاری کیلئے بھی جس کا ان تاریخی واقعات کا مطالعہ اتنا گہرا نہیں ہے, وہ نتائج اخذ کرنا بہت آسان ہے جو لیزلی چاہتی تھیں۔ اور یہ کہ غیرمسلم قارئین کی بھاری اکثریت اب اسی کو سچ مانتی ہوگی جسے لیزلی نے نہایت ہوشیاری سے سچ بنا کر دکھایا۔
And this is utterly disappointing and disgusting as well.

Advertisements
julia rana solicitors london

اب سوال یہ کہ آخر لیزلی نے ایسا کیوں کیا, میرا خیال ہے ہمدردی کی بناء پر۔ انہوں نے اپنے صحافتی کیرئر کا بیشتر وقت مڈل ایسٹ کو رپورٹ کرتے گزارا ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں امریکہ کی عراق میں مداخلت کے بعد جو شیعہ سنی تصادم شروع ہوا اس میں ابتدا میں شیعہ ریسیونگ اینڈ پہ تھے۔ جیسا کہ بدقسمتی سے وہ بیشتر اوقات رہے ہیں۔ یہی وہ عرصہ تھا جس میں لیزلی اس تنازعے کی جانب متوجہ ہوئیں اور غالبا” شیعوں پہ ہونے والے مظالم نے انہیں جب تحقیق پہ مائل کیا تو شاید غیرشعوری طور پہ انہوں نے اسی مواد کو زیادہ اہمیت دی جو مظلوم طبقے کے حق میں تھا۔
وہ لوگ جو واقعات کا شیعہ پوائنٹ آف ویو جاننا چاہیں ان کیلئے یہ کتاب بہرحال بہت مفید ثابت ہوگی۔ مجھ جیسے جو شیعہ سنی دونوں موقف جاننے کے بعد دونوں پہ لعنت بھیج چکے, وہ اس سے دور ہی رہیں تو اچھا ہے۔
میرا چوبیس گھنٹے کا فاقہ برباد ہوا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply