قرض واپس نہ ملا البتہ /ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے
میں اس سے پہلے بھی الماآتا آیا تھا۔ میری رہائش کا انتظام رؤف تاتار نے کیا تھا۔ رؤف تاتار، نینا کی ایک سہیلی کے ساشا نام کے بیٹے کا دوست تھا، دونوں ماسکو آئے تھے جہاں میں اور ندیم انہیں ایک ریستوران میں ملے تھے اور اسے یعنی رؤف کومال دینا طے پایا تھا۔ پہلا دورہ گفتگو اور سیر پر مشتمل تھا۔

 

 

 

 

سیر کرانے میں رؤف کی بجائے ساشا اور اس کے دو دوست شامل رہے تھے۔ البتہ اس بار میں اپنے طور پر آیا تھا تاکہ رؤف سے وصولی کر سکوں۔ میں نے الماآتا میں کراچی کے ایک جوان تاجر حافظ رحیم کے ہاں قیام کیا تھا۔ حافظ رحیم چند سال پیشتر ماسکو میں تھا تب اس نے ندیم کے ہمراہ میرے گھر قیام کیا تھا۔ میں البتہ تب ماسکو کے مرکز والے اپارٹمنٹ  میں اکیلا رہا کرتا تھا۔

حافظ صاحب تھے تو حافظ ہی لیکن حافظ کہلاتے نہیں تھے بس رحیم کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ بڑی دلچسپ شخصیت تھے۔ سفارت خانے میں تراویح بھی پڑھا دیتے تھے اور واپسی پر اپنی گاڑی میں گونگی بہری لڑکیوں کو بٹھا کر بھی لے آتے تھے۔ جب کوئی بولنے والی مل جاتی تو وظیفہ عمل سرانجام دینے سے پہلے اسے اسلام پر ایک لیکچر دیتے تھے۔ پنجابی سوداگران دہلی کا یہ فرزند خوبصورت بھی تھا اور لطیفہ باز بھی۔

رؤف سے ملاقات ہو گئی تھی۔ رؤف نے ان دنوں چین مارکیٹنگ کا چکر چلایا ہوا تھا جس میں امریکہ کے ہربل لائف نامی کسی مواد کی چین مارکیٹنگ کی جاتی تھی۔ اس عمل میں سینکڑوں لڑکے لڑکیاں شامل تھے۔ ہال کرائے پر لیے جاتے۔ موٹیویٹنگ گیت گائے جاتے وغیرہ وغیرہ یعنی ایک مکمل ڈرامہ تھا۔ رؤف نے پہلے ہی روز مجھے گذارے کے لیے اس زمانے کے مطابق اچھی بھلی رقم دے کر کہا تھا کہ اسے خرچ کر دیں تو پھر اور لے لیں۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ کے ہوتے ہوئے آپ کو جتنی ممکن ہو رقم دے دوں لیکن آپ کو بتا دوں کہ  میری اپنی ادائیگیاں ابھی پھنسی ہوئی ہیں۔ چند روز بعد میرے قیام کو بڑھایا جانا تھا جس کے لیے سرکاری دفاتر سے رجوع کرنا تھا۔ چونکہ میں اس شہر سے یکسر ناواقف تھا اس لیے رؤف نے ایک لڑکی کو میرے ہمراہ کر دیا تھا جو انگریزی زبان بول لیتی تھی تاکہ وہ اس سلسلے میں میری مدد کرے۔ کازخ لڑکیاں عام طور پر پستہ قد ہوتی ہیں لیکن یہ لڑکی طویل القامت تھی۔ واجبی سے بلکہ سادہ کپڑے پہنتی تھی۔ بال اول جلول ہوتے تھے۔ چہرے پر کیل مہاسوں کے بچے ہوئے نشانات تھے۔ اپنے انداز گفتگو سے بچوں کی طرح معصوم لگتی تھی۔ کسی حد تک ہونق اور اڑی اڑی سی دکھائی دیا کرتی تھی۔ بہرحال تھی تو لڑکی اور وہ بھی اچھے اطوار والی۔ میں نے اس کی طرف پیشرفت کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ اس سے اگر میں پوچھتا بھی کہ کچھ چاہیے یا کہیں کچھ کھا پی لیتے ہیں تو وہ انکار کر دیا کرتی تھی۔ جس روز قیام کو بڑھانے کا معاملہ حل ہو گیا تو میں نے اسے اپنے ہاں شیمپین پینے کی دعوت دی تھی۔ اس لڑکی کا نام شولپان تھا۔ شیمپین کا میں نے پہلے سے انتظام کیا ہوا تھا۔ جب میں اسے لینے کے لیے گیا ہوا تھا تو پیچھے سے رحیم نے فریج میں رکھی ہوئی شیمپین اپنی کسی سہیلی کو پلا دی تھی۔ جب میں شولپان کے نہ ملنے پر بے نیل و مرام گھر پہنچا اور منہ تر کرنے کی خاطر کچھ پینے کے لیے فریج کھولا تو مجھ پر یہ بھید کھلا تھا۔

اب میرے لیے بڑا کٹھن تھا کہ میں شولپان کی جانب سے کسی اطلاع ملنے کا انتظار کروں یا شیمپین کی نئی بوتل خرید کے لاؤں۔ میں شش و پنج میں تھا کہ فون کی گھنٹی بجی تھی۔ شولپان نزدیک کے ہی کسی ریستوران کے فون سے بول رہی تھی۔ میں نے اسے بتایا تھا کہ ساتھ والی گلی میں آؤ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں۔ میں بالکونی میں کھڑا ہو گیا تھا جس کے آگے انگور کی بیلیں تھیں۔ مجھے گرمی سے بوکھلائی ہوئی، رومال سے چہرے کا پسینہ پونچھتے ہوئے شولپان آتی دکھائی دی تھی۔ میں نے اس کی جانب ہاتھ ہلایا تھا اور اسے لینے کے لیے نیچے پہنچ گیا تھا۔ رحیم کا فلیٹ دوسری منزل پر تھا۔ اسے فلیٹ میں بٹھا کر، جوس وغیرہ پیش کرکے، میں نے معذرت کی تھی اور بھاگ کر شیمپین کی نئی بوتل لے آیا تھا اور لا کر فریزر میں رکھ دی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب ہم کمرے میں دیوان پر بیٹھے ہوئے تھے تو میں نے احتیاط کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامنے کے علاوہ کوئی پیش رفت نہیں کی تھی۔ بس ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے تھے۔ میں نے اسے رؤف پر چڑھے ادھار سے متعلق بتایا تھا اور اس نے رؤف کے وطیرے پر محتاط انداز میں تنقید کی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ شیمپین کسی حد تک ٹھنڈی ہو گئی ہوگی۔ میرے جی میں نجانے کیا آئی کہ میں نے انگریزی زبان میں ایمان سے کہا تھا ” ول یو لائک ٹو سلیپ ود می” اور یہ کہہ کر کچن میں چلا گیا تھا۔ فریج سے بوتل نکالی تھی اور اسے کھولنے لگا تھا۔ ساتھ ہی سوچ رہا تھا کہ نجانے شولپان کا ردعمل کیا ہوگا۔ اتنے میں شولپان نے کچن میں داخل ہو کر پوچھا تھا،” آپ کے ہاں کوئی ” بیدنگ گاؤن” ہوگا”۔ میں بوتل کھول چکا تھا۔ پہلے میں نے ایک جام بنایا تھا۔ ہم دونوں نے وہیں کھڑے کھڑے دو چار منٹ میں اسے نوش جان کیا تھا۔ میں نے ڈھونڈ کر نہانے کے بعد پہننے والا گاؤن اس کو پکڑایا تھا اور وہ بغیر کسی تاثر کے غسل خانے میں داخل ہو کر نہانے لگی تھی۔ یعنی شولپان پٹ سے پٹ گئی تھی۔ جب وہ نکلی تو تازہ لگ رہی تھی۔ شیمپین کے جام سے اس کا مزاج بھی اچھا ہو گیا تھا۔ اس نے کہا تھا لاؤ شیمپین پیتے ہیں۔ شیمپین کے دو دو پیگ لیے تھے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا تھا اور اس کے ساتھ بغل گیر ہو گیا تھا۔ سفید گاؤن تلے اس کا زردی مائل سفید بدن بالکل آزاد تھا، مجھے بغل گیر ہو کر احساس ہوا تھا۔ میں نے گاؤن کی تنی بڑے آرام سے کھول دی تھی اور اپنے ملبوس بدن کو اس کے یکسر بے داغ ملائم بدن کے ساتھ پیوست کر لیا تھا۔ پھر اسی حالت میں آہستہ آہستہ قدم کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے دونوں بڑے کمرے میں بچھے ڈبل بیڈ تک پہنچے تھے۔ میں نے اسے بستر پر لٹا کر اس کے سراپا پر نگاہیں دوڑائی تھیں ساتھ ہی خود کو بے لباس کرتا رہا تھا۔ حافظ رحیم کے بیڈ پر دو ملحد بدن خلط ملط ہو گئے تھے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply