قرآن جلانے والوں کو کربلا سے جواب/ڈاکٹر ندیم عباس

دنیا میں مختلف مذاہب موجود ہیں اور ان کے ماننے والے بھی بے شمار ہیں۔ ہر مذہب کے کچھ مقدسات ہوتے ہیں، جن کی توہین اس مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔ آزادی اظہار کے نام پر کسی دوسرے کے مقدسات کی توہین کی اجازت دینا انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں بلکہ تہذیبوں اور مذاہب کو مقابل لانے کا معاملہ ہے۔ اہل مغرب کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی اقدار اور اپنے ضابطوں کو آفاقی سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے کی اقدار اور ضابطوں کا لحاظ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہیں کئی فورمز پر یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ ایک انفرادی عمل جب کسی اجتماعی انسانی معاشرے میں اضطراب اور ردعمل کو جنم دے رہا ہو تو وہ بنیادی حق سے نکل کر فساد کی جگہ لے لیتا ہے۔ اہل مغرب کے کرتے دھرتے یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب اور مذہب سے متعلقہ مقدسات کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ممکن ہے کہ یورپ کی حد تک ان کی بات درست ہو، مگر ان کی بات مکمل درست نہیں ہے۔ دنیا میں اربوں انسان ایسے ہیں، جن کے لیے ان کے مقدسات کی توہین ان کی اپنی توہین سے بڑھ کر ہے۔

سویڈن میں ایک شخص اٹھتا ہے، باقاعدہ اجازت لیتا ہے اور پولیس کی حفاظت میں مسلمانوں کے سامنے پورے سوشل میڈیا پر لائیو قرآن مجید کو جلا دیتا ہے۔ سویڈن کی پولیس اسے اپنے قانون جس میں معاشرے میں تفریق پیدا ہونے کی بنیاد پر پکڑ سکتی تھی، مگر نہیں، اسے پوری پروٹکشن میں لے جایا گیا۔ اس کے ردعمل میں ایک شخص نے اسرائیلی ایمبیسی کے سامنے تورات اور انجیل جلانے کا اعلان کر دیا۔ایسا کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف تھا اور ردعمل میں بھی اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ اجازت مل بھی گئی، مگر تورات اور انجیل کو جلانے کا ارادہ ملتوی کر دیا گیا۔ اس مظاہرے کے منتظم احمد نے وضاحت کی کہ ان کا مقصد دراصل مقدس کتابوں کو جلانا نہیں بلکہ ان لوگوں پر تنقید اور ان کی مذمت کرنا ہے، جنہوں نے حالیہ مہینوں میں سویڈن میں قرآن پاک کے نسخوں کی بے حرمتی کی ہے اور جو سویڈن کے قانون میں منع نہیں ہے۔

شامی نژاد سویڈش باشندے کا کہنا تھا کہ یہ ان لوگوں کو ایک جواب ہے، جو قرآن نذر آتش کرتے ہیں، میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ اظہار رائے کی آزادی کی حدود ہیں، جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا ہے، ہم ایک ہی معاشرے میں رہتے ہیں، اگر میں توریت، کوئی شخص انجیل، کوئی اور شخص قرآن مجید کو نذر آتش کرتا ہے تو یہاں جنگ ہوگی، میں جو دکھانا چاہتا تھا، وہ یہ ہے کہ ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ جس شخص نے قرآن جلایا، اسی شخص نے میڈیا کے سامنے رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کی تصویر جلائی۔ قرآن کو جلانے والا اب رہبر کی تصویر جلا رہا ہے۔ تصویر جلانے والے نے صرف رہبر معظم کی تصویر ہی کیوں جلائی؟ یہ بڑا اہم سوال ہے اور جواب اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ اصل وجہ یہی ہے کہ ان قرآن دشمنوں کو بھی معلوم ہے کہ اصل محافظ قرآن کون ہے؟ انہیں معلوم ہے کہ شدید ردعمل کا مظاہرہ کس مسلم رہنماء کی طرف سے آیا۔

ویسے جب یہ تصویر جلائی جا رہی ہے تو ردعمل میں سویڈن میں مقیم بے حجاب مسلم خواتین بھی شدت سے اپنے غم و غصے کا اظہار اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے سے کر رہی ہیں۔ جب نبی اکرمﷺ کی شان میں اہانت کی گئی تھی تو اس کے خلاف عملی ردعمل بھی ایران کی طرف سے آیا تھا اور مسینجر جیسی عالی شان فلم بنائی گئی تھی، جس نے سیرت نبیﷺ کو اجاگر کرنے میں بہت ہی موثر کردار ادا کیا تھا، اب بھی ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ قرآن مجید کی اس توہین پر ایک ردعمل تو احتجاج کی شکل میں دنیا بھر میں کیا جا رہا ہے۔ اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، اسے اس انداز میں منظم کیا جائے کہ اس میں جلاو گھراو کی بجائے تہذیب اور دانش کا پہلو غالب رہے۔ ہمارا پیغام بھی پہنچ جائے اور ہماری حکمت اور دانش کا اظہار بھی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

کربلا معلی میں یکم محرم الحرام کو پرچم کی تبدیلی کی تقریبات میں لاکھوں لوگ شریک تھے اور کروڑوں لوگ اسے میڈیا کے ذریعے دیکھ رہے تھے۔ حرم کی انتظامیہ نے زبردست فیصلہ کیا اور اس تقریب کو تقریب عظمت قرآن میں تبدیل کر دیا۔ لاکھوں لوگ قرآن سینوں سے لگائے ہوئے ہیں اور سٹیج سے عظمت قرآن بیان کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں یہ پیغام اس پیغام سے زیادہ موثر ہے، جس میں جلاو گھراو کیا جاتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ کہ ایسے واقعات تہذیبی غلبے کے لیے کرائے جاتے ہیں، اس کے باوجود ہمارا ردعمل ہمارے اختیار میں ہونا چاہیئے۔ این ای ڈی یونیورسٹی میں پاکستان سطح کا سب سے بڑا یوم حسینؑ منایا گیا۔ اس پروگرام میں آیت اللہ سید عقیل غروی تشریف لائے، اس پروگرام کو لائیو بھی اور بعد میں سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں دیکھا گیا۔ اس کا وہ منظر ایمان افروز تھا، جب سیکڑوں بچے اور بچیاں اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر قرآن کو فضا میں بلند کرکے عظمت قرآن کا عملی اظہار کر رہے ہیں۔ ردعمل اپنے حساب سے ہوتا ہے، شاعر کا ردعمل سڑک بلا کرنا نہیں، شعراء کو چاہیے کہ عظمت قرآن پر قصیدے لکھیں، خطیب عظمت قرآن پر خطاب کریں، استاد اپنے لیکچرز کا موضوع قرآن قرار دیں، اہل قلم اپنے مضامین کو قرآن کے قالب میں ڈھال لیں اور سب سے بڑا جواب تو یقیناً یہ ہوگا کہ ہم اپنی زندگیوں کو قرآن کے مطابق ڈھال لیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply