کنواری مائیں /ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی

دنیا کے زیادہ تر کثیر خلوی جانور جنسی تولید سے اپنی نسل بڑھاتے ہیں یعنی نر اور مادہ جنسی ملاپ کرتے ہیں جس سے مادہ کے بیضے نر کے سپرم سے فرٹیلائز ہوتے ہیں اور اگلی نسل پیدا ہوتی ہے- جنسی تولید کا طریقہ ارتقائی طور پر انتہائی کامیاب رہا ہے کیونکہ اس طرح نوع کی آبادی میں تنوع پیدا ہوتا ہے جو ارتقاء کا باعث بنتا ہے- کسی بھی نوع کی آبادی میں جینیاتی تنوع جس قدر زیادہ ہو گا اسی قدر اس بات کا امکان ہو گا کہ ماحول کی یکایک تبدیلی کے باوجود اس نوع کے کچھ افراد نئے ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں گے اور اپنی نسل بڑھاتے رہیں گے- اس کے برعکس اگر اگلی نسل غیر جنسی طور پر پیدا ہو تو لامحالہ اگلی نسل میں کم و بیش وہی جینز ہوں گے جو موجودہ نسل میں ہیں- اس وجہ سے اس نوع میں جینیاتی تنوع کا فقدان ہو گا اور اگر کسی وجہ سے ماحول یکایک تیدیل ہو جائے تو اس نوع کے معدوم ہونے کا امکان بہت زیادہ ہو گا

لیکن کثیر خلوی جانوروں کی کچھ انواع ایسی بھی ہیں جن میں مادہ بغیر جنسی اختلاط کے بھی بچے یا بارآور انڈے پیدا کر سکتی ہے- اس مظہر کو parthenogenesis کہا جاتا ہے اور یہ شہد کی مکھیوں، شارک، کوموڈو ڈریگن، اور سانپوں سمیت کئی جانوروں میں دیکھا گیا ہے- جنگلی جانوروں میں یہ دیکھنا عملاً ناممکن ہے کہ کوئی جانور جنسی ملاپ کے نتیجے میں بچے دے رہا ہے یا نہیں- لیکن چڑیا گھروں میں جانوروں پر ہر وقت نظر رکھی جاتی ہے اور جانوروں کے رویوں کا ہر ممکن طریقے سے مشاہدہ کیا جاتا ہے-

سنہ 2016 میں آسٹریلیا کے ایک aquarium میں نر اور مادہ شارک مچھلیوں کو الگ الگ ٹینکوں میں رکھا جانے کے باوجود ایک مادہ شارک نے انڈے دیے جن میں سے تین انڈوں سے بچے بھی برآمد ہوئے- یہ بچے مادہ شارک کے کلون تھے یعنی ان کے جینز سو فیصد اس مادہ شارک سے ملتے تھے- اسی طرح امریکہ کے ایک چڑیا گھر میں ایک مادہ اژدہا نے چھ انڈے دیے اور سب انڈوں سے بچے پیدا ہوئے- اس مادہ نے زندگی بھر کسی نر اژدھا کو نہیں دیکھا تھا اور اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ چڑیا گھر کے عملے سے نظریں بچا کر اس مادہ نے کسی نر اژدھا سے جنسی ملاپ کیا ہو- انگلینڈ کے ایک چڑیا گھر میں ایک کموڈو ڈریگن نے بھی بغیر کسی نر کے بچے پیدا کیے تھے

آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ غیرجنسی تولید کیسے ممکن ہوتی ہے- غیرجنسی تولید کو سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ جنسی تولید کیسے ہوتی ہے

جنسی تولید:
بیضے مادہ کی اووریز میں بنتے ہیں اور سپرم نر کے خصیوں میں- جنسی خلیوں کے بننے کے علم کو میئوسس (Meiosis) کہا جاتا ہے- اگر ہم انسانوں کی مثال لیں تو میئوسس کے اس پراسیس میں خام خلیے (جن میں کروموسومز کے 23 جوڑے یعنی 46 کروموسومز ہوتے ہیں) تقسیم ہو کر جنسی خلیے بنتے ہیں جن میں سے ہر حلیے میں 23 کروموسوم (یعنی عام خلیوں کی نسبت نصف کروموسوم) ہوتے ہیں

ہمارے ہر خلیے میں کروموسومز کے 23 جوڑے ہوتے ہیں یعنی کل 46 کروموسوم ہوتے ہیں- ان میں سے 23 کروموسوم ماں کی طرف سے ملے ہوتے ہیں اور 23 باپ کی طرف سے- عام خلیوں میں ماں سے ملنے والے جینز اور باپ سے ملنے والے جینز الگ الگ لڑیوں میں پائے جاتے ہیں یعنی آپس میں مکس نہیں ہوتے- سپرمز بننے کا عمل خصیوں میں ہوتا ہے جہاں ایک خام خلیے سے تقسیم ہو کر پہلے دو خلیے بنتے ہیں جن میں ماں اور باپ سے ملنے والے جینز آپس میں مکس ہو جاتے ہیں (بالکل اسی طرح جس طرح تاش کے سرخ رنگ اور سیاہ رنگ کے پتے الگ الگ ہوں اور انہیں پھینٹا جائے تو سرخ اور سیاہ پتے آپس میں مکس ہو جاتے ہیں)- اس پراسیس کے بعد ہر خلیے میں 46 کروموسوم ہیں لیکن اب ماں اور باپ کے کروموسوم الگ الگ نہیں رہے بلکہ آپس میں مکس ہو چکے ہیں- پھر ان دو خلیوں میں سے ہر ایک مزید دو خلیوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور ہر خلیے میں 23 کروموسوم رہ جاتے ہیں- یوں اب کل ملا کر چار خلیے بن گئے ہیں جن میں سے ہر ایک میں 23 کروموسوم ہیں- ان میں سے ہر خلیہ سپرم بن جائے گا

اووریز میں بھی اسی طرح خلیوں کی تقسیم کا عمل ہوتا ہے اور ایک خام خلیے سے چار خلیے بنتے ہیں جن میں سے ہر ایک میں 23 کروموسوم ہوتے ہیں- لیکن فرق یہ ہے کہ ان چار خلیوں میں سے صرف ایک خلیہ بیضہ بنتا ہے باقی تین خلیوں کو پولر باڈیز کہتے ہیں- پولر باڈٰیز میں باقی خلیوں کی طرح آرگنیلز نہیں ہوتے اور یہ خلیے تولید کے کام نہیں آتے بلکہ ضائع ہو جاتے ہیں

جنسی تولید کا عمل مادہ کے بیضے اور نر کے سپرم کے ملنے سے شروع ہوتا ہے- جب سپرم اور بیضہ آپس میں ملتے ہیں تو بیضہ فرٹیلائیز ہوتا ہے اور سپرم اور بیضے کا جینیاتی میٹیریل مل کر بچے کا مکمل جینیاتی میٹیریل مکمل کرتے ہیں اور یوں اگلی نسل کا پہلا خلیہ تشکیل پاتا ہے-

دنیا کے بیشتر کثیر خلوی جانوروں میں تولید کا عمل اسی طرح سے طے پاتا ہے- تاہم کچھ جانوروں میں بیضوں کی فرٹیلائزیشن کے لیے سپرم کی ضرورت نہیں پڑتی

غیر جنسی تولید:
تمام یک خلوی جانور اپنی اگلی نسل غیر جنسی تولید سے پیدا کرتے ہیں یعنی ایک خلیہ تقسیم ہو کر دو خلیے بناتا ہے اور اس پراسیس میں اپنا جینیاتی میٹیریل کاپی کرتا ہے- کثیر خلوی جانوروں میں اگرچہ زیادہ تر جانور جنسی تولید سے اگلی نسل پیدا کرتے ہیں لیکن کچھ انواع ایسی بھی ہیں جن کی مادائیں بوقت ضرورت (یعنی اگر نواح میں کوئی نر میسر نہ ہو تو) غیر جنسی تولید سے بھی اپنی اگلی نسل پیدا کرنے کی قابلیت رکھتی ہیں- کثیر خلوی جانوروں میں غیر جنسی تولید کے دو مختلف پرایسسز ہیں

ہم نے جنسی تولید کے بارے میں یہ ذکر کیا تھا کہ مادہ کی اووریز میں خلیوں کی تقسیم کے دوران جہاں ایک بیضہ بنتا ہے وہیں تین پولر باڈیز بھی بنتی ہیں جو عموماً تولید میں کام نہیں آتیں- یہ پولر باڈٰیز بھی بیضے کی طرح ہی ہوتی ہیں کیونکہ ان میں بھی کروموسومز کی تعداد عام خلیوں کے مقابلے میں نصف ہوتی ہے- لیکن ان میں خلیوں کے باقی ارگینیلز نہیں ہوتے- بعض اوقات ایک پولر باڈی ضائع ہونے کے بجائے بیضے میں ضم ہو جاتی ہے اور یوں بیضے میں کروموسومز مکمل ہو جاتے ہیں- ایسے بیضے بھی بارآور ہوتے ہیں اور ان سے بچے پیدا ہو سکتے ہیں- ان بیضوں سے پیدا ہونے والے بچوں کی جنس ہمیشہ مادہ ہی ہوتی ہے لیکن ان کا جینیاتی میٹیریل چونکہ میئوسس کے عمل سے گذرا ہوتا ہے اس لیے اس میں کچھ جینز ماں کی جینز سے مختلف ہو سکتے ہیں- وہ اس طرح کے ماں کے ڈی این اے میں ہمیشہ ایک جین نانا کی طرف سے آتا ہے اور ایک نانی کی طرف سے- لیکن پولر باڈیز اور بیضے میں چونکہ نانا اور نانی کے جینز shuffle ہو چکے ہوتے ہیں اس لیے عین ممکن ہے کہ پولر باڈی اور بیضے کے ملنے سے جو فرٹیلائزیشن ہو اس میں کچھ جینز کی دونوں کاپیاں نانا کی طرف سے ہوں اور کچھ جینز کی دونوں کاپیاں نانی کی طرف سے- اس لیے ایسے بچے ماں کے کلون نہیں ہوتے بلکہ ماں سے کچھ مختلف ہو سکتے ہیں

غیرجنسی تولید کا دوسرا پراسیس کلون بنانے کا ہے- اس پراسیس میں خام خلیے میئوسس کے پراسیس سے نہیں گذرتے یعنی ایسے خلیوں میں تقسیم نہیں ہوتے جن میں کروموسومز کی تعداد باقی خلیوں کے مقابلے میں نصف ہو بلکہ براہِ راست ایسے بیضے بن جاتے ہیں جن میں کروموسومز کی تعداد مکمل ہوتی ہے یعنی ہر کروموسوم کی دو کاپیاں ہوتی ہیں جن میں سے ایک نانا کی طرف سے اور ایک نانی کی طرف سے ہوتی ہیں- ایسے بیضوں سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں ان کی نہ صرف جنس مادہ ہوتی ہے بلکہ وہ سو فیصد اپنی ماں کی کاپی ہوتے ہیں

کنواری مائیں کن سپیشیز میں بن سکتی ہیں:
غیرجنسی تولید نسبتاً چھوٹے غیر فقاری جانوروں میں زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ ایسے جانوروں کے لیے فرٹیلائزیشن کے لیے نر کا نزدیک ہونا مشکل ہو سکتا ہے- حشرات جو سوشل ماحول میں رہتے ہیں مثلاً چیونٹیاں، شہد کی مکھیاں، اور بھڑ (wasp) وغیرہ میں بھی غیر جنسی تولید دیکھنے کو ملتی ہے- اس کے علاوہ ایسے فقاری (یعنی ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے) جانور بھی غیر جنسی تولید کرتے ہیں جو یا تو ریگستانوں میں رہتے ہیں یا پھر جزیروں پر- دونوں صورتوں میں اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ مادہ کے نواح میں کوئی نر موجود نہ ہو- ان میں سانپ اور کئی قسم کی چھپکلیاں شامل ہیں

کچھ جانوروں میں نر کے ساتھ جنسی ملاپ کے باوجود بیضے میں نر کا جینیاتی میٹیریل شامل نہیں ہو پاتا اور بیضہ صرف ماں کے جینیاتی میٹیریل کا ہی حامل رہتا ہے- لیکن سپرم کے ملنے سے (اگرچہ اس میں سپرم کا جینیاتی میٹیریل شامل نہیں ہوا) بیضے میں ایسی کیمیائی تبدیلیاں آ جاتی ہی کہ بیضہ فرٹیلائزڈ بیضے کی طرح تقسیم ہونے لگتا ہے – ایسی غیر جنسی تولیش سالیمانڈر، فلیٹ ورمز، اور کچھ دوسرے حشرات میں دیکھی گئی ہے

جن جانوروں میں غیرجنسی تولید ہوتی ہے ان میں بھی غیرجنسی تولید صرف اس صورت میں ہوتی ہے اگر نر میسر نہ ہو- اگر نواح میں نر میسر ہوں تو مادائیں نر سے جنسی ملاپ سے ہی اگلی نسل پیدا کرنے کو ترجیح دیتی ہیں- تاہم چھپکلیوں کی کچھ انواع ایسی بھی ہیں جن میں نر ناپید ہو چکے ہیں اور صرف مادائیں ہی غیرجنسی تولید کے ذریعے اپنے کلون بنا کر اگلی نسل پیدا کرتی ہیں

میملز میں غیرجنسی تولید دیکھنے کو نہیں ملتی-

اوریجنل آرٹیکل کا لنک:
https://www.nationalgeographic.com/animals/reference/parthenogenesis-how-animals-have-virgin-births/

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply