تربوز کے چھلکے جیسے بے کار لکھاری/یاسر جواد

کیا یہ یا اس قسم کی روایتی عبارت کوئی اہمیت رکھتی ہے؟ نہیں۔ کیا کوئی اِسے کبھی پڑھتا بھی ہے؟ نہیں۔ تحریروں کے چور اُچکے اِس عبارت سمیت پوری پوری کتاب چرا لینے کے عادی ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے نظامِ انصاف کی بدولت ہے۔
حال ہی میں حسن منظر صاحب کی کتب کا قضیہ اُٹھا۔ اُنھوں نے ساری عمر لکھا، گاہے بگاہے۔ ادبی میرٹ بعد کی بات ہے، لیکن اُنھوں نے لکھا۔ الفاظ کو جنم دیا اور کتابوں کو سیا۔ اُنھوں نے کتب چھپوانے کے لیے ایک پبلشر کو مسودہ بھیجا، مگر کسی وجہ سے بات نہ بنی تو دوسرے پبلشر سے رجوع کیا۔ ۔ٹھیک ہو گیا۔ لیکن مسودہ پہلے والے پبلشر کے پاس بھی موجود تھا۔ وہ بھی چھاپ رہا ہے۔ چیف جسٹس بیس اور پچاس روپے کے بیان حلفی اور مچلکے اور روبکاریں اور دیگر بکواسیات سے بھرپور نظام قائم رکھ کر بیٹھے ہیں۔
چنانچہ میں نے تہذیب کی کہانی کی پرنٹ لائن پر لکھا: اِس کتاب کا کوئی بھی اقتباس یا حصہ کسی بھی شکل میں نقل یا شائع کرتے وقت آپ پر قانونی، اخلاقی اور علمی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یعنی یہ آپ کی ذمہ داری ہے اگر آپ سمجھیں تو، قانون خصی ہے، اخلاقیات بانجھ ہے اور علم یونیورسٹیوں میں دفن ہے جہاں ڈِینوں اور سارا دن تنخواہ کا حساب کرنے والوں کا قبضہ ہے۔

’’مترجم اور ناشر سے پیشگی اجازت حاصل کریں اور مہذب ہونے کا ثبوت دیں۔‘‘ ایک ہارے ہوئے شخص کا مشورہ ہے۔ جو تہذیب کا مطلب بھی نہ جانتا ہو، اُسے مہذب ہونے کا ثبوت دینے کا مشورہ کیسا لگے گا؟ وہ ہنسے گا اور یونیورسٹیوں کے آگے اوبر کے انتظار میں کھڑی لڑکیوں کو زپ کھول کر دکھانے والے کی طرح طنزیہ ہنسی ہنسے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

حسن منظر کو کتاب ہاتھ میں پکڑ کر تصاویر لگوانا پڑ رہی ہیں کہ یہ میرا اصلی ایڈیشن ہے جو بک کارنر سے چھپا۔ وہ بھی صرف ہاری ہوئی شرم ہی دلا رہے ہیں۔ اگر اُنھوں نے کبھی قانونی چارہ جوئی کا سوچا تو باقی ساری زندگی خراب کریں گے۔ عدالت برے لوگوں کی معشوق ہے اور بُرے لوگ عدالت کے معشوق۔ ہم اُن کی مجامعت میں صرف ٹشو پیپر کا کام دیتے ہیں۔
بقول نزار قبانی، ’’ہم تربوز کے چھلکے جیسے بے کار ہیں۔‘‘

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply