رودادِ سفر(10) چائینہ:اورمچی کی گھٹن زدہ فضا میں قیام۔۔شاکر ظہیر

رودادِ سفر(10) چائینہ:اورمچی کی گھٹن زدہ فضا میں قیام۔۔شاکر ظہیر/

چائنا کا ویزہ لگوانے کے لیے راولپنڈی میں ایک ٹریول ایجنٹ سے رابطہ کیا اور ویزہ لگوانے کے لیے ڈاکومنٹس اس کے حوالے کر دیے تھے ۔ ڈاکومنٹس بھی کیا ایک بس پاسپورٹ جو اس کے حوالے کیا ۔ ٹریول ایجنٹ نے اٹھارہ ہزار لیے اور دس دن بعد چائنا کا ویزہ لگوا کر پاسپورٹ واپس ہمارے حوالے کر دیا ۔ ایک شیخ صاحب کے ساتھ ، جن کی کالج روڈ راولپنڈی میں ڈیکوریشن کی دوکان تھی ، چائنا جانے کا پروگرام بنایا کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی بزنس کے سلسلے میں چائنا جاتے رہتے تھے ۔ ٹکٹ بھی انہوں نے اپنے ساتھ میرا بھی آٹھ دس دن بعد کا ( China Southern airlines ) کا بک کروایا ، تیاری پکڑی اور بیگ سمیت ائیر پورٹ پہنچ گئے ۔ تیاری بھی کیا تھی بس معلوم تھا کہ تائیوان کے چائنیز کی طرح یہاں بھی چائنیز ہی سے واسطہ پڑے گا ۔ اس لیے اطمینان تھا کہ گم نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ تائیوان میں میرے ایک دوست نے چائینز قول سنایا تھا کہ راستہ تمہاری زبان پر ہے ، جہاں راستہ تمہیں معلوم نہ ہو زبان استعمال کر کے کسی سے پوچھ لو ۔ اسلام آباد کا پرانا ائیرپورٹ جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی بس سٹینڈ ہو ۔ کوئی خاص چیز میرے سامان میں نہیں تھی ، پہننے کےلیے چند کپڑے ہی تھے ۔ اس لیے کسٹم والوں کو مجھ سے مایوسی ہی ہوئی ۔ باقی لوگوں کا سامان جب میرے سامنے کھولا گیا تو اس میں سے خشک دودھ ، چائے کی پتی ، دالیں ، چاول اور مٹھائی وغیرہ جیسے آئٹم برآمد ہو رہے تھے ۔ یہ دیکھ کر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ایسے لگا جیسے میں تو وہاں بھوکا ہی مر جاؤں گا ۔ یا دوسری بات کہ چائنا والے شاید گھاس کھاتے ہیں کہ ہمیں کچھ کھانے کو نہ ملے گا ۔ مجھے ایسی کسی کھانے کی چیز کی ضرورت نہیں تھی میں تائیوان میں چائنیز کھانے کھا چکا تھا اور ان کا ذائقہ شناس تھا ۔ میرے لیے یہ بات کوئی باعث تشویش نہیں تھی کہ کھانے کا کیا ہوگا ۔
امیگریشن سے فراغت کے بعد جہاز میں سوار ہوئے تو ایسے لگا کہ یہ جہاز نہیں بلکہ راولپنڈی سے پشاور جانے والی بس ہو ۔ ایک چھوٹا جہاز تھا جس کی سیٹوں کے درمیان بس مشکل سے آپ فٹ ہی آتے تھے ۔ جہاز کی سیٹوں کی سیٹنگ شاید چائنیز نے اپنے چھوٹی اور سلم جسامت کے لحاظ سے کی تھی ۔ ہمیں تو بس اس میں پیک کر کے ارومچی پہنچانا تھا ۔ جہاز کے ٹیک آف کرنے کے بعد زیادہ لوگ خالی سیٹوں پر ادھر ادھر لیٹ گئے یا اٹھ کر دوسری سیٹوں پر بیٹھے لوگوں سے کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے جس کےلیے ائیر ہوسٹس کو کئی مرتبہ انہیں متوجہ کرنا پڑا ۔ لوگ بھی ہاں ہوں کر کے وہیں کھڑے رہتے ۔ جہاز میں بہت بڑی تعداد پشتو بولنے والوں کی تھی جو عرصہ دراز سے چائنا آ جا رہے تھے ۔ اڑھائی گھنٹے کی فلائٹ کے بعد جہاز ارومچی ائیرپورٹ پر اتر گیا ۔
جہاز کے اترتے سے پہلے ہی لوگ اپنے سامان کو سیٹوں کے اوپر بنے ریک سے ڈھونڈنے لگ گئے ۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ اترنے سے پہلے ہی کھڑکی سے چھلانگ لگا دیں گے ۔ اور ائیر ہوسٹس بار بار انہیں پکڑ کر بیٹھا رہی تھی کہ خدا لیے بیٹھ کر سیٹ بیلٹ بند لو ۔ پھر جب جہاز اتر تو یہ افراتفری اور بھی ایسے بڑھ گئی کہ شاید آگے حلوہ بانٹا جا رہا ہے لوگ زیادہ ہیں شاید ہمیں نہ ملے سکے ۔ جب جہاز سے اترے تو بھی یہی حالت تھی کہ بھاگ رہے ہیں کہ شاید امیگریشن والے بہت محدود لوگوں کو انٹری دیں گے پہلے آئیے پہلے پائیے والی بات ہے ۔ کاوئنڑ پر لائن لائنیں لگیں تو امیگریشن والے لائن سیدھی بھی کر رہے تھے اور ساتھ کہتے بھی جاتے کہ پاسپورٹ اور کلیم کارڈ فل ہوا کہ آپ کے سامان میں کوئی قابل کسٹم چیز نہیں ، اپنے پاسپورٹ کے ساتھ رکھیں یہ کاؤنٹر پر جمع کروانی ہے ۔ زیادہ تر لوگ لکھنے پڑھنے سے عاری ہی تھے اس لیے پڑھا لکھے شخص ہی دوسروں کو کارڈ فل کر کے دے رہا تھے ۔ یہ تعامل ، صبر ، برداشت ، اطمینان ، خوش اخلاقی ، دوسروں کا خیال رکھنا یہ ساری باتیں جو بنیادی انسانی اخلاقیات ہیں اور ہمارے مذہب نے اس کی بہت تلقین کی ہے ، یہ ہم نے بھلا ہی دی ہیں ۔ اور یہ وہ پہلا تاثر ہوتا ہے جو کسی دیار غیر میں لوگ آپ سے لیتے ہیں اور اسی پہلے تاثر پر آپ سے معاملات کرتے ہیں ۔
یہ ائیرپورٹ ہمارے اسلام آباد ائیرپورٹ سے بہت بہتر ہے ۔ لیکن چائنیز کے حوالے سے جو تاثر میں تائیوان سے لے کر آیا تھا ، اس کے مقابلے میں ان لوگوں کا لب و لہجہ اورحرکات و سکنات بالکل ہی مختلف تھیں ۔ تائیوان والے چائینیز پہلی ملاقات میں ہی بہت مہذب ، پڑھے لکھے اورانسانیت کی قدر کرنے والے محسوس ہوتے تھے جبکہ یہاں کی صورتحال مختلف لگ رہی تھی ، ان کے دیکھنے ، بات کرنے کا انداز بھی ان سے الگ ہی تھا ۔ ان کے لب و لہجے میں بھی تلخی اور سختی صاف محسوس ہوتی تھی ۔ ہر معاملے میں بہت محتاط دکھائی دیتے تھے ۔ امیگریشن والوں کا رویہ بھی بہت عجیب سا تھا ۔ وہ خوش دلی جو کسی مہمان کے آپ کے پاس ہوتی ہے کہ میزبان کے بارے میں اچھا تاثر قائم کرے کہ سب سے پہلے اسے ہم ہی سے واسطہ پڑا ہے ، وہ مجھے کہیں نظر نہیں آئی ۔ یعنی پہلا امپریشن ( impression ) ہی کچھ عجیب سا تھا ۔ بلکہ کچھ کا رویہ تو بالکل روبوٹ کی طرح کا تھا ۔ خیر امیگریشن سے فارغ ہوکر ہم نے ٹیکسی لی اور ایک ہوٹل میں آ گئے ۔
ارومچی شہر سنکیانگ ( Xinjiang Uyghur Autonomous Region ) کا درالخلافہ ہے ۔ یہ ریجن رقبے کےاعتبار سے پورے چائنا کا چھٹا حصہ ہے اور یہاں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے ۔ یہاں کی سردیاں بہت شدید ہوتی ہیں ۔ شہر بہت خوبصورت اور صاف ستھرا ہے اور مساجد بھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ یہ مساجد زیادہ تر ترکش طرز تعمیر پر بنی ہوئی ہیں ۔ یہاں ارغور ، تاجک ، ازبک ، قازق اور چائینز نسل کے مسلمان ” جو ہوئ ( Hui ) کہلاتے ہیں ” آباد ہیں ۔ یہ شہر پرانے سلک روٹ پر ہے ۔ پھلوں کی بہتات ہے اور ہر جگہ آپ کو نان ، سیخ کباب اور گوشت والے چاول مل جائیں گے ۔ بہت خوبصورت ارغور لڑکیاں بھی نظر آ جائیں گی جنہوں نے سکارف پہنے ہوں گے اور قازق عورتیں جنہوں نے سکارف پہنے ہوں گے اور نیچے گھٹنوں تک سکرٹ ۔ ہر ایک کے سکارف کا سٹائل مختلف ۔ اس علاقے کے مسلمان بھی ہماری ہی طرح ہیں کہ کھانے کو کچھ ہو یا نہ ہو کپڑے جوتے بہترین ہونے چاہیں ۔ یوں سمجھ لیں یہ علاقہ نسلی طور پر ، کلچر ، زبان مذہب کے لحاظ سے بہت مکس ہے ۔ پرانی آبادیاں بھی ایک ایک نسل کی علیحدہ قائم تھیں ۔ لیکن نئی آبادیوں میں جسے جو پسند آئی وہیں مکان لے لیا ۔ اریغور ترک نسل کے مسلمان زیادہ تر پرانی آبادیوں میں رہتے ہیں اور نان یا سیخ کباب کی ریڑھی لگاتے دیکھے گئے ۔ ان کے مزاج اور لہجے کرخت اس کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آئی یا شاید یہ ان کی نیچر ہے ۔ بڑے کاروبار زیادہ تر چائنیز کے پاس ہیں جو اندرون چائنا سے یہاں آ کر آباد ہوئے ۔ کچھ خاص دوکانیں ہیں جہاں سے ڈالر بھی تبدیل کرے جا سکتے ہیں ۔ وہ کوئی باقاعدہ منی چینجر نہیں ہیں بس چھوٹا سا کریانہ سٹور ہی ہے جو ڈالر تبدیل کرتے ہیں ۔ دوکانوں میں حفاظتی گرل بھی لگے تھے ۔ ارومچی میں صرف ہم پاکستانی افغانی ہی نہیں بلکہ اس وقت تک ازبک ، تاجک اور وسطی ایشیا کے لوگ بھی کاروبار کےلیے آتے تھے ۔ ان کے اپنے موسم کے مطابق ایک بڑی ہول سیل مارکیٹ بھی ہے جہاں سے وہ خریداری کرکے بذریعہ روڈ اپنا سامان بھیجتے ہیں ۔ یوں سمجھ لیں ارومچی مرکز بنتا ہے سنٹرل ایشیا کی تجارت کےلیے ۔
شام کو ایک صاحب جو ہمارے علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور ارومچی سے پاکستان کےلیے سامان کیری کرنے کا کام کرتے تھے ہم ان کے پاس اپنے ساتھیوں کے ساتھ گئے ، ان سے گپ شپ ہوئی ، وہ شام کے کھانے کےلیے اپنے ارومچی کے چائنیز پارٹنر کے ساتھ ہمیں ایک ازبک یا شاید قازق مسلمان ہوٹل میں لے گئے ۔ یہ ایک بہت شاندار اور بڑا ہوٹل تھا ۔ انہوں نے باقی دوستوں کو بھی مدعو کر لیا ۔ یوں وہاں دس لوگ جمع ہو گئے ۔ طرح طرح کے کھانے میز پر پڑے تھے ۔ جب سب کھا چکے تو قہوہ آیا اور اس چائنیز نے مجھ سے کھانے کے متعلق پوچھا کہ کیسا تھا ۔ میں نے ایک ڈش کی طرف اشارہ کر کے اس سے پوچھا کہ یہ کس جانور کا گوشت ہے ۔ اس نے بتایا کہ گھوڑے کا ، میرا منہ کھلا رہ گیا ، اس نے ساتھ ہی کہا کہ یہ حلال ہے ناں ؟ وہاں میں اس کو اور کیا جواب دیتا ۔۔ یہی کہا کہ حلال ہے یا نہیں ، تم تو ہمیں بتائے بغیر کھلا ہی چکے ہو ۔
میں نے ریسٹورنٹ کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لیا تو کیش کاؤنٹر کی پچھلی دیوار پر الطعام المسلمین عربی میں لکھا ہوا تھا اور ویٹر بھی ترک نسل کے چائنیز ہی شکل سے لگتے تھے اور انہوں نے جناح کیپ طرز کی کالے رنگ کی چھوٹی ٹوپیاں بھی پہنی ہوئی تھیں ، بلکہ ایک نے تو باقاعدہ السلام علیکم بھی کہا تھا ۔ باہر ریسٹورنٹ کے میں بڑے بورڈ پر الطعام المسلمین لکھا ہوا تھا اور مسجد کی تصویر بھی موجود تھی ۔
ٹیکسی میں بیٹھ کر ہم واپس ہوٹل آ گئے ۔ بستر پر لیٹتے ہی میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ گھوڑا حلال ہے کہ نہیں ؟ ہم بھی مسلمان وہ بھی مسلمان ہم اس سے کراہت محسوس کرتے ہیں بلکہ اگر پاکستان میں کسی سے گھوڑے کے متعلق سوال کیا جائے تو فوراً کہے گا یہ حرام ہے ۔ لیکن یہاں چائنا میں ان کےلیے پسندیدہ اور حلال ۔ لیکن کیسے؟ ان کا دین بھی وہی، ہمارا بھی وہی، پھر اس ایک ہی دین کے ماننے والے ایک علاقے میں ایک جانورکے گوشت کو حرام جبکہ دوسری جگہ نہ صرف حلال بلکہ پسندیدہ ۔ ایسا کیوں ہے؟ اسلام میں کھانے پینے کی چیزوں میں حلال و حرام کے اصول کیا ہیں ؟ یہ بہت بڑا سوال تھا جو میرے ذہن میں پیدا ہوا ۔ اگر کسی غیر مسلم کی بات ہوتی تو بہت کچھ کہا جا سکتا تھا ۔ یہاں تو ایک ہی جانور کو حلال اور حرام سمجھنے والے دونوں ہی مسلمان ۔ پھر دین کا اصل حکم کیا ہے ؟
دو دن اورمچی شہر میں قیام کے بعد ہم جہاز پر سوار ہو کر ہان ذو ( Hangzhou ) شہر کی طرف چل پڑے ۔ اورمچی شہر کچھ لوگوں کو بہت پسند ہے لیکن میرے اس کے متعلق تاثرات اچھے نہیں تھے ۔ مجھے وہاں عجیب سی گھٹن کا احساس ہوا ۔ شہر کی فضا صاف نہیں تھی ، بلکہ بھاری بھاری محسوس ہوتی تھی ۔ بعد میں پوچھنے پر معلوم ہوا کہ شہر کے مکانوں کو گرم رکھنے کےلیے کوئلے کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاؤہ بھی وہاں کا ماحول عجیب سا تھا۔ لوگوں کے لب و لہجے میں اعتماد محسوس نہیں ہوتا تھا، چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم دونوں ہی کی حالت ایک جیسی تھی ۔ پاکستان جو کئی سال پہلے چائنا بذریعہ شایراہ قراقرم چائنا آئے وہ اسی ریجن کے علاقے کاشغر تک آتے تھے ۔ وہیں سے کچھ سامان لیا دیا اور واپس ہو گئے پھر کچھ نے ہمت کی اور اورمچی ( Urumchi ) شہر تک ا گئے ۔ کئی پاکستانیوں نے یہاں شادیاں بھی کی ہوئی ہیں ۔ اور کئی مختلف علاقوں میں چھوٹی موٹی دوکانیں بھی بنائے ہوئے ہیں اور یہ دوکانیں زیادہ تر اریغور مسلمانوں کے مزاج کے مطابق ہیں یعنی جانماز ، پرفیوم ، جیولری ، مہندی ، کاسمیٹکس ، مسواک اور پاکستانی ڈریسز وغیرہ ۔ کئی لوگوں نے بتایا کہ شروع شروع میں ان کی آمد پر حکومت کا رویہ بہت دوستانہ تھا ۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا کچھ ہمارے اعمال سامنے اتے گئے اور کچھ چائنا حکومت کی پالیسیز تبدیل ہوئیں ۔
ہماری ہان ذو ( Hangzhou ) کی فلائیٹ تقریباً پانچ گھنٹے کی تھی جس میں ایک جگہ آدھے گھنٹے کا قیام تھا جو gansu صوبے کے Lanzhou ائیرپورٹ پر تھا ۔ کچھ مسافر اترے ،کچھ سوار ہوئے اور جہاز ہان ذو ( Hangzhou ) کی طرف چل پڑا ۔ ہان ذو ( hangzhou ) ائیر پورٹ سے ٹیکسی کی اور ایوو ( yiwu ) شہر کے hanglou ہوٹل آگئے ۔ ٹیکسی والے ائیرپورٹ پر جب پاکستانی یا افغانی دیکھتے تو انہیں بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ کہاں جانا ہے ۔ پاکستانیوں اور افغانیوں کے جانے کی دو ہی جگہیں تھیں ایک ایوو ( yiwu ) شہر میں ہانگ لو ( hang lou ) ہوٹل اور دوسرا کھچاؤ شہر جہاں کپڑے کا کاروبار ہوتا تھا ۔ ٹیکسی والے ان کے پسندیدہ ہوٹل بھی جانتے تھے اور کچھ اردو الفاظ بھی بول لیتے تھے ۔ چار چار سواریاں اکٹھی کرتے اور روانہ ہو جاتے ۔ ہوٹل رات دیر سے پہنچے ، اس لیے آرام سے سو گئے کہ صبح دیکھیں گے شہر کیسا اور کیا ہے ۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply