لوٹ کے آؤں گا/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے
الماآتا معانی کی رو سے تو “سیب کا باپ” سہی لیکن حقیقی طور پر گلابوں کا شہر تھا۔ ہر طرف گلاب تھے، خاص طور پر ایک باغ میں تو ہر نوع کے گلاب کے پھول تھے اور دلچسپ بات یہ کہ تھے بھی مہک دار۔

 

 

 

بالعموم قلمی گلاب مہک نہیں دیتے لیکن یہاں کی فضا کا اثر تھا یا آب و ہوا کی تاثیر کہ گلاب کے ہر پھول میں سے اگر کافی نہ سہی تو بھینی بھینی مہک ضرور آتی تھی۔ یہاں کی لڑکیوں کو میں نے روسی زبان میں “کروگلے دیووشکی” کا نام دیا تھا یعنی “مدوّر لڑکیاں”۔ چین کی نزدیکی کے باعث یا نسلیات کی کسی خصوصیت کے سبب یہاں کے لوگوں کے چہرے گول، آنکھیں ترچھی مگر چھوٹی نہیں، جسم کچھ بھرے بھرے اور ٹانگیں دھڑ کی نسبت چھوٹی ہیں۔ گول گول چہروں اور گلابی گالوں والی زردی مائل سفید جلد کی حامل جوان لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔ البتہ شولپان کی ٹانگیں اس کے دھڑ کی مناسبت سے خاصی لمبی تھیں۔ اس کے والد آغا موعود بھی خوبصورت اور شفیق شخص تھے جو ایک طویل عرصہ سوویت بحریہ میں انجنیئر رہے تھے۔ باتیں روس کے صدر یلسن کی طرح زور دے کر کرتے تھے مگر تھے خاصے شفیق۔ شولپان کی ماں سااولیا تیز تیز لہجے میں بات کرنے والی خالصتاً  کزاخ شکل و صورت کی خاتون تھیں جن کی آنکھوں سے دوسرے کے لیے ہر وقت شک مترشح ہوتا تھا۔ وہ کھانے پینے میں بھی صفائی کا کوئی خاص دھیان نہیں رکھتی تھیں چنانچہ میں محتاط رہا تھا کہ ان کے ہاتھ کا بنا کچھ نہ کھاؤں۔ شولپان کی چھوٹی بہن ایمان مصورہ تھی۔ ڈری ڈری، چینی گڑیا کی سی نازک سی جس کے چہرے پر مہاسے تھے۔

شولپان کی بڑی خواہش تھی کہ مجھ سے بچہ پیدا کرے۔ مجھے شولپان سے پیار نہیں تھا البتہ وہ مجھے اچھے انسان اور دوست کی حیثیت سے اچھی ضرور لگتی تھی۔ اس کی کمر کا خم عام خواتین کے خم کی نسبت کم تھا اور اس کے سرین لڑکے کے سرینوں سے مماثل تھے یعنی عورتوں کی طرح بھرے بھرے نہیں تھے اسی لیے میں اسے “او مائی بوائے” کہتا تھا۔ مگر لگتا یہی تھا کہ شولپان کو مجھ سے پیار ہو گیا تھا۔ اس کی مسلسل کوشش ہوتی کہ میری خدمت کرے۔ اگر میں کوئی زیادتی بھی کرتا جو میں نے ایک دو بار کی بھی تھی تو چپ کرکے سہہ لے۔ میں گھبرانے لگا تھا کیونکہ یہ وتیرہ ان لڑکیوں کا ہوتا ہے جو بیویاں بننے پر تل جاتی ہیں۔ ایک بار شولپان نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ مجھ سے اس قدر پیار کرتی ہے کہ میرے جوتوں کو زبان سے چاٹ کر صاف کر سکتی ہے۔ میں نے اس بات کو مذاق خیال کیا تھا چنانچہ کہا تھا کہ کرکے دکھاؤ اور شولپان نے واقعی زمین پر بیٹھ کر میرا جوتا ہاتھ میں اٹھا کر زبان نکال کر چاٹ لیا تھا، میں نے گھبرا کر فوری طور پر جوتا اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا تھا جبکہ شولپان نے بچوں کی طرح ٹھنٹھنا کر ہنستے ہوئے کہا تھا کہ مجھے جوتا پورا صاف کر لینے دو۔ میں نے اسے ڈانٹا تھا کہ کیا تم پاگل ہو گئی ہو، یہ کیا فیٹیشزم ہے؟

میں اپنی سرشت میں محبت کا جواب محبت سے دینے کا سزاوار تھا۔ میں نے شولپان سے وعدہ کر لیا تھا کہ میں لوٹ کر اس کے پاس آؤں گا۔ شولپان کو معلوم تھا کہ ماسکو میں میں ایک عرصے سے نینا کے ساتھ رہتا ہوں۔ میں نینا کے ساتھ اپنی ہمہ نوع ہم آہنگی بلکہ تعلق خاطر کا کھل کر اس کے سامنے اظہار بھی کر چکا تھا۔ پھر شولپان کو یہ بھی معلوم تھا کہ الماآتی میں میرا کوئی معاشی یا کاروباری سلسلہ تاحال نہیں ماسوائے رؤف تاتار سے وصولی کرنے کے جو مخدوش ہے مگر پھر بھی مجھے لگتا تھا کہ وہ امید باندھے ہوئے ہے تبھی تو اس نے مجھے اپنے ماں باپ سے ملا دیا تھا۔ لڑکیاں عموماً  اپنے یاروں (بوائے فرینڈز) کو اپنے والدین سے نہیں ملاتیں۔

رؤف تاتار مسلسل سبز باغ دکھائے جا رہا تھا۔ اتنے پیسے ضرور دے دیتا کہ میرا خرچ چلتا رہے لیکن پوری رقم یا کم از کم قرض کا کچھ بڑا حصہ دینے سے نہ تو معذرت کرتا تھا اور نہ ہی دیتا تھا۔ میرے لیے ممکن نہیں تھا کہ میں حافظ کے ہاں یا شولپان کے کنٹری ہاؤس میں یا کبھی کبھار اس کے والدین کے ہاں مسلسل قیام کرنا جاری رکھوں، پھر مجھے ماسکو میں جا کر کام کے معاملات بھی دیکھنے تھے۔ اس اثناء میں ایک روز جب ہم دونوں شولپان کے کنٹری ہاؤس میں بیٹھے ہوئے تھے اور دن کا دوسرا پہر تھا۔ میں نے بیئر پیتے ہوئے ترنگ میں آکر شولپان کو قرلیغش کے ساتھ بیتنے والے لمحات بارے بتا دیا تھا۔ شولپان بھی اکثر لڑکیوں کی طرح دعویدار تھی کہ وہ حاسد نہیں ہے مگر فطری طور پر لڑکیاں حاسد ہوتی ہیں۔ وہ پہلے تو خاموش بیٹھی رہی تھی پھر یک لخت اپنا بیگ اٹھا کر چلتی بنی تھی اور اترائی اترتی دکھائی دی تھی۔ میں بیٹھا رہا تھا، میرا خیال تھا کہ لوٹ آئے گی۔ مجھے کنٹری ہاؤس میں تنہا چھوڑ کر بھلا وہ کیوں جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ کافی دیر تک جب نہ لوٹی تو مجھے تشویش ہوئی تھی اور میں کنٹری ہاؤس کا دروازہ بند کرکے اترائی اترا تھا۔ اترائی کے نصف پر ایک موڑ تھا جہاں پگڈنڈی پر شولپان ادھر ادھر چلتے ہوئے، زمین پر نظریں گاڑے کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔ میرے استفسار پر اس نے منہ بنا کر بتایا تھا کہ اس کے بیگ میں میرا سونے کا جو بریسلٹ تھا وہ بیگ گرنے سے کھو گیا ہے۔ یہ بریسلٹ میں نے کچھ عرصہ پہلے ماسکو سے ڈھاکہ جاتے ہوئے، طیارے میں پی شراب کے سرور میں ، شارجہ ایر پورٹ کے ڈیوٹی فری زون میں ایک دوکان پر کام کرنے والی فلپائنی لڑکی کو پسند کرکے اسے خوش کرنے کی خاطر اپنے بنگلہ دیشی دوست کے روکنے کے باوجود خریدا تھا کیونکہ فلپائنی سیلز گرل نے مجھے اپنا فون نمبر دے دیا تھا۔ شولپان تو ویسے ہی بے پروا تھی۔ بیگ پوری طرح بند نہیں کیا تھا۔ ہاتھ میں یونہی تھاما ہوا تھا بلکہ مجھے یقین تھا کہ جھلاتے ہوئے جا رہی ہوگی، جو ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا تھا۔ باقی چیزیں تو پگڈنڈی پر بکھر گئی تھیں، مگر سب سے قیمتی شے جو رات کو سونے سے پہلے میں نے اسے سنبھالنے کے لیے دی تھی، پھسل کر ڈھلان سے کہیں دور نیچے، جہاں تک رسائی محال تھی، جھاڑیوں میں گر کر گم ہو گئی تھی۔ اس نقصان پر شولپان کی حاسدانہ رنجش تو تمام ہو گئی تھی مگر مجھے بریسلٹ گم ہو جانے کا دکھ تھا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ اس بار جب پاکستان جاؤں  تو یہ طلائی بریسلٹ اپنی بیٹی کو دے دوں۔
جب رؤف تاتار سے کچھ نہ ملنے کا یقین ہو گیا تو بالآخر میں شولپان سے دوبارہ آنے کا وعدہ کرکے ماسکو لوٹ گیا تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply