دیس پردیس۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا میں ہر انسان پردیسی اور مسافر ہے ۔ یہ اس کا اصلی وطن نہیں ہے بلکہ اصلی گھر آسمان ہے ۔جہاں نہ  رونا اور نہ  دانت پیسنا ہے،بلکہ وہاں امن اور شادمانی ہے ۔ یہ دنیا ہمارا عارضی ٹھکانا ہے جہاں انسان  مہمان بن کر آتا ہے اور پھر اپنی زندگی کا سفر مکمل کرکے جہان فانی کو خیرباد کہہ دیتا ہے ۔ یہ دنیا کسی کی جاگیر نہیں ہے اور نہ  کسی کا مستقل ٹھکانہ ۔

انسان زندگی کے اس مختصر عرصے میں بہت کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔البتہ یہاں وقت کسی کو اجازت دیتا اور کسی سے حق چھین لیتا ہے ۔کیونکہ یہ دنیا ہے یہاں انسان کو دونوں صورتوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے ۔ کبھی زندگی اس کے لیے قسمت کا دروازہ کھول دیتی ہے اور کبھی اس کے مقدر کو تالا لگا دیتی ہے ۔اس ضمن میں اگر کوئی چیز ہمارے ہاتھ آتی ہے تو وہ وراثت میں پچھتاوا ہے جس میں مایوسی اور تاریکی کے عناصر شامل ہوتے ہیں ۔

اگر عصری تقاضوں میں انسان کی نفسیات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی نفسیات کے ساتھ خواہشات کے باٹ نتھی ہوتے ہیں۔جس کے پلڑے اپنے وصف و وزن کے ساتھ جھکتے اور اٹھتے ہیں ۔یہ فطری بات ہے کہ انسان کی نفسیات اسے مسلسل کچھ نا کچھ کرنے پر اکساتی رہتی ہے ۔البتہ خواہشات کا جنگل بڑا گھنا ہوتا ہے اس میں سفر کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا بعض اوقات ہم اسے آسان سمجھ لیتے ہیں ۔

اس امر کے باوجود بھی انسان اپنے اندر خواہشات کی دھونی جلائے رکھتا ہے ۔خواہشات اس کے اندر سلگتے ہوئے کوئلے کی مانند جل رہی ہوتی ہیں ۔وہ ان کے احترام اور تجسس میں انہیں پورا کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔یوں سمجھ لیجئے یہ زندگی میں نہ رکنے والے جذبات کا قافلہ ہوتا ہے جو مسلسل حرکت پذیر رہتا ہے ۔ہمارے وجود میں جذبات کی شجرکاری کا بھی عجیب موسم ہے ۔کبھی یہ رات کے پہروں میں خاموشی کے عالم میں بڑھ کر اپنا راستہ ہموار بناتے ہیں اور کبھی دن کے اجالوں میں ۔

ان کی حالت ٹھوس ،مائع اور گیس جیسی ہوتی ہے جو مادہ کی تینوں حالتوں کا روپ اوڑھتے ہیں ۔یعنی یہ قسمت کے تین روپ ہیں جنہیں عزت حیات اور دولت کے پَر لگتے ہیں ۔

انسان کے اندر حاصلات کی جنگ ہے ۔وہ اپنے وقت اور حالات کے مطابق لڑنے کی تیاری کرتا ہے ۔کبھی اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے اور کبھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔بے شک میدان سب کے لئے یکساں ہوتا ہے ۔کوئی اس میں جیت جاتا ہے اور کوئی شکست کھا جاتا ہے ۔البتہ اس کے اندر ایک قوت جو اسے سر گرم رکھتی ہے وہ کامیابی  کا پھٹتا لاوا ہے جو کسی وقت بھی پھوٹ کر باہر آ سکتا ہے ۔

آج کا انسان اپنی پشتوں کی تحسین کے لیے بہت کارنامے سر انجام دینا چاہتا ہے ۔لیکن ایسا ہر انسان نہیں کر سکتا بلکہ ایسی سعادت چند خوش نصیبوں کو ودیعت ہوتی ہے جو اپنی زندگی میں خوابوں کی تعبیر دیکھتے ہیں ۔عموما ًایسے لوگ دو صفات کے مالک ہوتے ہیں ۔پہلی بات ان پر قدرت مہربان ہوتی ہے اور دوسری بات وہ مضبوط قوت ارادی کے مالک ہوتے ہیں جو انہیں مسلسل آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں ۔

یہ ایک فطری جذبہ ہے کہ ہر انسان کے اندر کامیابی کا بھی ایک تجسس ہے جو مسلسل انگڑائیاں لیتا رہتا ہے ۔بلاشبہ عزت حیات اور دولت اس کی بخشش کے عظیم تحائف ہیں ۔جنہیں وہ بڑی فیاضی کے ساتھ بانٹتا ہے ۔بعض اوقات زندگی میں ایسی صورتحال سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے جب توقعات کا بڑا اژدہا ہماری شخصیت کو نگل جاتا ہے ۔
ہم وقت سے پہلے ناکامی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں جو ہمیں مزید احساس کمتری کے مرض میں مبتلا کر دیتی ہے ۔

یہ قانون قدرت ہے کہ انسان دنیا کے جس خطے میں پیدا ہوگیا وہ اسی ملک کے قوانین ، رسم و رواج، عادات و اطوار کا پیروکار ہوتا ہے ۔وہ اسی ماحول اور ثقافت کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارے گا ۔

اگر اس بات کو روحانی آنکھ سے دیکھا جائے تو خدا نے انسان کے ساتھ دو گھروں کا وعدہ کیا ہے ۔اس کا پہلا گھر دنیا ہے جبکہ دوسرا گھر آسمانی ہے ،جس کی خواہش ہر انسان اپنے ایمان کی بدولت رکھتا ہے ۔ اگرچہ یہ دنیا ہمارا عارضی گھر ہے جس میں سات یا آٹھ دہائیوں کا مسافرانہ دور شامل ہے ۔اس ضمن میں حقائق ہماری درست رہنمائی کرتے ہیں کہ ہماری مسافت زمینی گھر سے آسمانی گھر تک ہے ۔انسان دنیا میں رہتے ہوئے اپنے گھر کو بناتا سنوارتا اور اسے اپنے خوابوں کی تعبیر بناتا ہے ۔اپنی زندگی کو اپنے ماحول اور معاشرے کے مطابق ڈالتا ہے ۔اپنی اقدار و روایات کی روشنی میں خوشیوں اور محبتوں کو آباد کرتا ہے۔

ان ساری باتوں کو سوچنے کے بعد میں دیس پردیس کی راہ میں گم ہوگیا ۔اچانک میری روح دو طاقتوں کے درمیان جکڑ جاتی ہے ۔ایک طاقت مجھے زمینی گھر کی لذت و تحسین پر اکساتی ہے جبکہ دوسری طاقت مجھے اپنا روحانی گھر تعمیر کرنے پر زور دیتی ہے ۔میری کشتی دریا کی گہرائی میں جا کر رک جاتی ہے ۔اب میں آزمائش کے دلدل میں پھنس جاتا ہوں ۔نہ  میں آگے سفر کر سکتا ہوں اور نہ
پیچھے ،میری آنکھوں میں غم و خوف کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔میں اوندھے منہ گر پڑتا ہوں ۔میں بے بسی کی حالت میں پڑا اونگھ رہا تھا ۔پھر میں نے اپنی آنکھیں اوپر اٹھائیں مجھے کسی نے سہارا دیا میں نے بہت جلدی اپنا ہوش و حواس سنبھال لیا ۔اب میری زبان پر دعا اور ہاتھ میں انصاف کا عصا تھا ۔

خدا نے میرے ہاتھ میں زمینی اور آسمانی گھر کا چارٹ تھما دیا ۔ میں ان دونوں کی افادیت کا بغور مطالعہ کرتا ہوں ۔مجھے دونوں کی کشش کے الگ الگ باٹ دکھائی دیے ۔
البتہ جس باٹ کا پلڑا بھاری تھا وہ آسمانی گھر تھا ۔

ایک چیز جس نے مجھ پر سکتے کا عالم طاری کر دیا وہ بڑی توجہ خیز تھی جسے دیکھ کر میں ششدر رہ گیا ۔اس چارٹ پر زمینی گھر بنانے کی بابت زیادہ دستخط تھے ۔میں نے اس چارٹ پر لوگوں کی ترجیحات اور حد نگاہ صرف زمینی گھر تک ہی محدود دیکھی  ۔میں ہر روز اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کو اس زمین سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔لوگ خالی ہاتھ واپس جا رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن ان کے جسم زمین بوس ہو جاتے ہیں ۔ان کی روح آسمان کی معطر فضاؤں میں کوچ کر جاتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شاید وہ اس بات سے لا تعلق نظر آتے ہیں کہ ہماری آخری آرام گاہ کونسی ہے ؟ ذرا اس بات پر دل جمعی سے غوروخوض کریں کہ انسان کی ساری شان و شوکت اور مال و دولت اس کے ساتھ سپردخاک نہیں ہوتے صرف اس کا جسد خاکی سپرد خاک ہوتا ہے ۔ وہ بھی خاک ہے اور پھر خاک میں لوٹ جاتا ہے ۔یہ حقائق ہمیں اس بات سے آگاہ کر رہے ہیں کہ ہم زمین پر مسافر و پردیسی ہیں ۔ہم نے بھی باری باری اس جہان فانی سے کوچ کر جانا ہے ۔آئیں تھوڑا سا وقت نکال کر اپنی آخرت پر غوروخوض کریں اور اسے تحفظ کی ضمانت دیں ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply