ذہانت (14) ۔ دو مجرم/وہاراامباکر

اگست 2011 کو لندن کے علاقے برکسٹن میں ہونے والے احتجاج نے پرتشدد موڑ لے لیا۔ شہر لاقانونیت کی نظر ہو گیا۔ لوٹ مار شروع ہو گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

نکولس رابنسن الیکٹریکل انجینرنگ 23 سالہ طالبعلم تھے جو کہ معمول کے راستے سے پیدل اپنے گھر جا رہے تھے۔ لیکن ماحول معمول کا نہیں تھا۔ گاڑیاں الٹی پڑی تھیں۔ شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔ آگ لگی ہوئی تھیں۔ دکانوں میں لوگ گھسے ہوئے مال اٹھا رہے تھے۔ پولیس اس صورتحال پر قابو پانے کی تگ و دو میں تھی۔ کمپیوٹر، جوتے، کپڑے، ٹی وی، چرائے جا رہے تھے۔ کچھ بھی قابو میں نہیں تھا۔
نکولس رابنسن کو پیاس لگی تھی۔ وہ ایک دکان میں گھس گئے۔ وہاں پر برا حال تھا۔ لوگ قیمتی اشیا لوٹ کر بھاگ رہے تھے۔ انہیں پیاس لگی تھی۔ انہوں نے پانی کی بوتلوں کا ایک کیس اٹھا لیا جس کی کل مالیت ساڑھے تین پاونڈ تھی۔ وہ نکل رہے تھے کہ پولیس آ گئی۔ انہیں احساس ہوا کہ ماجرا کیا ہے۔ انہوں نے یہ کیس پھینکا اور بھاگنے کی کوشش کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے روز بھی مظاہرے جاری رہے۔ یہی مناظر دہرائے گئے۔ اٹھارہ سالہ رچرڈ جانسن اس کو خبروں میں دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی جیکٹ اٹھائی، منہ ڈھانپا اور نکل پڑے۔ ایک ویڈیو سٹور پہنچے۔ یہاں سے کمپیوٹر گیموں کا ایک پلندہ اٹھایا اور نکل پڑے۔ ان کے لئے بدقسمتی یہ رہی کہ جہاں پر انہوں نے گاڑی کھڑی کی تھی، وہ جگہ عین کیمرے کے آگے تھی۔ اور گاڑی کا نمبر آسانی سے پڑھا جا سکتا تھا۔ پولیس اس کی مدد سے ان تک پہنچ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رچرڈ جانسن اور نکولس رابنسن کو 2011 کے مظاہروں کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ دونوں پر چوری کا مقدمہ بنا۔ دونوں کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ دونوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے نکولس رابنسن کی باری آئی۔ انہوں نے جو چیز اٹھائی تھی، وہ پانی کی بوتلیں تھیں جو مہنگی نہیں تھیں۔ ان کا اس سے پہلے جرائم کا ریکارڈ نہیں تھا۔ اچھے کردار کے سمجھے جاتے تھے اور عدالت کو بتایا کہ وہ اپنے کئے پر نادم تھے۔
جج نے کہا کہ ان کی حرکتوں نے اس رات کے ماحول کی لاقانونیت میں اضافہ کیا اور وہ اس میں شریک تھے۔ ان کو چھ ماہ قید کی سزا سنا دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانسن پر کیس کی باری دیر سے آئی۔ وہ جنوری 2012 میں عدالت میں پیش ہوئی۔ اور اگرچہ انہوں نے یہ جان کر کیا تھا۔ نقاب پہن کر گئے تھے تا کہ پہچانے نہ جائے۔ لوٹ مار منصوبہ بندی سے کی تھی۔ لیکن جانسن کو جیل کی سزا نہیں سنائی گئے۔ انہیں وارننگ دی گئی اور دو سو گھنٹے کے مفت کمیونٹی کام کا کہا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظامِ انصاف میں یہ consistency کا مسئلہ ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply