• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فکرِ یزیدیت کا جنازہ نکال کر پیغامِ مصطفیؐ کو بچایا حسینؑ نے/ ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی

فکرِ یزیدیت کا جنازہ نکال کر پیغامِ مصطفیؐ کو بچایا حسینؑ نے/ ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی

دو مستند و معتبر احادیث اور واقعات ذکر کر کے بات کو آگے بڑھاؤں گا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “حسنؑ اور حسینؑ جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔”
آپؐ نے فرمایا: حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔

 

 

 

 

یہ دورِ نبوی ہے؛ ایک دن رسول اللہؐ منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اتنے میں امام حسینؑ صفوں کے درمیان سے اپنے نانا کی طرف بڑھنے لگے لیکن پاؤں لڑکھڑانے کے باعث گر پڑے صحابہ کرام(رض) نے سنبھالا لیکن اس کے باوجود آنحضرتؐ خود منبر سے اُترے اور اپنے نواسے کو آغوش میں اٹھایا اور دوبارہ منبر پر تشریف لے گئے اب جو لب کشائی فرمائی تو سلسلہ کلام کو روک کر صحابہ کرام کے سامنے اپنے پیارے نواسے کا تعارف کرایا اور فرمایا “ھذا حسین فاعرفوہ” یہ حسین ہے اسے پہچان لو۔ صحابہ کرام پہلے ہی پہچانتے تھے لیکن اب حسینؑ کی معرفت اور بڑھ گئی۔

یہ بھی پڑھ لیجیے؛ ایک دن رسول اللہؐ نماز کی امامت فرما رہے تھے اور نماز کے سب سے اہم رکن سجدے کی حالت میں تھے کہ امام حسینؑ آئے اور آپؐ کی پشت پر سوار ہو گئے رسول خداؐ نے اس وقت تک سجدے سے سر نہیں اٹھایا جب تک آپؐ کا نواسہ خود نیچے نہیں اترا۔  

اب پچاس برس آگے چلیے؛ یہی حسینؑ حاکمِ وقت یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار پر کربلا کے لق و دق صحرا میں خون کے پیاسے مسلمانوں کے نرغے میں ہے۔ آپ کے ساتھ آپ کا پورا خاندان ہے یعنی آلِ رسولؐ مسلمانوں کے نرغے میں ہے۔

ذرا سوچیے! کہ رسول خدا ؐکے وصال کے صرف پچاس سال بعد مسلمان اتنے کیسے بدل گئے کہ نواسہ رسولؐ کو تین دن بھوکا پیاسا رکھ کر آپ کی آل اولاد اور اعوان و انصار سمیت بدترین انداز میں ذبح کر دیا!

ستم بالائے ستم یہ کہ شہداء کے لاشوں کو دفنانے تک کی بھی اجازت نہ دی گئی بلکہ نواسہ رسولؐ اور باقی شہداء کے سروں کو تن سے جدا کر کے نیزوں پر بلند کیا گیا اور کوفہ و دمشق میں ابن زیاد اور یزید کے دربار میں لے جایا گیا۔ نبی زادیوں کے سروں سے چادریں چھیننے کے بعد اسیر بنا کر اپنے عزیز شہداء کے مقدس سروں کے ساتھ کوفہ و شام میں پھرایا گیا۔

ذرا تصور کیجیے! اس دوران کتنے علاقوں اور شہروں سے آلِ رسولؐ کا یہ لٹا ہوا قافلہ گزرا ہو گا لیکن حیرت انگیز طور پر پورے راستے میں کسی علاقے کا کوئی مسلمان ٹس سے مس نہ ہوا بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ یزیدیوں نے کوفہ و شام میں بھرپور جشن بھی منایا۔

ذرا سوچیے کہ ساٹھ اکسٹھ ہجری کے کلمہ گو کیسے مسلمان تھے جو نواسہ رسولؐ کو تو باغی لیکن یزید کو خلیفۃ المسلمین، امیر المومنین اور جانشینِ رسولؐ کہہ رہے تھے۔ 
یزید اور یزیدیوں نے چاہا کہ امام حسینؑ کی قربانی اور شہادت کے اہداف و مقاصد بھی کربلا ہی میں دفن ہو جائے لیکن ثانی زہرا حضرت زینب کبریٰ  اور حضرت امام زین العابدین علیہما السلام کی بھرپور مجاہدانہ ابلاغ رسانی کے سبب حقائق سے ناآگاہ لوگ آگاہ ہونا شروع ہو گئے اور مسلمانوں کے سامنے سے یزید کے چہرے پر پڑا نقاب الٹنے لگا اور اس کا اصلی مکروہ چہرہ تاریخ کے صفحے پر نمودار ہوا اور اپنے زمانے کے مسلمانوں کا امیر المومنین یزید بعد کے مسلمانوں کے نزدیک منفورترین فرد میں تبدیل ہو گیا۔

اب ذرا چودہ سو سال آگے آئیے یعنی آج کے زمانے کو دیکھیے۔ آج محرم الحرام کا مہینہ آتے ہی پوری دنیا کے مسلمان اپنے اپنے انداز میں امام حسینؑ کی مظلومیت اور یزید کے ظلم و بربریت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ دنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں ذکرِ حسینؑ نہ ہوتا ہو۔
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اتنا بڑا فکری انقلاب کیسے برپا ہو گیا؟
یقیناً یہ امام حسینؑ کی عظیم قربانی کا صدقہ ہے۔ آپ نے اپنی اور اپنے عزیز و اقارب کی قربانی کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان یہ فکری انقلاب برپا کیا۔ جس یزید کو اس کے زمانے کے مسلمان امیر المومنین اور خلیفۃ المسلمین کہہ رہے تھے آج وہ یزید داخل دشنام ہو چکا ہے۔ اُس دور کے مسلمان یزید کو اولو الامر سمجھ کر اس کی اطاعت کو اللہ اور رسولؐ کی اطاعت سے ملا رہے تھے آج اس یزید کے چہرے سے نقاب مکمل اُتر چکا ہے آج کسی مسلک کا کوئی مسلمان ایسا نہیں جو یزید کو خلیفۃ المسلمین سمجھتا ہو اور اس کے ساتھ اپنی نسبت پر فخر کرتا ہو جبکہ سن ساٹھ اکسٹھ ہجری کے مسلمان اسے خلیفۃ المسلمین بھی سمجھتے تھے اور اس سے معمولی نسبت اور تعلق پر بھی فخر و مباہات کرتے تھے۔

عام مسلمانوں کے درمیان امام حسینؑ کی عظیم قربانی کے اہداف و مقاصد کی اولین ابلاغ رسانی کا فریضہ تو واقعہ کربلا کے فوراً  بعد کوفہ اور شام کے بازاروں اور ابن زیاد اور یزید جیسے ظالم درندوں کے درباروں میں اسیری کے عالم میں حضرت زینب کبریٰ  اور حضرت امام زین العابدین علیہما السلام نے انجام دیالیکن اس کے بعد واقعہ کربلا کے اہداف و مقاصد کی ابلاغ رسانی کی اس سنت کو اہلِ بیتؑ کے چاہنے اور ماننے والوں نے زندہ رکھا جو آج تک قائم ہے اور ہر گزرتے دن اور سال کے ساتھ اس میں اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اور ہر قوم و ملت اور مسلک و مکتب سے وابستہ مسلمان اپنے اپنے انداز میں یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں حسینؑ اور یزید حق اور باطل کا استعارہ بن چکے ہیں اور قوم و ملت اور مسلک و مکتب کی تفریق کے بغیر ہر کوئی اس حقیقت کا معترف ہے۔۔۔

یہاں اس حقیقت کا اعتراف اور اظہار بھی ضروری ہے کہ واقعہ کربلا اور عاشورہ  کو زندہ رکھنے میں خاص طور پر مکتبِ اہل بیتؑ کے پیروکاروں کا کردار ناقابلِ انکار ہے انہوں نے قیامِ امام حسینؑ کے اہداف و مقاصد کی ابلاغ رسانی کے لیے حضرت زینب کبریٰؑ اور امام زین العابدینؑ کی قائم کردہ گریہ و عزاداری کی سنت کو تمام تر رکاوٹوں اور مخالفتوں کے باوجود زندہ و جاری رکھا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یزید مکمل طور پر رسوا ہو چکا ہے۔ تمام مسلمان حسینیت کے ساتھ اپنی نسبت پر فخر کرتے ہیں اور یزیدیت کے ساتھ نسبت کو ننگ و عار کا باعث سمجھتے ہیں جبکہ سن اکسٹھ ہجری میں صورتحال بالکل برعکس تھی۔ مزید بر آں یہ کہ اب اس اسلوب کے مخالفین خود بھی اپنے بزرگوں کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے آہستہ آہستہ مکتبِ اہل بیت کے پیروکاروں کی طرح جلسے جلوس اور مجالس کا انعقاد کرنے لگے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

یہاں چند جملے رائج عزاداری کے بارے میں بھی لکھنا مناسب رہے گا۔
امام حسینؑ نے یزید جیسے ستمگر کے خلاف قیام کر کے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ عالمِ انسانیت کو ظالم و جابر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا شعور عطا فرمایا۔ آج آپ کے پیروکار عزاداری کے ذریعے ظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ ذکرِ حسینؑ اور عزاداری عبادت کے ساتھ ساتھ دراصل نہ صرف یزید بلکہ ہر دور کے ظالموں اور یزیدیوں کے خلاف کھلا احتجاج ہے تاکہ کوئی اور یزید سر نہ اٹھا سکے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں یقیناً عبادی پہلو کے علاوہ سیاسی پہلو بھی پوشیدہ ہے۔

جہاں تک عزاداری کے اندر شامل بعض رسوم پر اعتراض کا تعلق ہے تو یہ فقہی پہلو رکھتا ہے جس کا جواب فقہاء کا کام ہے اور فقہاء کی  آراء اس پر موجود ہیں۔ لہذا کسی دوسرے مسلک کے پیروکاروں کے عمل کے بارے میں حلال و حرام کے اعتبار سے اظہار رائے کرنا دوسروں کے فقہی حدود میں داخل ہو کر اپنی فقہ کے مبانی کے تحت اعتراض کرنے کے مترادف ہے جو خلافِ اصول ہے۔

جہاں تک عزاداری کے دوران بعض راستوں کی بندش پر اعتراض کا تعلق ہے تو اس حوالے سے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاج اور ریلیوں کے دوران کچھ راستے بند ہوتے ہیں لہذا یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے مزید یہ کہ عزاداری کے دوران کہیں پر کوئی راستہ اچانک بند نہیں ہو جاتا بلکہ سب کو از قبل معلوم ہوتا ہے کہ نو یا دس محرم الحرام کو فلاں راستہ بند ہو گا لہذا ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کسی گلی سے اچانک کوئی جلوس سامنے آئے اور کسی روڈ کو اچانک بند کر کے وہاں عزاداری شروع کر دے اور ادھر سے جلوس گزار دے یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے پہلے سے ہی متبادل راستوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ جلوسوں کے راستوں کو بند کرنا دہشتگردی اور تخریب کاری کے خدشات کے پیش نظر امن و امان کی برقراری کے لیے حکومتی انتظامات اور سکیورٹی پلان کا حصہ ہوتا ہے، یہ عزادار وں کی خواہش پر نہیں ہوتا بلکہ عزاداروں کی خواہش تو یہ ہوتی ہے کہ جلوس کے اطراف تمام راستے کھلے ہوں تاکہ لوگ ان کے جلوسوں کو دیکھ لیں اور یوں واقعہ کربلا کے حوالے سے بہتر ابلاغ رسانی ہو جائے اور لوگوں کے اندر کربلا کو سمجھنے کے لیے اندرونی تجسس بڑھ جائے۔ لہذا حکومت اگر اپنی رٹ قائم کر لے اور ملک سے دہشتگردوں کا مکمل صفایا کر دے تو پھر راستوں کی بندش کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ جس طرح بہت سے مغربی ممالک میں سڑکوں پر عاشورہ کے جلوسوں کے گزرنے کے باوجود وہاں ٹریفک میں کوئی خلل نظر نہیں آتا بلکہ جلوس کے ساتھ ساتھ ٹریفک بھی معمول کے مطابق چلتی رہتی ہے۔

عزاداری کے عبادی پہلو پر کبھی کبھی سوال اٹھایا جاتا ہے تو اختصار سے اس پر بھی چند جملے لکھ ہی لیتے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ عبادات دو طرح کی ہوتی ہیں۔
کچھ عبادات وہ ہیں جن کا طریقہ کار شریعت نے از خود طے کر رکھا ہے اس میں کوئی اپنی جانب سے کمی بیشی نہیں کر سکتا، جیسے نماز وغیرہ۔ جبکہ کچھ عبادات وہ ہیں جن کا طریقہ کار شریعت نے طے نہیں کیا ہے یہ عبادات دین کے دائرے میں رہ کر کسی بھی طریقے سے انجام دی جا سکتی ہیں لہذا ممکن ہے ایک عبادت کو دس لوگ اپنے الگ الگ ذوق کے مطابق دس الگ الگ طریقوں سے انجام دے دیں لیکن طور طریقے مختلف ہونے کے باوجود سبھی کے کام عبادت ہی کہلائیں گے، جیسے غریب کی مدد کرنا۔

عزاداری کے بارے میں جب کہا جاتا ہے کہ یہ عبادت ہے تو اس کا تعلق عبادت کی دوسری قسم سے ہے جس کا کوئی خاص طریقہ کار طے نہیں ہے ہر کوئی شریعت کی حدود میں رہ کر اسے اپنے اپنے علاقے اور ثقافت کے مطابق انجام دے سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ آلِ رسولؐ کے غم میں غمگین ہونا اور اس کا اظہار عبادت ہی ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ عبادت ہے تو صرف عبادت خانے میں انجام دیا جائے! یہ اس کے عبادی پہلو کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ یہ عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے ظالم قوتوں کے خلاف احتجاج بھی ہے اس لیے چار دیواری کے باہر بھی کرتے ہیں۔

آخر میں ایک بار پھر اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ اگر یہ عزاداری نہ ہوتی تو یزید اپنے زمانے کی طرح آج بھی مقدس ہوتا، آج بھی خلیفۃ المسلمین کہلاتا، آج بھی امیر المومنین کہلاتا۔۔۔ لیکن یہ عزاداری کے ذریعے مسلسل صدائے احتجاج بلند کرنے کا ہی نتیجہ ہے جس نے اس فاسق و فاجر اور ظالم یزید کے چہرے کو اہلِ اسلام اور دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے لہذا اب کسی کی جراَت نہیں ہے کہ وہ کھل کر یزید کی حمایت کر سکے اور اسلامی تاریخ کو مسخ کر سکے!

تمام اہلِ اسلام کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے انداز اور فقہی حدود میں کم از کم محرم الحرام میں نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کے تذکرے کا اہتمام ضرور کریں اور آپ کے قیام کے اہداف و مقاصد کو اپنی  آنے والی نسلوں کے سامنے ضرور بیان کریں تاکہ وہ بھی حسینی بن سکیں۔

کُنبہ لٹا کے دین بچایا حسینؑ نے
راہِ خدا میں جان سے کھیلا حسینؑ نے

فکرِ یزیدیت کا جنازہ نکال کر
پیغامِ مصطفیؐ کو بچایا حسینؑ نے

باطل کے سامنے کبھی جھکنے نہ پائے سر
دنیا کو یہ پیام سنایا حسینؑ نے

Advertisements
julia rana solicitors london

احسان ان کا دیکھیے کیسے سکھا دیا
انسانیت کو ظلم سے لڑنا حسینؑ نے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply