ٹی وی سے عوام کی دوری کیوں/چوہدری عامر عباس

مجھے آج بھی انٹینے والا ٹی وی یاد ہے جب ہر گھر کی چھت پر لگے انٹینا کی موجودگی اس گھر میں ٹی وی ہونے کی نشاندہی کرتا تھا. رات کو آٹھ بجے والا ڈرامہ بڑی باقاعدگی سے دیکھتے تھے. ولگر اور لٗچر پن کے بغیر اس قدر صاف ستھرے اور سبق آموز ڈرامے ہوا کرتے تھے کہ پوری فیملی اکٹھے بیٹھ کر بآسانی دیکھ سکتے تھے. نو بجے ورسٹائل نیوز اینکر عشرت فاطمہ والا خبرنامہ میرے والد صاحب لازمی سنتے تھے اور ہمیں شائستہ زید کی انگریزی خبریں دیکھنے کی سختی سے تاکید کیا کرتے تھے، شائستہ زید کیا کمال روانی اور واقعی اسم بامسمم “شائستگی” سے انگریزی بولتی تھیں.
دو روز پہلے گیلپ سروے کی رپورٹ شئیر کی گئی کہ گزشتہ چند روز کے دوران 57 فیصد پاکستانی عوام نے سرے سے ٹی وی دیکھا ہی نہیں. میں نے اپنے بارے میں سوچا تو واقعی پری زاد ڈرامہ کے علاوہ میں نے پچھلے ایک سال کے دوران ٹی وی دیکھا ہی نہیں ہے. کالم لکھنے کیلئے گوگل یا یوٹیوب سے مدد لیتا ہوں. کرنٹ افیئرز پروگرام میں تو دیکھتا ہی نہیں ہوں کیونکہ مجھے تو اکثر وہاں سے گمراہ کن مواد ملتا ہے آپ کا تجربہ مجھ سے مختلف ہو سکتا ہے.
میں اس شش و پنج میں تھا کہ لوگ کیوں ٹی وی سے باغی ہو گئے ہیں یہی وجہ تھی کہ کل پرائم ٹائم میں نیوز چینلز کے ٹاک شوز باری باری دیکھے. ستر فیصد ٹاک شوز کا موضوع تھا “پاکستان کا اگلا آرمی چیف کون ہو گا”. عوام اسی وجہ سے مین سٹریم میڈیا سے دور ہو گئی کہ یہ چینلز پر پروگرام کرنے والے اکثر اینکرز اپنے ایجنڈے لے کر بیٹھتے ہیں. اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو مجھے اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ اگلے پانچ سالوں میں کئی چینلز بند ہو جائیں گے کیونکہ ویوررشپ ہو گی تو اشتہار ملینگے اور اگر اشتہار ملینگے تو اسکی آمدن سے چینل چلے گا.
عوام کا اصل مسئلہ مہنگائی ہے، کساد بازاری ہے، دو وقت کی روٹی ہے، تعلیم ہے، صحت ہے ،لا اینڈ آرڈر ہے جس پر ان پروگراموں میں بہت کم بات ہوتی ہے. کیا کسی نے کبھی یہ بات کی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولیات کا کیا حال ہے، کیا کسی نے کبھی یہ بات کی کہ ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض داخل ہوتے ہی وہاں ڈاکٹرز علاج کیسے کرتے ہیں، کیا کسی نے یہ بات کی کہ چلڈرن ہسپتال میں ایک ایک بیڈ پر چار چار پانچ پانچ بچے داخل ہیں، کیا کسی نے یہ بات کی کہ دل کے مریض بچوں کو آپریشن کیلئے تین سال بعد کا وقت دیا جاتا ہے تب تک وہ بچہ اللہ کو پیارا ہو چکا ہوتا ہے. کیا کسی نے تعلیم کے موضوع پر بھی کبھی سیاسی موضوعات کی طرح پے در پے پروگرام کئے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کے نظام کا کیا حال ہوا پڑا ہے، کیا کسی نے کبھی یہ بات کی ہے کہ تعلیم کیلئے مختص کیا گیا بجٹ شرمناک حد تک کم ہے، تعلیم کے میدان میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں، کیا کسی نے ہماری یونیورسٹیوں کی تعلیم پر بات کی کہ چند یونیورسٹیوں کے علاوہ باقی تمام یونیورسٹیاں لاکھوں روپے فیسیں لے کر ڈگریوں کے نام پر کاغذ کے ٹکڑے بچوں کو تھما رہی ہیں نتیجتاً ڈگری مکمل کرنے کے بعد بچے نوکری کیلئے در بدر ملازمتوں کیلئے پھرتے ہیں مگر انھیں جاب پھر بھی نہیں ملتی جس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ پاکستان میں جاب مارکیٹ ویسے بھی کم ہے دوسری سب سے بڑی وجہ ڈگری ہونے کے باوجود بچے کو اپنی ڈگری کے متعلقہ مضمون میں بھی “ککھ” نالج نہیں ہوتا آپکو بالکل کورے نظر آئیں گے. یہ اصل مسائل ہیں جن پر بات ہونی چاہیئے مگر کبھی ہوتی ہی نہیں اور اگر ہوتی بھی ہے تو نہ ہونے کے برابر. لہٰذا نان ایشوز پر اگر لمبے لمبے ٹاک شوز ہونگے تو یہی کچھ ہو گا.

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply