کٹ پیس اور چند کمینے شعر۔۔۔ذیشان نور خلجی

تحریک انصاف کے راہنماء صداقت علی عباسی نے کہا ہے ‏”فیصل واوڈا نے ٹھیک کام نہیں کیا۔” اگر انہوں نے بوٹ والا کام کرنا ہی تھا تو ذرا ڈھنگ سے کرتے۔ اور لگے ہاتھوں ایک آدھ بندے کو لگا بھی دیتے۔ کہ یاد گیری رہتی۔

وفاقی وزیر ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے “موجودہ حکومت پر تنقید کرنا بہت آسان ہے۔” کیونکہ ان سے کچھ ہو تو رہا نہیں۔اور جو ہو رہا ہے اس کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ اور یہ ایسے نیت کے ولی واقع ہوئے ہیں کہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں وہ سونا بھی ہو تو مٹی بن جاتا ہے۔

وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے “‏عالمی دنیا بھی عمران خان پر اعتماد کرتی ہے۔” البتہ پاکستانی عوام کو اس سے استثنٰی حاصل ہے۔ویسے ہمیں پاکستانی عوام کی کچھ خاص پرواہ بھی نہیں۔عمران خان کے مطمع نظر ایک بین الاقوامی سیاستدان بننا ہے ناکہ صرف پاکستانی سیاستدان ۔کیونکہ کل کلاں کو انہوں نے بھی یہاں سے چلے جانا ہے۔ کہ سبھی سیاستدانوں کے لئے پاکستان بابل کا گھر واقع ہوا ہے جہاں سے ایک دن چڑیوں نے اڑ جانا ہوتا ہے۔

ن لیگ کے راہنماء رانا مشہود نے کہا ہے “‏نواز شریف صحت مند ہو کر جب وطن واپس آئیں گے ، وہ حکومت کے جانے کا دن ہو گا۔” اسی سے واضح ہوتا ہے کہ وہ نہیں آنے والے۔ اس لئے حکومت مطمئن رہے۔ اگر پھر بھی ڈاکٹرز نے مزید ہوا خوری کے لئے پاکستان کا رخ کرنے کی اجازت دے دی تو بھی الیکشن والے دن ہی لوٹیں گے۔ اور حالیہ ترمیم والے معاملے سے نظر آ رہا ہے کہ وہ اپنا واپسی کا رستہ ناپ رہے ہیں اور راستہ صاف ہوتے ہی وطن لوٹ آئیں گے۔

وفاقی وزیر ‏مراد سعید نے کہا ہے “سابقہ حکومتیں ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر چھوڑ کر گئیں۔” اور اب گڑھے میں ہم گرائیں گے۔ انہیں چاہیے تھا کہ کچھ تو ڈھنگ سے کرتے اور معیشت کو دہانے پہ پہنچانے کے بعد، پیچھے سے ایک ٹھڈا بھی لگا دیتے۔ لیکن اب ہم آ گئے ہیں تو آپ لوگوں نے پریشان نہیں ہونا۔ہم اسے گرا کر ہی دم لیں گے۔
انہوں نے مزید کہا “اصل لیڈر آنے والی نسلوں کا سوچتا ہے۔” اس لئے ہم موجودہ نسل کا سوچ ہی نہیں رہے۔اور سچ پوچھیں تو ہم صرف اپنی ہی آنے والی نسل کا سوچ رہے ہیں۔ اور سابقہ حکمرانوں کی طرح ہمارا فوکس بھی صرف اپنی ہی اولادوں کی طرف ہے۔

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے “کام نیک نیتی سے کریں تو اللہ بھی آسانیاں پیدا کرتا ہے۔” اس سے اندازہ لگا لیں کہ حکومت چلانے میں ہمیں جو مشکلات پیش آرہی ہیں اس کے پس پردہ کیا حقائق ہیں۔ اور ویسے بھی اعمال کا دارومدار تو نیتوں پر مبنی ہے۔

اور اب کچھ منتخب اشعار قارئین کی نذر !
آمروں کے جو گیت گاتے رہے
وہی نام و داد پاتے رہے
حکمراں ہو گئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
خیال رہے درج بالا اشعار محنت کشوں کے شاعر جناب حبیب جالب نے آج سے عشروں پہلے غالباً ستر کی دہائی میں کہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خطۂ ارضی پاکستان ‘نابغہ روزگار’ شخصیات سے کبھی خالی نہیں رہا۔اور الحمد للہ یہاں آج تک قحط الرجال نہیں پڑا۔
اور کچھ مزید اشعار
‏‎خوف کی فضا ہے شہر کے مکینوں میں
یہ کس نے بانٹ دیں سرداریاں کمینوں میں
۔
جب کمینے عروج پاتے ہیں
اپنی اوقات بھول جاتے ہیں
کتنے کم ظرف ہیں یہ غُبارے
چند پھونکوں سے پھول جاتے ہیں

آخر میں واضح کرتا چلوں کہ درج بالا منتخب اشعار سے حکومت بالخصوص وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply