• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شاہراہ بلتستان ،شاہراہ قراقرم کی زبوں حالی اور سیاحت کا مستقبل/شیر علی انجم

شاہراہ بلتستان ،شاہراہ قراقرم کی زبوں حالی اور سیاحت کا مستقبل/شیر علی انجم

کہتے ہیں سڑک بہتر نیٹ ورک  ،سرمایہ کاری  اور معاشی ترقی کی  ضامن ہوتی ہے۔بہتر سڑکوں کے ہونے سے  نقل و حمل میں اضافہ ہونے کے ساتھ ملک کی جی ڈی پی میں ان کا حصہ بڑھے گا اور روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ سڑکوں کی تعمیر غریب، کمزورطبقے اور دیہاتوں کو دیگر علاقوں، اسکولوں اور بازاروں سے جوڑتی ہے اور سماجی اور اقتصادی ترقی کی کلید ہے۔ اس کے علاوہ، سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کا کام دیہی علاقوں میں لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔

 

 

 

اہم بات یہ بھی ہے کہ انفرا سٹرکچر جیسی  معیاری سڑکیں، غربت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ گلگت بلتستان کو قدرت نے سب کچھ عطا کیا  ہوا  ہے جو ایک ترقی یافتہ ملک میں ہوا کرتے ہیں۔ لیکن نظام کی خرابی، سیاسی عدم استحکام، بیوروکریسی راج اور افسر شاہی، متنازع   حیثیت کے باوجود بین الاقوامی قوانین کی پامالی ،عدم عملدرآمد نے جہاں اس علاقے کو سیاسی، معاشی اور فکری طور پربالکل ہی  مفلوج کرکے رکھا ہوا  ہے وہیں  شاہراہ قراقرم اور شاہراہ بلتستان بھی اب عوام اور سیاحوں کیلئے پہلے سے کہیں ز یادہ عذاب اور خطرناک بن گیا ہے۔

یوں تو دعویٰ کیا جاتا ہے کہ شاہراہ قراقرم کی مثال نہیں، شاہراہ بلتستان افتتاح کے بعد عوام کیلئے خوشیاں لیکر آئی  ہے، سفری سہولیات میں آسانی پیدا ہونے کے ساتھ گلگت بلتستان کا پاکستان کیلئے سفر کا دورانیہ بھی پہلے سے بہت کم ہوگیا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں شاہراہوں  کی طرز تعمیر اور نگرانی کے طریقے کار پر معاشرے میں مسلسل سوال اُٹھ رہا ہے اور بدقسمی سے سوال اٹھانے اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے والوں کو قانون کا ناجائز اُٹھاتے ہوئے طاقت کے بل بوتے پر زدوکوب کیا جاتا ہے۔یہ بات بھی تلخ حقیقت ہے کہ شاہراہ بلتستان کو عالمی معیار اور نقشے کے مطابق بنانے کے بجائے ایف ڈبیلو او نے اپنی مرضی سے بنایا ، پہاڑوں کو توڑنے کیلئے جدید سائنسی طریقہ اپنانے کے بجائے بلاسٹنگ کا طریقہ اپنایا جس کی وجہ سے پہاڑوں کی بنیادیں ہل چُکی ہے اور معمولی بارش سے بھی سرک کر نیچے آجاتی ہیں ۔

یہی وجہ ہے  کہ شاہراہ بلتستان آج افتتاح کے فورا ً بعد ہی ایسی  لگتی  ہے کہ اس شاہراہ کوخراب کرکے  ہی بنایا ہے۔نئی تعمیرہوئی   سڑک معمولی بارش کے بعد ملیامیٹ ہوجاتی ہے،  خطرناک موڑ آج بھی نئے آنے والوں کیلئے موت کے کنواں کا منظر پیش کررہا ہے۔المیہ ہے کہ خطرناک موڑوں پر کِسی  قسم کا اشارہ یا دور سے نظر آنے والا آئینہ لگایا ہوا ہے نہ دریا کی طرف کسی قسم کا سیف گارڈ نظر آتا ہے ۔گلگت بلتستان میں ایک طرف سیاحت کے  فروغ کیلئے سہولیات فراہم کرنے کے حکومتی بلند و  بانگ دعوے  اور دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ ان دو اہم شاہراہوں پر نئے آنے والوں کیلئے کسی قسم کی  احتیاطی تدابیر کے بورڈ تک نصب نہیں جوکہ اہم شاہراہوں پر حادثات سے بچنے کیلئے ضروری ہوتے  ہیں ۔

اسی طرح دونوں اہم شاہراہ پر کسی قسم کا ایمرجنسی سنٹر نظر آتا ہے اور نہ ہی موبائل سنگل کیلئے ٹاور زلگے ہوئے ہیں۔پہاڑی تودہ گرنا شاہراہ بلتستان پر معمول کی بات ہے جس  کی اصل وجہ جیسے اوپر لکھاکہ غیر ضروری بلاسٹنگ اور ٹنل نقشے میں ہونے کے باوجود نہ بنانا ہے۔ یوں شاہراہ بلتستان کا تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد پہلے سے زیادہ خطرناک شاہراہ بن گئی  ہے جو مسلسل انسانی  جانوں کو نگل رہا  ہے، لیکن ذمہ دار کون ہے، کسی کو معلوم نہیں ۔

بلتستان سے تعلق رکھنے والے  ایک سابق اہم سرکاری عہدیدار سے دوران سفر ملاقات ہوئی اور اُنکا کہنا تھا کہ یہ بلتستان والوں کی بدقسمتی ہے کہ  اس سڑک کو نقشے سے ہٹ کر بناتے دیکھ کر بھی کسی نے کچھ نہیں کہا بلکہ ایف ڈبیلو او کے آگے جی اچھا کرتے رہے۔ اُنکا کہنا تھا جو سڑک آج بنی ہے اس سے  پہلے والی  ہی ٹھیک تھی، کم ازکم معمولی بارش پر بھی بند نہیں ہوا کرتی  تھی ۔ یہی حال شاہراہ قراقرم کا بھی ہے۔ حالیہ لینڈسلائڈنگ کے دوران بلتستان سے آتے ہوئے پانچ محرم کو شام کے تقریباً 5 بجے روندو چیک پوسٹ پر بتایا کہ شنھگوس ملہ پہ کے مقام پرلینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے  روڈ بند ہے تمام مسافر جن میں سو سے زائد سیاحوں کی گاڑیاں شامل تھیں ، پولیس کی جانب سے روندو ستک نالہ پر رُک جانے  کو کہا گیا۔رات گئے  ستک روندو سے شنگھوس پہنچا تو دیکھا بارش کی وجہ سے اوپر سے معمولی نوعیت کا ملبہ آیا  ہواہے  اور گاڑیوں کی طویل قطار لگی ہوئی ہے۔ اس مقام سے چند مسافت کی دوری پر ایف ڈبلیو او کا کیمپ نظر آرہا تھا، لیکن انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ موقع پر موجود رہیں، پس لوکل مسافر  جو بسوں میں سوار تھے،نے اپنی مدد آپ کے تحت پہلے سیاحوں کی سو سے زائد چھوٹی گاڑیوں کوپار کروایا۔ لیکن بسیں اور ٹرکوں کیلئے سڑک تنگ ہونے کی وجہ سے نکلنا مشکل ہوگیا اور بڑی مشکل سے رات بارہ بجے ان کو احساس ہوا کہ لوگ پھنسے ہوئے ہیں اور اُنہوں نے ملبہ ہٹا کر بڑی گاڑیوں کیلئے راستہ صاف کیا۔

اس سے اندازہ لگائیں کہ بلتستان میں سیاحت کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے کیا وہ تمام لوگ جو ہزاروں کی تعداد میں پھنس گئے  تھے،مزید سیاحت کی غرض سے آنے کی ہمت کریں  گے؟

بالکل نہیں! بلکہ اکثر سیاحوں کا یہی کہنا تھا کہ اس خوبصورت علاقے میں سہولیات کا شدید فقدان ہے آئندہ جان پر کھیل کر کبھی یہاں نہیں آئیں گے۔ اسی طرح  تتہ پانی اور سسی کے مقام پر بھی یہی صورت حال تھی  ،معمولی بارش کے بعد ملبہ آنے سے کئی مقامات پر روڈ بند تھے اور ایف ڈبلیو او نے بجائے دونوں اطراف کے راستے خالی کرنے کے صرف ایک گاڑی گزارنے کا راستہ بنایا ہوا تھا جس کی وجہ سے آنے جانے والے ہزاروں کی تعداد میں سیاح تتہ پانی سے گورنر فارم تک دونوں اطراف میں بُری طرح پھنسے  ہوئے  تھے۔ لیکن اس پوری پٹی پر نہ کوئی سکیورٹی اہلکار نظر آیا نہ ایف ڈبلیو او والے۔ یہاں بھی جب راقم نے سیاحوں سے پوچھا تو یہی شکوہ تھا کہ اس خوبصورت علاقے کی سڑکوں کو قبرستان بنایا ہوا ہے،شاہراہوں پر  انٹرنیٹ تو بہت دور  کی بات موبائل ٹاور تک نہیں لگے ہوئے ہیں اور  کوئی پُرسان حال نہیں۔ یعنی سیاحت کے موسم میں ایف ڈبلیو او کی نااہلی کے سبب سیاحت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہےاور عوامی نمائندوں کو لوٹا کریسی اور عہدوں کیلئے چاپلوسیوں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچے سے فرصت نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دونوں اہم شاہراہوں کی دیکھ بھال کیلئے گلگت بلتستان کی سطح پرخصوصی ادارہ قائم کریں یا براہ راست این ایچ اے کے سپرد کریں کیونکہ پاکستان میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی نگرانی  اور قومی پالیسیاں نیشنل ہائی وے کونسل طے کرتی ہے اور یہی کونسل نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا نگران ادارہ بھی ہے۔ این ایچ اے کے قیام کے قریب ایک عشرے بعد تک نیشنل ہائی وے کونسل کی صدارت وزیر اعظم کے پاس تھی، جو2001ء  میں قانونی ترامیم کے بعد وفاقی وزیر مواصلات کو منتقل کر دی گئی۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا چیئرمین نیشنل ہائی وے کونسل کا رکن بھی ہوتا ہے۔ اگر ایف ڈبیلو او کے رحم کرم پر چھوڑ کے رکھا تو گلگت بلتستان سیاحت کا کوئی مستقبل نہیں لوکل عوام کو درپیش مسائل کی نہ اسلام آباد کے نزدیک کوئی اہمیت ہے نہ عوام کی کوئی حیثیت۔ کیونکہ صاف نظر آتا ہے کہ ایف ڈبیلو او کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اُن کی نااہلی کے سبب گلگت بلتستان کے عوام اور یہاں سیاحت جس کے یہاں کے عوام کی معیشت جڑی ہوئی ہے ، کو کس قدر نقصان ہو رہا ہے۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply