ٹھنڈی بینکنگ – آنکھوں دیکھا احوال/عامر عثمان عادل

جب بھی کسی بینک جانا ہوتا ہے ہر بار یہ تاثر پختہ ہوتا ہے کہ نجانے کیا ہوا ہمارے بینکرز اور ان کا عملہ یخ بستہ ماحول میں بیٹھے ہوئے بھی چہروں پہ اکتاہٹ لہجوں میں کڑواہٹ لئے ہوتے ہیں
آج جی ٹی روڈ پہ واقع پنجاب بینک جانے کا اتفاق ہوا،نئی نویلی برانچ کسی دلہن کی مانند چمکتی دمکتی سجی سنوری،بہت سے کیبن خالی پڑے تھے گویا ابھی تعیناتی نہ ہوئی ہو،ایک خاتون غالبا آفیسر گریڈ میں اپنی سیٹ پہ بیٹھی تھیں ان کی جانب بڑھا وہ کھانا کھا رہی تھیں،معذرت کی کہ آپ کے کھانے میں مخل ہوا لیکن خدا خوش رکھے انہیں کھانا چھوڑ کر کہنے لگیں پلیز آپ بتائیں۔۔
جھٹ سے میری ڈپازٹ سلپ بھری اور کیشئر کی جانب بھیج دیا۔
کاؤنٹر پہ ایک خاتون کھڑی تھیں اور دو حضرات باری کے منتظر،ہم بھی انتظار میں بیٹھ گئے۔
ایک صاحب ہم سے بعد میں آ کے ہمارے ساتھ بیٹھے،اتنے میں سمارٹ خوبرو لمبے تڑنگے مینجر صاحب برانچ میں داخل ہوئے
بعد میں آنے والے نوجوان کو دیکھتے ہی اس کی جانب لپکے جو غالبا ً ان کا شناسا تھا
اس کے ہاتھ سے چیک لیا خود جا کے کیشئر کو تھمایا۔اور ان صاحب کو اپنے دفتر میں بلوا لیا۔

ایسا سلوک دیکھ کر احساس ہوتا ہے جیسے یہ دنیا صرف وی آئی پی لوگوں کے لئے بنی ہے، آپ کا کوئی ریفرنس ، حوالہ نہ ہو تو یہ عملہ آپ کو فٹے منہ نہ پوچھے۔یا تو آپ تگڑے کھاتہ دار ہوں یا پھر باہرلے ملک سیٹل۔

مینجر آپ کے آگے پیچھے ہی نہیں بلکہ آپ کی خاطر پوری برانچ میں تتلی کی مانند اُڑتا پھرے گا۔کیشئر لگتا تھا نیا بھرتی ہوا ہو، آپریشن مینجر مسلسل اس کے سر پہ کھڑے معاونت کرتے نظر آئے،خدا خدا کر کے میری باری آئی ،کاؤنٹر پہ پہنچا۔
حسب عادت کیشئر کو سلام کیا وہ میرے منہ کی طرف دیکھنے لگا، چیک دیا ،چند منٹ بعد مہربانی فرماتے ہوئے کہا آپ آپریشن مینجر کے کییبن میں تشریف لے جائیں۔
آپریشن مینجر صاحب کے پاس پہنچا سلام کیا وہ بھی منہ دیکھنے لگے۔
یوں لگا جیسے سلام دعا بینکنگ میں ممنوع عمل ہے۔

خیر ہم چیک دے کر بیٹھ گئے اور آپریشن منیجر ہمیں وہاں بٹھا کر شاید بھول گئے۔

جی تو پیارے دوستو
پوری برانچ میں مجھ سمیت صارف کتنے تھے 4 اور ایک چیک ڈپازٹ کروانے میں پورا سوا گھنٹہ خرچ ہوا۔
کاش کوئی مینجر صاحب کو یہ سلیقہ سکھا دے کہ کسی جاننے والے صارف کو پروٹوکول دینا دنیا داری کا تقاضا ہے اور بینکنگ کی مجبوری،لیکن طریق کار ایسا اختیار کر لیں کہ برانچ میں موجود عام صارفین کو اپنی کم مائیگی کا احساس تو نہ ہو۔

یوں باری کے منتظر بیٹھے صارفین کے سامنے بعد میں آنے والے صاحب سے چیک وصول کر کے کیشئر کو جا کے دینا پرلے درجے کا غیر پیشہ ورانہ رویہ نہیں کیا ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

بہتر نہ ہوتا وہ خاموشی سے انہیں اپنے دفتر لے جاتے پھر بھلے پوری برانچ ان کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے۔فقیروں کا بھیس بنا کر اہل کرم کا تماشا دیکھ کر باہر نکلتے ہوئے جب   میں نے  سیلفی لی تو سچ میں میرا Passion Reborn ہو چکا تھا ۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply