مصر و ترکی میں Me Too تحاریک کے اسباب (حصہ دوئم)۔۔منصور ندیم

دنیائے عرب میں تیونس ہی نہیں بلکہ مصر میں بھی خواتین کو ہراساں کرنا ایک بحران کی شکل میں موجود ہے، مصر میں ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے طویل جدوجہد کی گئی ہے جس میں متعدد ہائی پروفائل کیسز منظر عام پر آئے۔ ان کے لئے وہاں پر اب آگاہی کے علاوہ مختلف تدارک و قوانین کی راہ اپنائی جارہی ہے۔ برطانیہ کی ایک معروف نجی انسانی حقوق کی تنظیم Thomson Reuters Foundation نے سنہء ۲۰۱۷ میں دنیا بھر میں خواتین پر تشدد اور ہراسانی سے متعلق تحقیق کے مطابق نئی دہلی، کراچی اور کنشاسا کے بعد قاہرہ خواتین کی حفاظت کے حوالے سے بدترین مقام ثابت ہوا۔ تھامسن رائیٹرز فاونڈیشن کی جانب سے اس فہرست میں دنیا کے ۱۹ بڑے شہر شامل ہیں جن میں ایک کروڑ نفوس سے زیادہ آبادی موجود ہے۔

ویسے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں خواتین کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک وہاں پر روزانہ کا معمول ہے۔ وہیں مختلف علاقوں میں عوامی نظم وضبط کا فقدان بھی دیکھنے میں  آتا ہے جن میں خواتین کے ساتھ چھیڑ خانی اور زبانی بدسلوکی کے ساتھ ساتھ جملے کسنا شامل ہے۔ ایسے رویے وہاں پر اکثر اوقات مختلف تفریحی مقامات، مارکیٹس میں اور عوامی اجتماعات کے مقامات پر زیادہ تر دیکھنے کو  ملتے ہیں، تاہم خواتین کو ہراساں کرنے والوں کو روکنے کے لیے ۲۰۱۴ کو بنائے گئے مخصوص قانون کے بعد گذشتہ تین سال کے دوران ایسے واقعات کی تعداد میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے۔ سڑکوں پر خواتین کو ہراساں کرنے کی حوصلہ شکنی کے حالیہ قانون میں ایک سال قید اور پانچ ہزار سے دس ہزار مصری پاؤنڈ تک جرمانہ رکھا گیا ہے۔ اگر ہراساں کرنے والے نے اسلحہ کا استعمال کیا ہے یا ایذا رسانی کی گئی ہے تو سزا کی میعاد پانچ سال قید اور پچاس ہزار مصری پاؤنڈ تک جرمانے کا اطلاق ہو سکتا ہے۔

سنہء ۲۰۱۸ میں مصر میں ایک ایسا ہی واقعہ کافی شہرت رکھتا ہے جس میں صرف ایک بائیس سالہ شخص نے سو سے زیادہ طالبات کو ہراساں کیا اور ان میں سے کچھ کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بھی بنایا تھا، اس طرح کے واقعات پر مصر کے مذہبی حلقوں کا وہی روایتی فارمولہ دیکھنے میں آتا ہے، مصر کے اسلامی مشاورتی ادارہ “دارالفتاح” خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کے جرم کو ایک بڑا گناہ قرار دیتے اور اس کی وجہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور مذہب سے دوری بتاتے ہیں، کچھ روایتی حلقے خواتین کے لباس کو اس طرح کے واقعات کی وجہ بتاتے ہیں، مگر ریپ اور جنسی ہراسگی کے مجرم کے لئے قوانین میں یہ حل پیش کرتے ہیں کہ ریپ ہونے والی لڑکی کو ریپ کرنے والے شخص کے ساتھ شادی کردی جائے ۔ مصر میں جب اس طرح کے قانون کو بنائے جانے کے لئے بات کی گئی تو مصر میں خواتین تحاریک نے کافی شدت سے اس قانون کی مذمت کی تھی۔

بدقسمتی سے ایسے ہی کچھ قوانین ترکی میں بھی نافذ ہیں، جہاں عصمت دری کی جانی والی لڑکی کو مذہب ثقافت و روایات کی بہتری کے نام پر عصمت دری کرنے والے مجرم سے شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سنہء ۲۰۲۰ میں ترکی پارلیمنٹ میں ایک قانون پیش کرنے کی تیاری کی گئی تھی “جس کے تحت ۱۸ سال سے کم عمر کی لڑکیوں کے ساتھ ریپ کرنے والے ان لوگوں کو سزا نہیں ہوگی بلکہ ان افراد کی متاثرہ لڑکیوں سے شادی کروادی جائیگی۔ اس بل کے نتیجے میں ایسے تمام مردوں کو رہائی مل سکتی تھی، جنھیں قانونی اعتبار سے ریپ کا مرتکب ہونے پر سزا ملی تھی۔ اور جنھیں اس شرط پر رہا کیا جاتا کہ وہ ان خواتین سے شادی کریں گے جن خواتین یا بچیوں کو انھوں نے ریپ کا نشانہ بنایا تھا، اس بل کے خلاف بھی وہاں پر خواتین کی مقامی تنظیموں نے شدید مظاہرے کئے تھے۔

اس سے پہلے سنہء ۲۰۱۶ میں  بھی ایسا ہی بل پیش کیا گیا تھا جسے حزب اختلاف کی جماعت کے احتجاج کی وجہ سے منظور نہیں کیا گیا تھا۔ اس بل کی وجہ سے ترکی میں بھی اور عالمی سطح پر بھی احتجاج سامنے آیا تھا، اقوام متحدہ کے اداروں نے بھی خبردار کیا تھا کہ “ایسے مسودہ قانون کی وجہ سے بچوں سے بدسلوکی کی کھلی چھٹی مل جائے گی اور ریپ سے متاثرین کو اپنے اوپر حملہ آور ہونے والے کے ہاتھوں شادی کی صورت میں مزید بدسلوکی اور تکلیف کے تجربے گزرنا پڑے گا۔”

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے سنہء ۲۰۱۶ میں استبول میں ہونے والی ایک سربراہ کانفرنس میں کہا تھا کہ
“مردوں اور خواتین کے درمیان برابری فطرت کے خلاف ہے، خواتین اور مردوں کو برابری کی سطح پر نہیں رکھ سکتے”۔ موصوف نے ایسے ہی ایک اور موقع پر پارلیمنٹ میں سنہء ۲۰۱۶ میں ہی خواتین پر زور دیا تھا کہ “ہر خاتون کے کم از کم تین بچے ہونے چاہئیں اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایک خاتون کی زندگی بچوں کے بغیر نامکمل ہو گی۔ ایک ایسی خاتون جو کہتی ہو کہ “چونکہ میں ملازمت کرتی ہوں میں ماں نہیں بنوں گی۔ وہ اصل میں اپنے عورت ہونے کا انکار کر رہی ہوتی ہیں۔وہ خاتون جو ماں بننے کو مسترد کر دیتی ہیں، جو گھر میں رہنے سے گریز کرتی ہیں، چاہے ان کی پیشہ ورانہ زندگی کامیاب ہی کیوں نہ ہو، ایسی خاتون کی زندگی میں کمی ہوتی ہے وہ نامکمل ہوتی ہیں۔” یہ ایک اسلامی ملک کے صدر کے خیالات ہیں۔

مصر کے علاوہ اردن میں بھی خواتین کو ایسے ہی مسائل کا سامنا رہا ہے، چونکہ مغربی ممالک اس وقت ترقی یافتہ اور بہتر زندگی کی جانب گامزن ہیں تو وہیں پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کافی کام بھی ہوتا ہے، جب ان اسلامی ممالک میں کچھ خواتین اسی طرز پر آواز اُٹھائیں یا مظاہرہ کریں تو ہمارے مذہبی حلقے ان کو این جو اوز کی اسلام کے خلاف سازشیں یا بے راہ روی کا الزام لگادیتے ہیں۔ اس وقت پوری اسلامی دنیا میں مغربی تحریک “Me Too” کسی نہ کسی صورت موجود ہے۔ کیونکہ ان ممالک میں واقعی آج بھی خواتین   عصمت دری، ہراسمنٹ اور بچے پیڈوفیلیا جیسے معاملات کا با آسانی شکار ہیں، اور اس کے اسباب وہی ثقافتی و مذہبی تاویلات ہیں جن کی وجہ سے عورتوں کے حقوق کو غصب کیا جاتا بلکہ ان کے حقوق مانگنے کو بھی سازش کا نام دے دیا جاتا ہے۔ جن عرب ممالک جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات قطر، عمان میں جہاں قوانین موجود ہیں، وہاں ایسے مسائل کا سامنا نہیں ہے مگرجہاں ان قوانین پر درست عملداری نہیں ہے، وہاں پر ابھی بھی قوانین کو زیادہ متحرک اور وسیع پیمانے پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے تا کہ کوئی ایسے جرائم کی سزا سے بچ نہ سکے۔ اس کے بعد ہی ایسے واقعات کی تعداد میں بتدریج کمی دیکھی جا سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply