فرانسیسی دھُن(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔ڈاکٹر شاہ زماں حق

میں نے دیکھا کہ ایک کونے میں چار پانچ گورے فرنچ آپس میں بات کر رہے ہیں۔ اُن کے بغل میں یوگی چُپ چاپ کھڑا تھا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ تم گفتگو میں شامل نہیں ہو؟

’اِنکی جو فرنچ ہے وہ بہت ہائی  لیول کی ہے۔ میں اِنکو فولو نہیں کر پاتا‘۔ یوگی نے مُسکراتے ہوئے رازدارانہ انداز میں کہا۔

میں یہ سُن کر ہکّا بکّا رہ گیا۔ جِس یوگی کو ہم نے توپ بنا رکھا ہے، وہ خود فرنچ سمجھنے سے قاصر تھا۔ اگر میں بھی تین چار مہینے محنت کروں تب یوگی سے ٹکّر لے سکتا ہوں۔

پھر میں نے یوگی سے پوچھا کہ وہ تَب ایسے اکیلے فرانسیسیوں کے بغل میں کیوں کھڑا ہے جَب اُن سے بات نہیں کرنی ہے؟ یوگی نے جواب میں کہا کہ جب بھی دو یا تین فرنچ آپس میں بات کرتے ہیں تو وہ کچھ دوری پر کھڑا ہوکر ان کی  باتوں کو سُنتا ہے اور فرنچ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ کس طرح سےFrench expressions بولے جاتے ہیں، لفظ کا صحیح صوت کیا ہے، کس طرح سے وہ اپنے ہندوستانی لہجے کی چھاپ کو فرنچ میں ختم کر سکتا ہے، فرانسیسیوں کے بولنے کا انداز کیسا ہے، وہ لفظوں کے درمیان کس طرح سے سانس لیتے ہیں، جملوں میں، syllables میں کیسے stress دیتے ہیں اور بالآخر نئے نئے الفاظ جو سُننے میں آتے ہیں، اُن کا  استعمال کس طرح سے کیا جاتا ہے۔ پھر یوگی نے آخر میں کہا کہ وہ ان ساری باتوں کو لائبریری یا گھر میں جاکر اپنی کاپی پر نوٹ کرتا ہے تاکہ وہ بھول نہ جائے اور پوری طرح سے اُسے جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

میں یوگی کی باتوں کو سُن کر کافی متاثر ہوا۔ اُس نے فرینچ سیکھنے کا ایک انوکھا قاعدہ بنا رکھا تھا۔ یوگی کی لگن و محنت دیکھ کر مجھے رشک آنے لگا۔

مدھیہ پردیش کے  چھوٹے سے شہر سَتنہ کا رہنے والا یوگی نے اپنی ابتدائی  تعلیم ہندی میڈیم سے کی تھی۔ بقول اُس کے انگریزی اُسکی کافی کمزور تھی۔ الیانس فرانسیز میں فرینچ سیکھنے کا طریقہ communicative approach پر مشتمل تھا۔ یعنی کہ فرینچ سیکھنے کے لئے ان نصابی کتابوں کا سہارا لینا پڑتا جہاں ابلاغ کا ذریعہ کافی اہم کرادار ادا کرتا ہے۔ تصویروں کی مدد سے اور اساتذہ اپنے ہاتھ کے اشاروں سے فرانسیسی الفاظ یا جملوں کو بِنا ترجُمہ کئے ہوئے ذہن نشین کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن باوجود اسکے کچھ طالب علموں کو لغت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ فرانسیسی- ہندی بائی لنگول لغت تو دستیاب تھی نہیں، مجبوراً یوگی کو فرانسیسی- انگریزی لغت کا مُطالعہ کرنا پڑتا۔ ایسے میں اُسکی محنت دُگنی ہو جاتی۔ فرانسیسی لفظ جب دیکھنے جائے تب انگریزی کا لفظ سَر سے باؤنسر کر جائے۔ انٹرنیٹ اُس زمانے میں مہیا نہ تھا کہ کسی لفظ کا مفہوم آسانی سے ڈھونڈ لیا جائے۔ یوگی نے فرانسیسی سیکھنے کے لئے فرانسیسی کہاوتوں اور محاوروں پر زور دینا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ اُس کی فرینچ اچھی ہوگئی۔

پونڈی چیری شہر میں کھانے پینے کا نظام یہ تھا کہ پورے شہر میں صرف ایک شمالی ہند کا ریستوراں تھا۔ اس کا مالک شاید پنجابی تھا۔ وہ واحد ریستوراں تھا جہاں ہندی بولی جاتی تھی۔ میں صرف ایک بار یوگی اور اس کے شہر کا ہی ایک دوست راجول کے ساتھ وہاں شام کا کھانا کھانے گیا تھا۔ جب بھی پونڈی چیری میں کوئی  فرد شمال ہند سے آتا تو یوگی رَسماً اسے وہاں لے جاتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ کمیشَن کاکوئی  چَکّر تھا البتّہ جنوبی ہند کا کھانا دن میں تین بار کھانا سب کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس ریستوراں کا نوّے فیصد گاہک شمالی ہند سے تھا۔

مہینے کا میس جس میں دو وقت کا کھانا شامل تھا، کی قیمت ایک ہزار تھی۔ میں جب یوگی اور راجول کے ساتھ گیا تو پھر دوبارہ اس ریستوراں کا رُخ نہیں کیا۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ مجھے دوسا اور اِڈلی کھانے میں کوئی  پریشانی نہیں تھی تاہم مجھے وہی زیادہ پسند آنے لگے تھے۔ بَجَٹ کے حساب سے لوکل کھانا ہونے کے ناطے سَستے تھے جبکہ شمالی ہند کا کھانا مہنگا تھا کیونکہ نایاب تھا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ وہاں کھانے والوں کا جو ہجوم تھا وہ سب شرابی تھے اور روز بعدِ عَشا شراب پی کر ٹُل ہو جاتے۔ تو یہ ماحول مجھے ناگوار لگی۔ کہا جائے تو پونڈی چیری خود شراب کی دلہن ہے۔ یونین ٹیریٹیری ہونے کے ناطے شراب پر ٹیکس شاذ و نادِر تھا یا پھر نہ ہونے کے برابر تھا۔ دور دراز سے لوگ شراب خریدنے یہاں آتے۔ اکثر ہائی وے پر یا بسوں میں پولیس کا دستہ پیٹرولنگ کرتا کیونکہ پونڈی چیری میں شراب آکر پی سکتے ہیں لیکن شہر سے باہر نہیں لے جا سکتے۔ اس پر سخت پابندی تھی۔

شمالی ہند کے بہت سارے طلباء جم کر شراب پیتے۔ اتنی پیتے کہ جو مہینے کی رقم وہ اپنے گھر سے منگواتے تھے اسی میں صرف کر دیتے اور پھر بقیہ مہینہ عُسرت کے مارے ادھاری پر زندگی بسر کرتے۔ ایک لڑکا جس کا نام پَنکَج تھا اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک بار کمرے کا کرایہ دے کر پینے بیٹھ گیا اور روز اتنی پینے لگا کہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی پوری رقم ختم ہوگئی۔ تب سے اس نے تہیّہ  کیا کہ میس کی رقم پیشگی میں جمع کریگا۔ پھر اسے کو ئی ٹینشن نہیں تھی۔

یوگی کا دوست راجول بھی بہت بڑا شرابی تھا۔ یوگی راجول کو بہت مانتا تھا۔ دونوں ذات کے لالہ تھے۔ یوگی خود کہتا کہ یہ بھی شریواستَو اور میں بھی شریواستَو۔ راجول چھ فٹ لمبا، خوبصورت نقش، چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ، نشیلی مدھم سُرخ آنکھیں، چھریرا بدن کا مالک تھا۔ بالکل فلمی ہیرو کی طرح۔ میں راجول کی پرسنالٹی سے بہت متاثر تھا۔ وہ کم سخن تھا۔ مجھ سے بہت گرم جوشی سے ملتا۔ میں اسے اپنا دوست بنانا چاہتا تھا لیکن اس نے کبھی بھی مجھے خاص لفٹ نہیں دی ۔ میرے کئی بار اصرار کرنے پر بھی نہ ہی وہ میرے ساتھ کہیں چائے پینے جاتا نہ ہی کبھی ساحل کی طرف ٹہلنے جاتا۔ کچھ دنوں کے بعد میں سمجھ گیا کہ راجول کوروز شام شراب کے نَشے میں مغروق ہونا زیادہ پسند تھا اور وہ انہی لوگوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا جو اسکے ہم پیالہ تھے۔

جب بھی راجول سے میری ملاقات الیانس فرانسیزمیں ہوئی  اُسکی آنکھیں ہلکی نشے میں چور تھیں۔ جب میں اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھتا تو وہ کہتا کہ”بھائی  میں پیتا ہوں، اس لئے میری آنکھیں ایسی ہیں“۔ میں اسے جواب دیتا کہ”تمہاری یہ آنکھیں نایاب ہیں، مجھے اسی طرح پسند ہیں“۔ وہ برجستہ ہنس دیتا۔

راجول کو آج تک میں نے فرانسیسی کا ایک بھی جُملہ ادا کرتے نہیں سُنا تھا۔ مجھے شَک تھا کہ اس نے کچھ سیکھا بھی ہے یا نہیں۔ راجول کے مانند شمالی ہند سے آئے ہندی بولنے والے طلبا ء بھی فرینچ میں آپس میں بات چیت نہیں کرتے تھے۔ ان کی پرابلم یوگی والی تھی کہ وہ سبھی کے سبھی ہندی میڈیم سے تھے اور انہیں انگریزی شُد بُد آتی تھی۔ اوپر سے مجھے کچھ ایسے بھی لگے جنہوں نے شاید اسکول بچپن ہی میں چھوڑ دیا تھا۔

اِن میں سے زیادہ تر راجستھان کے طلباء تھے، لیکن سب کا، حتّی کہ یوگی اور راجول کا بھی، فرینچ سیکھنے کا واحد مقصد ٹور ایجنٹ بننے کا تھا۔ کئی تو پہلے ہی سے راجستھان میں کئی سالوں تک سیاحت میں کام کر چکے تھے۔ ان کے کلائینٹ فرانسیسی تھے۔ ان کو فرینچ ایسی آتی تھی جیسے کسی طوطے نے رٹ رکھا ہو۔ دراصل انہوں نے قدیم عمارتوں یاکوئی  مقبول جگہ کے بارے میں فرّاٹے سے تاریخی اور ثقافتی پہلو پر ایک لمبی تقریر دینے کی پریکٹس فرینچ میں کر رکھی تھی۔ یوگی ان کی  فرینچ کا مذاق اُڑاتا۔ وہ کہتا کہ یوں تو یہ رَٹّے میں ماہر تھے لیکن اگرکوئی  فرینچ میں اِن سے اِکّا دُکّا معمولی سوال پوچھ لے تو ان کی نانی مر جاتی۔

پونڈی چیری کی میری یہ کہانی ادھوری رہ جائے گی  اگر میں نے ایک شخص کا ذکر نہ کیا جس کی صحبت سے مجھے فرینچ سیکھنے میں کافی استفادہ ہوا۔ یہ حضرت تھے پونڈی-فرینچ اَجوئے۔ ذات کے برہمن، عمرکوئی  چالیس سال، غیر شادی شُدہ اور کم سخن۔ اجوئے کا قد زیادہ نہ تھا، تقریباً پانچ فٹ دو یا تین انچ ہوگا۔ سر پر نیم سفیدگھُنگھریلے بال، کلین شیو، بڑی بڑی آنکھیں، ہمیشہ ہالف آستین شرٹ اور بیل بوٹم پینٹ میں ملبوس رہتا۔ اجوئے کے پاس ایک سائیکل تھی جو اس کے ساتھ ایسے رہتی تھی جیسے آج کے زمانے میں ہمارے ساتھ موبائل فون رہتا ہے۔

انتہائی ذہین، ڈاکٹری پڑھنے وہ فرانس گیا تھا لیکن اس کا سر ایسا گھوما کہ دنیاوی پڑھائی سے اس کا دل بیزار ہو گیا۔ اُس نے اپنا ایک گُرو بنارس میں ڈھونڈ نکالا لیکن گھر والوں نے اسے شمالی ہند جانے کی اجازت نہیں دی۔ فرانس سے واپس لوٹنے کے بعد وہ پوری طرح سے بیکار ہو چکا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ شمالی ہند جائے اور ہندی سیکھے۔ گھر میں باپ کی موت کے بعد صرف ماں بچی تھی۔ اجوئے نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر ماں مر جاتی تو گھر اور سارے سامان بیچ کر بنارس کی  طرف روانہ ہو جاتا۔

اجوئے کو تَمِل زبان نہیں آتی تھی۔ بچپن سے وہ فرینچ میڈیم سکول میں گیا کیونکہ اسے فرانسیسی شہریت مل چکی تھی۔ باپ سے وہ فرینچ میں بات کرتا لیکن ماں کو گنتی گننے کے یا علیک سلیک کہ سِوا فرانسیسی نہیں آتی تھی۔ اجوئے کو تمل اتنی آتی تھی کہ وہ اکثر لوگوں سے تَمِل میں وقت پوچھتا۔ وہ گھڑی خاص کر نہیں پہنتا تھا تاکہ کچھ دو لفظ دوسروں سے اس بہانے بول سکے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اپنی ماں سے اُسکی گفتگو کیسے ہوتی ہوگی۔

ہندی سیکھنے کے غرض سے اُس نے پونڈی چیری کا الیانس فرانسیز کا چَکّْر لگانا شروع کر دیا۔ اسے معلوم تھا کہ وہاں شمالی ہند سے ہندی بولنے والے کافی طلباء آتے ہیں۔ لیکن الیانس فرانسیز میں اُسکی بات نہیں بن پائی۔ لوگ اسے سنکی کہتے تھے۔کوئی  اسے اہمیت نہ دیتا۔ اجوئے کو جب میں نے دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک خوفناک استغراق کا غلبہ تھا لیکن ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں لوگوں سے رشتہ بنانے کی ایک تڑپ تھی۔ ہم دونوں میں شاید بیک وقت ایک دوسرے سے بات کرنے کی امنگ پیدا ہوئی۔ پہلے اس نے ہی مجھے بونژور (صبح بخیر) کہہ کر مخاطب کیا۔ پھر باتوں کا سلسلہ چل پڑا۔

اجوئے کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ وہ بہت صابر تھا۔ وہ میری فرینچ کلام کو غور سے سنتا اور اس کی اصلاح کرتا۔ چونکہ اسے فرینچ کے علاوہ اورکوئی زبان نہیں آتی تھی، میرے لئے وہ بالکل آئیڈیل شخص تھا۔ میں نے سوچا کہ میں اس سے روز ملنے کا ایک معمول بنا لیتا ہوں۔ بات یہ طے ہوئی کہ وہ روز غروبِ آفتاب کے بعد مجھے الیاس فرانسیز میں ملے گا اور ہم دونوں ساحل کی طرف ایک لمبی سیر کے لئے نکلیں گے۔ اس کے دو عدد سگریٹ اور ایک چائے کا خرچہ میرے ذِمّہ تھا۔ ہم تقریباً دو گھنٹے روز فرینچ میں بات کرتے۔ اجوئے کو فرانسیسی زندگی، وہاں کی سیاست اور لوگوں کی ذہنیت کا اچھا تجربہ تھا۔ وہ ان باتوں کو فلسفی انداز میں سلیس فرانسیسی میں بیان کرتا۔

اجوئے کی صحبت میں زیادہ وقت گزارنے سے میں نے غور کیا کہ لوگ مجھ سے کنارہ کشی کرنے لگے ہیں۔ یوگی کو اجوئے پسند نہیں تھا لیکن اجوئے نے یوگی کی فرینچ کی کئی بار تعریف کی تھی۔ میری بھی خواہش ہوتی کہ وہ میری فرینچ کی  تعریف  کرتا لیکن وہ یہ کہتا کہ تمہیں آجائے گی۔

ہیمنت کی دوستی ایک ساٹھ سالہ فرانسیسی بُرونو سے ہوگئی۔ ہیمنت کی سپوکین فرینچ کی مشق بخوبی چل رہی تھی۔ نہ معلوم بُرُونو کو ہیمنت پر ایسا کیا اعتبار ہوگیا تھا کہ اُس نے ہیمنت کو اپنے گھر پر دعوت دی۔ اپنی لوکل تَمِل بیوی جو عمر میں اُس سے ایک تِہائی کم ہوگی، ہیمَنت سے اُس کا تعارف کرایا۔ اکثر ہیمنت کو اور اپنی بیوی کو اکیلے چھوڑ کر سودا لانے کا بہانہ کر کے باہر چلا جاتا۔ ایک مرتبہ تو اُس نے جانے سے پہلے ہیمنت کو فرینچ عریانی کومِکس پڑھنے کے لئے ہاتھ میں تھما دیا اور تُرَنت اپنی سائیکل لیکر باہر چلا گیا۔ ہیمنت تو اُس گھر میں فرینچ پڑیکٹِس کرنے جاتا تھا لیکن یہاں منظر کچھ اور ہی تھا۔ اُس نے کومکس کی کتاب کو ایک کونے میں رکھا اور فوراً گھر سے باہر نکل آیا۔ یہ ساری باتیں تو اُس نے اپنے نورتھ انڈین سَرکَل سے مُخفی رکھی، مجھے یہ پورا ماجرا گویا ایک ہی سانس میں کہہ سُنایا۔ میں نے اُسے تاکید کی کہ بُرُونو سے کنارہ کشی کر لے اور کسی نئے فرینچ پارٹنر کو دھونڈ کر زبان کی مشق کرے۔

پونڈی چیری سے میں اچانک واپس آگیا۔ مجھے شہر راس نہیں آیا۔ دوسا اور اِڈلی سے دل بھر گیا تھا۔ دِلّی کو کافی مِس کر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہاں ہزاروں لوگ میرے منتظر تھے۔

آج تقریباً بیس سال بعد فرانسیسی زبان میری  زندگی کا اہم حصّہ بن چکی ہے۔ میں تو فرانس ایک سال کے لئے وظیفے پر آیا تھا لیکن مقدّر میں شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ میری مُلازمت بھی اتفاقاً فرانس میں ہوگئی۔

یوگی کبھی فرانس نہیں آسکا۔ اُسکی بہت تمنّا تھی کہ وہ فرانس کا سفر کرے۔ اس نے کئی لوگوں کو میرا حوالہ دیا کہ شاہ زماں فرانس میں رہتا ہے، وہ مجھے ضرور بلائے گا۔ اب ہم صرف فیس بُک پر دوست ہیں اور رسماً کبھی کبھار ایک دوسرے سے کلام کر لیتے ہیں۔ راجول ایک فرانسیسی بینک میں جس کی  برانچ انڈیا میں ہے اُس میں نوکری کر رہا ہے۔ اُس نے شادی فرانسیسی خاتون سے کی تھی۔ وہ دونوں بنگلور میں رہتے ہیں۔ راجول کئی بار فرانس اپنے سسرال آ چکا ہے۔ ہمارے بیچ میں کبھی دوستی نہیں ہوسکی لیکن اب بھی وہ میرے پونڈی چیری میں فرانسیسی کلاس کا سب سے من پسند ساتھی ہے۔ ہیمَنت کی ملازمت فرینچ کی بنیاد پر ایک سیاحت کی کمپنی میں ہوگئی۔ فرانس وہ گھومنے کے لئے ہر دو چار سال پر آتا ہے۔ فرینچ بولنے میں ابھی بھی وہی پہلی والی ہِچکِچاہٹ ہے –  اَجوئے کی کوئی خبر نہیں ہے۔ سب سے زیادہ میں اُسے مِس کرتا ہوں۔ اُس کی گلی کا نام اور نمبر مجھے زبانی یاد ہے۔ پندرہ سال قبل فرانس سے میں نے اُسے ایک پوسٹ کارڈ بھی بھیجا تھا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ یہ ممکن ہے کہ اُس کی ماں ختم ہوگئی ہو اور وہ بنارس میں اپنے گُرو کے دربار میں میڈیٹیشن کر رہا ہو۔ آج بھی مجھے اُس کی شِدَّت سے تلاش ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پونڈی چیری کے بارے میں جب بھی مجھے خیال آتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ہندوستان میں میرا چھوٹا سا فرانس تھا۔ تاہم آج میں اصلی فرانس میں ہوں، مجھے ہندوستان والا فرانس زیادہ عزیز ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔