تبصرہ کتاب :گوہر افشاں مصنف : ڈاکٹر شاہد ایم شاہد۔۔۔ تبصرہ نگار : صادقہ نصیر ۔۔۔

کچھ مصنف کے بارے میں :

1979 میں فیصل آباد میں پیدا ہونے شاہد مسیح جن کا قلمی نام ڈاکٹر شاہد ایم شاہد ہے واہ کینٹ کے باسی ہیں ۔ بہت کم عمری میں بہت سے علمی و ادبی کارنامے اور خدمات انجام دینے کی وجہ سے ان کی کتاب پر خاص توجہ ہوئی ۔انہوں نے 2021 میں یونیورسٹی آف سرگودھا سے ایم اے اردو کیا ۔ اور فیتھ تھیالوجیکل سمیزی گجرانوالہ پنجاب سے بیچلرز آف تھیالوجی کیا ۔
وہ بیک وقت پیشہ معلمی اور پیشہ طب سے وابستہ ہیں ۔ اس وقت سینٹ پال ہائی سکول واہ کینٹ میں تدریسی فرائض سر انجام دینے کے علاوہ ہومیو پیتھک معالج بھی ہیں ۔ اس لحاظ سے انہیں اعزاز حاصل ہے کہ وہ انسانیت کی خدمت صحیح معنوں میں کر رہے ہیں ۔ انسانی ذہن اور جسم ان کی براہ راست دسترس میں ہیں اور یہ ان پر ایک بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے علم اور پیشہ ورانہ مہارتوں سے ان کو درست راہ پر گامزن کریں ۔
ان کی کی علمی و ادبی خدمات اور تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دردمند دل رکھتے ہیں اور ایک ریفامر دکھائی دیتے ہیں تو عملی طور پر بھی انہی اصولوں پر کاربند ہوں گے ۔

ان کی جن تنظیموں سے گہری وابستگی ہے ان میں پاکستان کرسچین رائٹرز گلڈ واہ کینٹ جس کے 2011 سے 2019 تک وہ جنرل سیکریٹری رہے ۔ دوسری تنظیم فروغ سخن واہ کینٹ ہے جس کے وہ 2019 سے تا حال جنرل سیکریٹری ہیں ۔
ادبی کاوشوں اور خدمات کے لئے ان کی مختلف جرائد و رسائل سے وابستگی کچھ یوں ہے :
روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ۔
ماہنامہ معالج کراچی
سنڈے میگزین روزنامہ جنگ راولپنڈی
ماہنامہ نیا تادیب لاہور
ماہنامہ ستون حق لاہور سہ ماہی نشان کراچی ہفت روزہ آگاہی کراچی روزنامہ کندن لاہور ماہنامہ صحت لاہور ۔
ایوارڈز :
بہترین کالم نگار ایوارڈ 2011
جرنلسٹک سروسز ایوارڈ پاکستان کرسچین رائٹر گلڈ واہ کینٹ
بی ایم حسرت ایوارڈ 2018
بہترین کالم نگار ایوارڈ اور جرنلسٹ ایوارڈ 2019

تصانیف :
بکھرے خواب اجلے موتی 2019
آؤ زندگی بچائیں 2020
گوہر افشاں 2022
زیر تبصرہ کتاب : گوہر افشاں ہے ۔
یہ کتاب کل 94 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 32 مضامین ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london


انتساب : ” پہلوٹھے بیٹے رائن میتھیو کے نام جو پیدا ہوتے ہی زندگی کی راہ میں گم ہو گیا تھا۔ لیکن بہت سی دعاؤں کے بعد واپس مل گیا تھا”
پیش لفظ میں مصنف ڈکٹر شاہد ایم شاہد اعتراف کرتے ہیں کہ “گوہر افشاں میرے روحانی احساس کا آئینہ ہے”
وہ پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ سوچ اور قلم کے درمیان ہم آہنگی سے تخلیق جنم لیتی ہے اور اس سوچ بچار اور فکر پر مبنی تخلیق کو محفوظ کرنے کا بہترین ذریعہ ادب ہے اور قلم اور ادب کا صدیوں کا رشتہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔ ہر انسان کی سوچ کے زاوئیے مختلف ہیں ۔ ہر انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ جس سوچ پر اپنے آپ کو کھڑا کرنا چاہتا ہے اسی پر کھڑا ہو جائے ۔ اس پیش لفظ میں مصنف نے ادب کو زندگی کا عکاس کہا ہے ۔
انسانی زندگی کا ایک مثبت خیال انقلاب لا کر قوموں کی تقدیر بدل سکتا ہے ۔
مصنف کے خیال میں ہر انسان امن کا متلاشی ہے لیکن اخلاقی گراوٹوں کی وجہ سے وہ انقلاب لانے میں ناکام ہے ۔ کیوں کہ جس تبدیلی سے انقلاب آتا ہے وہ تبدیلی ہر انسان دوسروں میں دیکھنا چاہتا ہے لیکن خود کو ہر گز نہیں بدلتا ۔
وہ ایک اہم نقطہ اٹھاتے ہیں کہ اگر ادب زندگی کا عکاس ہے تو اتنا ادب تخلیق ہونے کے باوجود ہماری زندگیاں انقلاب سے عاری کیوں ہیں ۔ جواب دیتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ ہم عمل سے عاری ہیں ۔
اس کتاب پر پانچ تبصرے شامل ہیں ۔ جن لوگوں کی آراء شامل ہیں ان میں قاسم علی شاہ چیئرمین قاسم علی شاہ فاونڈیشن ، ڈاکٹر صفدر نعیم چیئرمین داخلہ کمیٹی گورنمنٹ کالج ماڈل ٹاؤن لاہور، پروفیسر عامر زریں صدر شعبہ حیاتیات، نصرت بھٹو گورنمنٹ ڈگری کالج لیاری کراچی ، پروفیسر سلیم اختر اسلام آباد اور جیم فے غوری شاعر ، ناول نگار صحافی و دانشور ساکواہ سمواہ اٹلی شامل ہیں ۔
اپنے فکری رنگ اور اسلوب سے ڈاکٹر شاہد ایم شاہد ایک مذہبی سوچ رکھتے ہیں اور ان کے تمام مضامین مذہبی اخلاقیات کے اصولوں پر مبنی ہیں ۔ یہ اصول فی زمانہ اگر کوئی مذہبی رہنما بتائے تو شاید یہ تھیوری نا قابل عمل ہو ۔ لیکن مصنف ایک تعلیم یافتہ اور باشعور فکر اور عمل رکھنے والے ہیں اور یہ تمام اخلاقی اصول جو ان کے مضامین میں بتاۓ گئے ہیں وہ ان کی وش لسٹ میں ہیں ۔ اور یہی بات انہیں دوسرے مذہبی فکر رکھنے والوں سے الگ کرتی ہے وہ ہے ان کا فکری ارتقاء پر یقین رکھنا ۔ ان کے مضامین کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ ان آفاقی اخلاقی اصولوں کے لئے مثبت سوچ رکھتے ہیں اور وثوق سے کہتے ہیں کہ اگر ان نفسیاتی بیماریوں کا علاج شعوری کاوشوں کے ساتھ ہر فرد رضاکارانہ طور پر کر لے اور شعوری اِرتقاء کے عمل کو نہ روکے تو یہ زمین امن کی امین ہو سکتی ہے ۔
ہر مضمون کو لفظ بہ لفظ پڑھ کر اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین ہوا کہ مصنف ایک انسان دوست اور امن دوست ہیں ۔
ہر مضمون کو لفظ بہ لفظ بیان کرنا قاری کی جستجو کو ختم کرنے کے مترادف ہے لہذا اتنی سہولت دی جا سکتی ہے کہ وہ کون سے مضامین اور عنوانات ہیں جنہیں مصنف علاجِ غم ہستی قرار دیتے ہیں قارئین خود سمجھیں کہ کیا لکھا گیا ہے ۔
اب ذیل میں ان تمام مضامین کا ذکر کرنا ضروری ہے جو اس کتب کی زینت بنے ۔ ہر مضمون عنوانات اور الفاظ کے خوبصورت چناؤ کے ساتھ اپنی نوعیت میں اجمالی رنگ لئے ہوئے ہے کہ اخلاق کے یہ اصول مذہبی تبلیغ نہیں بلکہ مصنف کے خیالات کی فراوانی اور قلم کی روانی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ اور کہیں بھی دل و دماغ پر بار گراں نہیں گزرتے ۔ بلکہ مصنف کے تصور امن کی معصوم خواہشات کا چمن محسوس ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر ایک روحانی کیفیت رومانوی کیفیت بن جاتی ہے۔
یہ مضامین کچھ اس طرح سے ہیں :
۔ دل کے داغ دھوئے کون؟ ، گردش ایام ، جھوٹ ایک پرندہ ، یادوں کا سحر ، بھروسے کی چال ، اپنی غلطیوں کی نشاندہی. ، رشتوں کا تقدس ، زندگی کا شکوہ ، قسمت کی ریکھائیں ، خواہشات کے گچھے ، دولت کی ہوا کی چران ، افلاس کا کرب ، دن بدلتے نہیں حالات سدھرتے نہیں ، انصاف کا عصا ، تبدیلی کی شروعات ، محبت ایک مکاشفاتی بھید ، انتقام کی آگ، اخلاقی قدریں ، تعلقات و روابط کا حدود اربع ، پیروی کی مثال، ایمانداری کا فقدان، ایمان امید اور محبت ، حکمت کی کرامات ، خون بہانے کا انجام ، احساس کے کرشمے ، آزمائشوں کا کرب ، جیسے عنوانات سے مزین یہ کتاب دسمبر 2022 میں صبح نور پبلیکیشن نے شائع کی ۔
اور میں اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے قارئین کو سفارش کرتی ہوں کہ اس کتاب کو خریدیں اور ضرور پڑھیں کہ یہ باطن اور شعور کے ارتقاءکے لئے ایک نسخۂ کیمیا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply