• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عہدِ تار کی واپسی(پروفیسر خالد سعید کے انٹرویو کی تشریح)۔اختر علی سید

عہدِ تار کی واپسی(پروفیسر خالد سعید کے انٹرویو کی تشریح)۔اختر علی سید

ہوسکتا ہے اس تحریر کے عنوان کو دیکھ کر آپ کے ذہن میں ناول “ٹارزن “کی واپسی” یا پھر “ڈریکولا کی واپسی” نامی فلم کا خیال آیا ہو۔۔ اگر آیا بھی ہے تو کچھ غلط نہیں ہوا۔۔ عہد تار
Dark Agesکی واپسی کا اعلان میرےذی قدر استاد پروفیسر خالد سعید صاحب نے برادرم علی نقوی کو دیئے گئے انٹرویو میں فرمایا ہے۔ یہ اعلان جتنا بڑا ہے اتنا زیادہ پریشان کن بھی ہے۔۔۔یہ بات کسی ہما شما نے نہیں کی۔۔جو لوگ پروفیسر صاحب کے علم اور فضل سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایسی باتیں پروفیسر صاحب جیسے لوگ رواروی میں نہیں کرتے۔ پروفیسر صاحب کوئی نعرہ باز انسان نہیں ہیں جو لوگوں کا آنے والے وقت سے ڈراتے رہتے ہیں۔۔میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب یا تو خود اس اجمال کی تفصیل تحریر فرمائیں یا پھر ان کا ایک مفصل انٹرویو صرف اس موضوع پر کیا جائے اور ان سے عہد تار کی تفصیلات جانی جائیں۔
زندگی میں جن لوگوں نے اس طالبعلم کو بے حد متاثر کیا ہے ان میں سے ایک پروفیسر خالد سعید صاحب بھی ہیں۔ نفسیات کا سب سے پہلا سبق پروفیسر صاحب نے ہی دیا تھا ۔مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ پروفیسر صاحب سے کسبِ فیض کا جوسلسلہ بتیس سال پہلے شروع ہوا تھا آج تک جاری ہے۔۔ان کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں ان کے اس فرمان کی ایک ممکنہ توضیح کرنے کی کوشش کرنے جا رہا ہوں۔
عہد تار
Dark Agesیا ازمنہ وسطٰیMiddle Ages کم و بیش ہزار سال پر محیط وہ عرصہ ہے جس کی طوالت پر اختلاف ہے۔ نشاۃ ثانیہ کی اصطلاح پر بھی اختلاف ہے۔۔ ذرا ان اصطلاحات کی تعریفات پر موجود اختلافات کو فی الوقت نظر انداز کیجیے۔۔اس لئے کہ ان اصطلاحات کی جو بھی معنی ہوں اس بات پر اتفاق ہے کہ یورپ پر پانچ سو سالہ یا ہزار سالہ طویل ایک ایسا دور گزرا ہے جو علمی اور ذہنی انحطاط کا زمانہ تھا۔۔اس تاریک دور کی تفصیلات آج کل کمپیوٹر پر ایک کلک کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس تاریک دور کے ایک پہلو پر ماہرین, مورخین اور علماء میں اتفاق موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ ایک مذہبی ادارے (کلیسا) کی مکمل اجارہ داری کا زمانہ تھا۔ سر دست اس اجارہ داری کے دو مختلف مگر باہم متصل پہلؤوں کو ذہن میں رکھیے۔ ایک یہ کہ انفرادی یا اجتماعی زندگی کا کوئی فیصلہ مذہبی پیشواؤں کی مرضی اور شمولیت کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ مذہبی رہنما ہر امر پر فیصلہ سازی کے لیے مقدس کتابوں, اقوال اور استنباط سے دلائل دیتے تھے ۔۔اس کا لازمی نتیجہ دوسرا پہلو ہے۔ اس صورتِ حال میں علمی ترقی کا رکنا لازمی تھا. علمی ترقی پہرے میں ممکن نہیں ہوتی۔ آزاد سوچ اورفکر علمی ترقی کے لئے خشت اول کا کام کرتی ہے۔ مذہبی اداروں نے آزاد سوچ اور فکر کو مذہب سے انحراف قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی کے دو پہلو سامنے رکھئے۔ کہیں یہ پابندی جبر کےذریے لگائی گئی۔ مفکرین اور سائنسدانوں پر چلنے والے مقدمات اور ان کو دی جانے والی سزائیں اس جبر کی مثال ہیں۔ لیکن کہیں یہ پابندیاں احساس گناہ پیدا کر کے لگائی گئیں۔ جہاں کوئی ایسا خیال ذہن میں آیا کہ جس کے بارے میں غیر مذہبی ہونے کا شائبہ بھی ہوتا شدید احساسِ گناہ میں مبتلا ہوکر فرد اس خیال کو رد کردیتا۔ یہ احساس گناہ فرد کو پہلے سے زیادہ مذہبی ہونے اور نئے خیالات کو پہلے سے زیادہ شدت سے رد کرنے پر مجبور کر دیتا۔
کلیسا نے یہ دونوں کام نہایت کامیابی سے ایک طویل عرصے تک کیے لیکن وقت کے پہیے کو روکنا کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا۔بائیں بازو کی فکر سے منسلک ہمارے دوستوں نے ہمیں یہ بات بہت اچھی طرح سے سمجھائی اور پڑھائی ہے کہ اگر وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کو روکنے کی کوشش کی جائے تو اس سے دنیا میں تشدد پھیلتا ہے۔ جنگیں ہوتی ہیں اور خون بہتا ہے۔ عہد تار میں علمی ترقی اور تبدیلی کو روکنے کی کوشش میں تشدد بھی پھیلا۔ جنگیں بھی ہوئیں۔ گلے بھی کٹے۔ عدم برداشت کا چلن عام ہوا۔ اختلاف برداشت کرنے کا رواج ختم ہوا۔۔۔ سب کو اپنے جیسا بنانے پر اصرار کیا گیا لیکن اس دور کو ختم ہونا تھا اور ایسا ہو کر رہا۔
کیا پروفیسر خالد سعید صاحب اس دور اور ایسے حالات کی واپسی کا اشارہ فرما رہے ہیں؟ ایسا سمجھنا شاید درست نہ ہو۔ اس لئے کہ اب کوئی ایک ایسا مذہبی ادارہ دنیا میں موجود نہیں ہے جو اپنی اجارہ داری میں تاریک دور کے کلیسا کی اجارہ داری کا مقابلہ کر سکے۔۔اپنے ماننے والوں کی تعداد کے اعتبار سے دو بڑے مذاہب عیسائیت اور اسلام لاتعداد فرقوں میں تقسیم ہیں۔ ہر فرقے کا اپنا ایک ادارہ ہے۔ مذہبی اداروں کا ریاست سے تعلق بھی ہر ریاست میں مختلف ہے۔۔کہی ان اداروں کا اثر اور رسوخ زیادہ ہے اور کہیں کم۔ اہم بات یہ ہے کہ مغرب میں یہ مذہبی ادارے علمی ترقی اور سماجی تبدیلی کو روکنے کی صلاحیت کو مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔۔۔ علمی ترقی اور تبدیلی نے اپنا راستہ بنالیا ہے اور وہ اپنے راستے پر گامزن ہیں۔ علمی ترقی کے بارے میں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ ترقی بنیادی طور پر ٹیکنالوجی کی ترقی ہے نوع انسانی کی جذباتی اور سماجی نشو نما بہت پیچھے رہ گئی ہے۔۔ ۔۔۔ یوں تاریک دور سے مماثلت کا ایک اور پہلو بھی بحث سے خارج ہوگیا۔ اب سوال یہ بچہ کے پھر تاریک دور کی واپسی کے اعلان کا مطلب اور اس کی وقعت کیا ہے۔۔
ذرا ان جنگوں پر نظر ڈالئے جو اس وقت دنیا پر مسلط ہیں یہ اتفاق نہیں ہے کہ انکی اکثریت مسلم ممالک میں جاری ہے۔ مسلم علاقوں میں جاری ان جنگوں میں فرقہ واریت کا پہلو نمایاں ہے۔۔ لیکن کیا یہ جنگی اصل میں مذہبی جنگیں ہیں؟ پروفیسر خالد سعید صاحب اپنے ایک انٹرویو میں ان جنگوں کے جاری رہنے کی پیش گوئی فرما چکے ہیں۔ ان کے خیال میں جنگ اب ایک صنعت ہے۔ اس سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے اسلحہ ساز فیکٹریوں کے چلنے کی اب ایک ہی صورت ہے کہ دنیا میں وقتاً فوقتاً جنگیں ہوتی رہیں۔ ۔ذرا حال ہی میں ہونے والے امریکا اور سعودی عرب معاہدوں اور نئے بننے والے اسلامی اتحاد کو یاد کیجئے۔۔ اگر ماضی میں جانا چاہیں تو آپ کو یاد دلاؤں کہ جب سن دو ہزار دو میں پاکستان اورہندوستان کی فوجیں سرحدوں پر ہتھیار بکف بیٹھی تھیں تو برطانوی وزیر خارجہ پاکستان اور اس کے بعد ہندوستان پہنچے اور کئی ملین پاؤنڈز کا اسلحہ دونوں ملکوں کو بیچ کر لوٹے۔۔
عہدتار اور اس دور کی جنگوں میں اس فرق کو نوٹ فرمائیں کہ عہدتار کی جنگوں میں مذہبی وجوہات کارفرما ہوتی تھی ( گو مکمل طور پر نہیں) مگر اب جنگ ایک کاروبار ہے۔ لیکن جنگ بہرحال جنگ ہے۔ عام فرد اور معاشرے پر اس کے اثرات ایک سے ہوتے ہیں اور سب سے بڑا اثر “خوف یا یہ احساس عدم” تحفظ ہوتا ہے۔۔۔یہ خوف افراد اور معاشروں میں سرایت کر جاتا ہے۔ جنگ مسلط ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والا خوف یا تو افراد کو بے محابہ لڑائی پر اکساتا ہے یا پھر فرار پر۔۔آپ بے سوچی سمجھی بے مقصد اور ناکام لڑائیوں کا مظاہرہ مسلم معاشروں میں دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔۔ خوف خدا لوگوں کا دوسرا عمل فرار ہوتا ہے یہ فرار بے محابہ لڑائی سے زیادہ بامعنی ہے۔۔ فرار کی ایک سادہ صورت حال تو وہ ہے کہ جب ہارنے والا فریق میدان جنگ چھوڑ دے۔۔ لیکن فرار ایک ذہنی کیفیت بھی ہے جس میں واپسی کا پہلو ہے انسان اپنے بچپن کو یاد کرکے آبدیدہ دیدہ کیوں ہو جاتا ہے؟ اس لئے کہ بچپن میں وہ مشکلات نہیں تھی جن کا سامنا انسان کو بڑا ہوکر کرنا پڑتا ہے۔ بچپن میں والدین کا تحفظ بھی موجود ہوتا ہے جو بڑے ہوکر چھن جاتا ہے۔ اپنے حالیہ مسائل سے ذہنی فرار بچپن کو یاد دلاتا ہے ہر انسان نشوونما کے مراحل طے کرکے اپنے گھر، وطن، کلچر، اور مذہب سے آگے نکلتا ہے اور اسے نکلنا چاہیئے۔۔یہ عمل اپنے گھر، شہر، وطن، کلچر اور مذہب میں مثبت تبدیلیوں کا سبب بنتا ہے۔۔ اس کے برعکس خوف پیچھے کا سفر ہے۔۔۔ ایک مثال دیکھیے۔۔ انسانی ارتقاء نے مختلف زبانوں کے ملاپ سے نئی زبانیں تشکیل دی ہیں موجودہ اردو جس کی ایک مثال ہے لیکن اگر اردو میں شامل دیگر زبانوں کے الفاظ کو نکالنے کی کوشش شروع ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے زبان کی ترقی کے سفر کو پلٹا دیا ہے۔۔
نو آبادیاتی نظام کے مطالعے کے ماہرین نے ایک اصطلاح استعمال کی ہے۔ جس کوEssentialismکہتے ہیں۔مختلف ماہرین نے اس کے مختلف معنی لیے ہیں مگر یہ طالبعلم اس اصطلاح کو گروہوں کے اپنے بنیادی عقائد اور تعصبات کی جانب لوٹنے کے معنی میں لیتا ہے۔مختصراً عرض کرتا ہوں کہ دنیا کے تمام معاشروں میںEssentialismکا عمل جاری ہے معاشروں نے آگے بڑھ کر دوسری ثقافتوں کو اپنے میں ضم کر کے نئی ثقافتوں کی تشکیل کا عمل روک دیا ہے۔ اس عمل کے بجائے انہوں نے اپنی ثقافتی اقدار پر اصرار کو شدید سے شدید تر کر دیا ہے۔۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے اعلانیہ کہا کہ مختلف ثقافتوں کے میلاپ کا ہمارا تجربہ ناکام ہوگیا۔
Brexitاور یورپ کے مختلف ممالک میں مہاجرین مخالف دائیں بازو کی جماعتوں کی کامیابی کا بڑھتا ہوا تناسب۔۔۔۔ سب اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔۔۔مسلم ممالک کے بارے میں یہ بات ثابت کرنے کے لیے جو کسی دلیل اور حوالے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔معاشروں کا یہ پہلو عہدتار کی مذہبیت سے مماثلت رکھتا ہے ۔ ہر شخص اپنی اصل کی جانب لوٹنے کی کوشش میں مصروف ہے اس کوشش میں ہر گروہ چھوٹے سے چھوٹا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس لیے کہEssentialismمعمولی اختلافات کو بھی ناقابلِ برداشت بنا دیتا ہے ہر گروہ اب زیادہ سے زیادہ خالص ہونے کی کوشش میں مصروف ہے نا خالص نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ ناقابلِ برداشت بھی ہے۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply