کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے؟۔۔ابصار فاطمہ

ہم جب کسی کو پسند کرنے لگتے ہیں، اس کااحترام کرنے لگتے ہیں یا اس سے رومانوی طور پہ جڑتے ہیں تو کچھ اول ترجیحات ہوتی ہیں جس کی بنیاد پہ ہم اسے پسند کرتے ہیں وہ ترجیحات اصولی ہوسکتی ہیں، مادی ہوسکتی ہیں، عقیدے کی بنیاد پہ ہوسکتی ہیں یا قدرتی کشش کی بنیاد پہ ہوسکتی ہیں۔ یعنی ہمیں کسی کی شکل اچھی لگتی ہے، کسی کی باتیں اور کسے کے لیے ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ اسے پسند کرنا ضروری ہے۔
پھر ہم اس حقیقت کا ادراک کیے بغیر کے وہ ایک مکمل الگ شخص ہے ہم اپنی پسند کے مطابق اسے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، یا تو ہم اپنے معیار سے ذرا بھی ادھر ادھر کوئی بات نظر آجائے تو وہ شخص دل سے اتر جاتا ہے۔ یا ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس میں وہ خوبی ہے جو ہمیں چاہیے۔ مثال کے طور پہ مجھے کوئی شخص اپنی ایمان داری کی وجہ سے پسند ہے۔ پھر مجھے پتا چلتا ہے کہ اس نے دھوکہ دہی کی۔ قدرتی طور پہ میں تنازعے کی کیفیت میں آؤں گی۔ یہاں اصولی طور پہ مجھے کرنا یہ چاہیے کہ میں عوامل کو دیکھوں تاکہ ثبوت مل سکے کہ وہ شخص دھوکے باز ہے یا اسے بدنام کرنے کے لیے یہ خبر پھیلائی گئی یا کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ لیکن عمومی طور پہ ہم یہ رویہ اختیار کرتے ہیں کہ ہم یہ قبول نہیں کرپاتے کہ ہماری پسندیدہ شخصیت میں کوئی برائی ہوسکتی ہے۔ ہم فوراً یا تو اس کو اپنی پسندیدہ شخصیت کی فہرست سے نکال دیتے ہیں یا ہم سرے سے جھٹلا دیتے ہیں کہ اس میں یہ خرابی پائی جاسکتی ہے۔
یہ عادت ہمیں بتدریج معاشرتی اقدار کے معیار پہ سمجھوتہ کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے کیوں کہ ہم ایسے افراد ہو پسندیدہ بنائے رکھتے ہیں جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہے اور ان کے غلط اعمال کو نہ صرف نظر انداز کرتے ہیں بلکہ اس کے لیے غیر منطقی جواز بھی گڑھ لیتے ہیں۔
دوسری طرف جب ہم اپنے معیار پہ شدید بے لچک ہوں تو ہم دوسرے کی بہت ذاتی بات کو بھی اپنی عزت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اسے معتوب ٹہراتے ہیں۔ مثلاً مجھے ایک اداکار پسند ہے۔ ساتھ ہی مجھے گانا سننا ناپسند ہے۔ لیکن اتفاقاً اس اداکار نے گانا گانا شروع کردیا اور میں نے اسے اپنی پسندیدہ اداکار کی فہرست سے نہ صرف نکالا بلکہ ناپسندیدہ لوگوں کی فہرست میں شامل کردیا کیوں کہ مجھے لگا کہ اس نے میری ترجیحات کے خلاف کوئی کام کیا ہے اور شاید اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان ترجیحات کی پاسداری کرتا.
یہ رویہ ہمارے لیے یوں تو عام زندگی میں مشکلات پیدا کرتا ہی ہے لیکن جب یہ بہت قریبی عزیزوں کے لیے اختیار کیا جائے تو اور مسائل کا باعث بنتا ہے۔ ہم ان سے ایسی توقعات باندھ لیتے ہیں جیسے انہیں کسی فیکٹری میں ہماری ترجیحات کی بنیاد پہ خاص تیار کیا گیا ہے اور ان کی اپنی کوئی ذاتی شخصیت پسند نہ پسند نہیں ہے نہ ہونی چاہیے۔ اس کا جواز ہم یہ پیش کرتے ہیں کہ ہم بھی اپنے پیاروں کے لیے اپنی فلاں فلاں پسند کی قربانی دے چکے ہیں۔
لیکن نکتہ یہ ہے کہ آپ کو ایک غلط رویہ اخیتار کرنے پہ مجبور کیا گیا اور آپ کو آپ کی اصل ذات کے ساتھ قبول نہیں کیا گیا یہاں آپ کا احتجاج اس سمت بنتا تھا جہاں آپ کو بدلنے پہ زور دیا گیا۔ کوئی تیسرا اس بات کا مستحق نہیں کہ آپ اپنے بدلے جانے کا غصہ اس پہ اتاریں۔
کہنے کو یہ چھوٹا سا بے ضرر سا رویہ ہے لیکن یہ ملکی اور عالمی سطح پہ بڑے بڑے مسائل پیدا کرتا ہے۔ ہمیں وہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس میں ہم بطور قوم سب سے اچھے ہیں، جب کہ ایسا ممکن نہیں۔ ہر قوم شعوری طور پہ وقت گزرنے کے ساتھ ارتقاء پذیر ہوتی ہے۔ یہ سمجھ لینا کہ ہم اس وقت بطور قوم جیسے ہیں کئی دہائیاں پہلے ہم اس سے نہ صرف بہتر بلکہ لاریب تھے صرف اس لیے کیوں کہ اس وقت ہمارا تقابل کیا جارہا ہے یہ منطقی طور پہ درست نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں ہم کئی حقائق کو نظر انداز کردیتے ہیں کئی ایسی شخصیات کو عظیم مان لیتے ہیں جن کی وجہ سے ہم مسائل کا شکار ہوئے اور چوں کہ ہم ان میں موجود عیبوں کو نظر انداز کر رہے ہیں اس لیے ہم بار بار نقصان اٹھائیں گے۔
حالیہ دور میں دیکھا جائے تو عمران خان، شہباز شریف اور بلاول بھٹو وغیرہ کی مثال سامنے ہے۔ ہر ایک کا حامی ان کی خامیوں کو سرے سے نظر انداز کر رہا ہے صرف اس لیے کیوں کہ وہ ان کا پسندیدہ رہنما ہیں۔ یہاں مسئلہ ان رہنماؤں کے اچھے برے ہونے کا نہیں ہماری ذاتی انا کا ہے۔ لیکن اسی جگہ کئی لوگوں نے عمران خان کو آنکھیں بند کرکے حمایت کی لیکن جب اسے ایک درگاہ پہ سجدہ کرتے دیکھا تو یہ حمایت چھوڑ دی۔ جب کہ یہاں اس کا یہ عمل بالکل ذاتی تھا اس کے ذاتی عقیدے کا اس کے سیاسی کردار سے لینا دینا نہیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ اکثر سیاسی شخصیات یہ اعمال بھی عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں کیوں کہ انہیں پتا ہے کہ ان کے کسی عمل کو ذاتی نہیں رہنے دیا جائے گا ایسے میں وہ بھی یہ سب سیاسی نکتہ نظر سے کرتے ہیں)۔
یہ باتیں عمران خان تک محدود نہیں ہمارے تقریباً تمام سیاسی رہنما اسی قسم کے دوغلے معیار اپنائے نظر آتے ہیں اور عوام انہیں نظریاتی بنیاد پہ پرکھنے کی بجائے جذباتی اور انا کے معیار پہ پسند کرتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے اس رویے سے ہماری فرقوں کی کتب بھی محفوظ نہیں۔ آپ کو ہر فرقے کی کتاب میں ایک ہی واقعہ نظر آئے گا لیکن اس واقعے کی تاویل یا تشریح الگ ہوگی خاص طور سے اس فرقے کی مقدس شخصیات کا کردار بے عیب پیش کیا جائے گا۔ ایسے میں ہم اہم تاریخی تنازعات کی کوئی واضح توجیہ پیش نہیں کرپاتے۔ اور بدلتے زمانوں کے ساتھ ساتھ ہم اپنی اخلاقیات اور نظریات کی بنیاد پہ اس میں تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ ان شخصیات کو ہمارے ذاتی پسند نہ پسند کے معیار پہ ہمارے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔ ان کی اپنی شخصیت تھی اپنی سوچ اور نظریہ تھا، زمانے سے متعلق اپنا الگ شعور تھا جسے ہم اپنے شعور کی ہی سطح پہ جواز دینے کی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے اپنے بدلتے شعور کے ساتھ ہمیں یہ جواز بھی بدلنے پڑتے ہیں۔ سادہ مثال قائد اعظم کی لے لیجیے ایک مذہبی شخص جب ان سے عقیدت رکھتا ہے تو ان کی شخصیت کسی مولوی کی بنا کے پیش کرتا جب کہ کوئی آزاد خیال جب انہیں پسند کرتا ہے تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ قائد اعظم کسی اخلاقی حدود و قیود کے حامی نہ تھے۔
یعنی ساری بات کا لب لباب یہ ہے کہ اگر کبھی کبھی آپ کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ جیسے ساری دنیا کو آپ کے لیے بنایا گیا ہے تو رکیے کیوں کہ ایسا نہیں ہے۔ اور اب دنیا کو ایسا دیکھنے کی کوشش کیجیے جیسی وہ ہے ویسی نہیں جیسی آپ زبردستی دیکھنا چاہتے ہیں۔
تحریر ابصار فاطمہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply