معاشرے کا ڈھانچہ/یاسر جواد

دو تین دن پہلے زبردست مایوسی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ پٹرول کی قیمت میں یک دم پچیس چھبیس روپے اضافہ ہونے سے ہر کسی نے ایک سنسنی اور خوف سا محسوس کیا۔ 172 سے 300 فی لیٹر تک قیمت ہونے پر اِس سے بھی زیادہ دہشت محسوس ہوئی تھی۔ اب اگلی باری آٹے کی ہے، پھر دوبارہ پٹرول بڑھے گا۔ پھر ڈالر بڑھے گا، اور ہم نیو ایئر منائیں گے۔
سب ایک دوسرے کو طعنے بھی دیتے ہیں اور اکساتے بھی ہیں کہ جب تک ’’لوگ‘‘ سڑکوں پر نہیں آئیں گے تب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کوئی خط غربت کے اعدادوشمار بتاتا ہے، کوئی ’عام‘ آدمی کے ماہانہ اخراجات کا تخمینہ پیش کرتا ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں پراجیکٹ عمران کا بہت بڑا ہاتھ ہے جو دس بارہ سال تک چلتا رہا اور سارے بچے کھچے سماج کو ہلا کر رکھ دیا۔ اب حالت یہ ہے کہ لوگ بے قیادت ہیں۔ شاید وہ سیاست میں مرنے مارنے کو تیار ہو بھی جائیں، لیکن اُنھیں راستہ دکھانے والا کوئی نہیں۔ اور لڑنا بھی کس کے خلاف ہے؟ امریکہ یا آئی ایم ایف کے خلاف؟ نظر نہ آنے والے مافیاؤں یا کمپنیوں کے خلاف؟ اور کس طرح لڑنا ہے؟
کوئی بھی سیاسی جماعت لوگوں کی نمائندگی کرنے کو موجود اور تیار نہیں۔ انسان شاید پوری تاریخ میں ایسی بری طرح نہیں ہارا تھا جیسے پاکستانی انسان ہارا ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نیک اور صالح بچے بن کر جی حضوری کر رہے ہیں۔ عمران خان کو نو مئی لڑ گیا۔ اور تینوں بڑی پارٹیوں کے حامی اب بھی ایک دوسرے سے بحث کرتے ہوئے گالیوں پر اُتر آتے ہیں۔
میڈیا کا کردار ہمیشہ جیسا ہے۔ لے دے کر سوشل میڈیا اِس طرح کی پوسٹوں سے کچھ کتھارسس کروا دیتا ہے اور بس۔ بیس پچیس کمنٹس، دو چار سو لائیکس، اور اگلا ایشو۔ گدھ بہت سمجھ دار ہوتے ہیں۔ جب تک لاش میں ذرا بھی حرکت محسوس ہو وہ قریب نہیں آتے۔ معاشرے کے ڈھانچے میں اب حرکت تو کیا ہڈیوں کے سوا کچھ نہیں بچا۔
مگر ہم زندہ ہیں۔ ہمیں غصہ بھی آتا ہے اور بے بسی بھی ہے۔ قدیمی انسان اپنے مُردے کو کھا لیا کرتے تھے، کیونکہ اُن کا کہنا تھا کہ دفن کرنا تو اچھی ضیافت کو ضائع کرنے والی بات ہے۔ فکر نہ کریں، ابھی 25 کروڑ ضیافتیں باقی ہیں۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply