دُمانی کے دامن میں(قسط1)/محمد عظیم شاہ بخاری

چند سال پہلے کی بات ہے،جب پنجاب کے ایک کونے میں صحرائی  علاقے کے ایک شخص کی پہاڑوں سے محبت نے جوش مارا تو اس نے اپنے ملک میں موجود اپنی پسندیدہ پہاڑی چوٹیوں کو قریب سے دیکھنے اور سراہنے کا ارادہ بندھا ،کیونکہ انہیں سَر کرنا اس کے بس میں نہ تھا۔

 

 

 

 

قاتل حسینہ عرف مرشد عرف نانگا پربت اس لسٹ میں  پہلے استھان پہ براجمان تھے سو کسی تیرتھ یاترہ کی طرح کڑی تپسیا کے بعد اس تک پہنچا گیا۔جب دوسرا نمبر دمانی یعنی قراقرم کے تاج محل کا آیا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس بار اسے ایک نہیں دو پربتوں کی آغوش میں جگہ ملے گی۔

ایک برف کے سفید برقعے میں سر ڈھانپے راکاپوشی

دوسری الہڑ اور شوخ دیران پیک۔۔

ابتدا ہوئی  بے وفاؤں  سے وفا کی اُمید لگانے سے۔ یعنی کسی ایسے دوست کو ڈھونڈنے کی جو اس سفر میں ہمارا ہمسفر و ہم پیالہ بن سکتا لیکن۔۔۔۔۔۔۔

حیف

دل نادان نے سوچا کہ کسی کے آنے یا نہ آنے سے اپنا من کیوں ماروں، سو اُٹھ باندھ کمر ،کیا ڈرتا ہے ،کے مصداق تیاری شروع کی۔

مناپن میں اپنے دوست سلمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ ٹریک کروانے کی حامی بھر لی اور جون میں آنے کا کہا۔

سو جون تک صبر کیا

کام کیا تاکہ چھٹیاں لی جا سکیں

اور دیکھتے ہی  دیکھتے 31 جون آن  پہنچا، جب عید کے دوسرے دن مابدولت بارہ گھنٹے کی ایمرجنسی ڈیوٹی بھگتا کر  تھکے ہارے سامان سمیت لاری اڈہ جا پہنچے۔

آپ کوسب کچھ بہت سیدھا لگ رہا ہے نا

لیکن ٹھہریئے۔۔۔۔۔

کچھ مرشد اپنے مریدین سےخراج بھی وصول کرتے ہیں

ہم سے بھی کیا گیا، اور ہم نے یہ خراج ادا کیا

اور ایسا دیا کہ گھر پہنچنے تک یہ سفر ہم سے کچھ نہ کچھ قربانی مانگتا رہا۔
بس آنے کے ٹائم پہ معلوم ہوا کہ جس بس نے نکلنا تھا وہ تو خراب ہے اور ابھی ورکشاپ میں اپنا میک  اپ کروا رہی ہے
اب۔۔۔؟؟
اب یہ کہ بھاگم بھاگ باقی جگہوں سے پوچھا لیکن شہرِ اقتدار کو کوئی بس میسر نہیں۔کل کی ٹکٹ بھی کروا چکا تھا ہنزہ کے لیے۔ اللہ نے ایک اور موقع دیا اور مجھے کھاریاں کی بس مل گئی کہ پنڈی سے کچھ ہی دور تو ہے۔
سوتے جاگتے صبح سویرے بس نے کھاریاں پہنچا دیا۔
اب کیا کیا جائے۔ ؟؟ منہ ہاتھ دھونے کے بعد سوچا
جو ملتا ہے اللہ کا نام لے کے  سوار ہو جا، اندر سے آواز آئی۔
اب اس وقت کوئی لگژری بس تو ملنے سے رہی سو پنڈی  جانے والی ویگن کی آخری سیٹ پہ تین لوگوں میں پھنس کے بیٹھنا پڑا۔
جی ٹی روڈ اور ڈرائیور دونوں نے قسم کھا رکھی تھی کہ میری نیند نہیں پوری ہونے دینی سو جہاں مابدولت کی آنکھ لگتی حضرت ڈرائیور کہیں کوئی کھڈا ڈھونڈ کر  اس میں گاڑی گھسا دیتے
دھم کی آواز آتی اور ہم اٹھ بیٹھتے۔
اللہ اللہ کر کے  بس نے ہمیں روات اتار دیا۔
اب آگے کیسے جایا جائے، عید کا تیسرا دن اور کوئی گاڑی ٹیکسی کا وجود نہیں۔ دوست کو کال کر کے  بلانے میں جھجک محسوس ہوئی، معلوم تھا کہ وہ سو رہا ہو گا۔ مجبوراً دھوپ میں اپنا سامان لے کر  بیس منٹ بعد اپنے دوست معاذ کے گھر پہنچا اور تین چار کالز کے بعد اسے جگایا۔ بھئی اب ہم سحر خیز ہیں تو اس میں ہماری کیا غلطی ہوئی ۔

معاذ کی والدہ اور اپنی آنٹی  سے مل کے  ڈھیر ساری باتیں کیں تو ذہنی تھکن اتر گئی۔ جسمانی تھکن بھی تو اتارنی تھی سو جب تک نیند قسمت میں لکھی تھی تب تک پلنگ توڑتے رہے۔ عموماً مجھے سفر کے بیچ کہیں زیادہ نیند نہیں آتی، بس دو ڈھائی گھنٹے بعد ہم انگڑائی لے کے  بیدار ہوئے اور پھر سے باتوں میں لگ گئے۔
اتنے میں ہمارے دوست سلمان حیدر خان کی کال آئی :
شاہ جی، ایک دوست کراچی سے آئے ہیں جنہوں نے راکاپوشی سے آگے دیران پیک بیس کیمپ اور کچیلی لیک تک جانا ہے۔ آپ ساتھ چلنا چاہیں گے۔ ؟
اچانک پلان میں تبدیلی کا سن کے  پہلے تو خود کو کول ڈاؤن کیا اور کچھ وقت مانگا۔ فوراً کیلنڈر کھول کر  تاریخیں اور دن دیکھے کہ کتنے دنوں کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ چونکہ دیران میں ایک ڈیڑھ دن اضافی درکار تھا سو سلمان سے بنیادی معلومات لے کے جھٹ سے ہاں کہہ دی۔ لیکن اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا یہ فیصلہ آگے چل کے  مجھے کتنا خوار کرے گا۔
خیر، اب راکاپوشی جائیں اور خواری نہ ہو تو ایسا ممکن ہی نہیں۔

آنٹی فرحت کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو کر  ہم اس فیملی کے ساتھ بس اڈے چل دیئے۔ اسلام آباد کے ہمارے کچھ جاننے والوں میں یہ چھوٹی سی خوبصورت فیملی بھی ہے جنہیں میں گزشتہ دو دہائیوں سے جانتا ہوں اور ان کے خلوص کا قائل ہوں۔

اب بس اڈے پہ پہنچ کے بس کا انتظار شروع ہوا۔ کبھی یہاں تو کبھی وہاں گھوم گھوم کر  آخر نو بجے بس آ گئی جو ساڑھے نو روانہ ہوئی۔
اب ایک اور امتحان، یہاں سب سے آگے کی سیٹ ہماری تھی جس کے نیچے بڑا سا جنگلا لگا تھا۔ اب ہماری لمبوتری ٹانگیں اس پہ پھیلیں تو کیسے۔۔ ؟

جن حضرات کو یہ مسئلہ درپیش ہو چکا ہے وہ اسکی نزاکت کو سمجھ سکتے ہوں گے۔ اتنا لمبا سفر کوئی اس سیٹ پہ نہیں کر سکتا تھا۔
دو گھنٹے بعد جب مانسہرہ کے قریب بس ایک ہوٹل پہ رات کے کھانے کے لیئے رکی تو ہم نے فوراً کنڈیکٹر سے جا کے یہ مسئلہ بیان کیا، شومئی قسمت پیچھے ایک خالی بچی ہوئی سیٹ ہمیں نواز دی گئی۔ اتنے میں بس میں بیٹھی ایک خاتون غصے سے ڈرائیور کوتڑی لگا چکی تھی کہ وہ بس بہت خطرناک طریقے سے چلا رہا ہے، اگر اس نے بس ایسے ہی چلائی تو وہ اس کی شکایت حکام بالا تک پہنچا دے گی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ آگے بس بہت آرام و سکون سے چلتی گئی جس سے ہمارا سفر اور بڑھ گیا۔

الحمد للہ   پڑھ کے   جب دوبارہ بس میں سوار ہوئے تو کیا دیکھا، ہماری ساتھ کی سیٹ پہ ایک اچھے خاصے فربہ مائل پٹھان دوست تھے جس سے جگہ وصول کرنا بھی ایک اچھی خاصی اذیت تھی۔ اس سے یہ سبق ملا کہ کبھی بھی آگے والی سیٹ بک نہ کروائیں اور کوشش کریں کہ ونڈو سیٹ پہ بیٹھیں۔
ہزارہ موٹروے پہ سفر شروع ہوا تو نیند کے جھونکے آنے لگ گئے، یہ موٹروے بھی کیا خوبصورت بنائی گئی ہے۔ بشام سے آگے قراقرم ہائی وے پہ بس پہنچی تو جھٹکوں سے آنکھ کھلی اور اندازہ ہو گیا کہ بس اب ہمارا امتحان شروع ہے۔
اگرچہ بشام سے چلاس تک یہ روڈ کافی جگہوں پر اچھا بنا ہوا ہے لیکن یہاں اتنے موڑ ہیں بس کی اچھل کود سے بندہ بمشکل ہی سو پاتا ہے۔ بھاشا ڈیم کی سائیٹ سے گزرے تو بہت خوشی ہوئی کہ کام زور و شور سے جاری تھا اور یہاں کام کرنے والوں کے لیئے جنگل میں منگل کر رکھا تھا۔ صبح ناشتے کے لیئے ہم چلاس رکے شاہ جی ہوٹل پر جس کے بالکل سامنے ہی وہ ہوٹل تھا جہاں میں نے اپنے گزشتہ سفر میں قیام کیا تھا۔

یہاں سے بس نکلی تو رینگتی رینگتی رائے کوٹ پل تک پہنچی جہاں حسرت سے نگاہ اٹھا کے  میں نے فیری میڈوز کو جاتے راستے کو دیکھا جو گزشتہ سال میری منزل تھا۔
منزلیں بدلتی ہیں اور ساتھ راستے بھی یہی تو زندگی کا دستور ہے۔

اللہ اللہ کر کے  بس نے ہمیں ساڑھے گیارہ کے قریب گلگت پہنچایا جہاں سے فریش ہو کر  خود کو آنے والے سفر کے لیئے تیار کیا۔ گلگت سے نکلتے ہی کچھ آگے جا کر  بس نے ”جگلٹ گورو” کے مقام پہ بریک لگایا۔ یہاں جگہ جگہ شپ شورو بنائے جا رہے تھے۔ بھوک بھی لگی تھی اور روایتی کھانے بھی سامنے تھے جھٹ سے ایک شپ شورا (اسے کچھ لوگ چھپ شورو بھی لکھتے ہیں) اندر کر لیا۔ کچھ آگے جائزہ لینے گیا تو آلو کے لال چپس کے ساتھ ”ممتو” نظر آئے جو مجھے شروع سے ہی پسند تھے۔ سو آدھا درجن ممتو بھی ڈکار لیئے (حیران مت ہوں، مابدولت کب سے بھوکے تھے)، چلو یہاں لنچ سے تو فراغت ہوئی۔

ایک اور بات بتاتا چلوں کہ قراقرم ہائی وے پر جگلوٹ نام کی تین جگہیں ہیں۔ پہلا بونجی کے پاس جہاں سے سکردو کو راستہ نکلتا ہے، دوسری یہ جگلوٹ گورو جہاں میں کھڑا تھا اور تیسرا اس سے کچھ آگے جگلوٹ نالے کے پاس۔ چند مقامیوں سے ایک ہی نام کی تین جگہیں ہونے کی وجہ پوچھی تو کسی نے تسلی بخس جواب نہ دیا شاید یہ نام یہاں کے باسیوں کو زیادہ پسند ہو گا۔
یہاں سے نکل کہ ہم دو ڈھائی بجے راکاپوشی ویو پوائنٹ اترے جہاں سلمان بھائی اپنی گاڑی پے ہمیں لینے آن پہنچے۔ بہت پیار سے ملے اور اپنے دوست وجیہہ قریشی سے بھی ملوایا جو ہمارے اس پورے سفر کے ہم سفر بھی تھے۔

مناپن میں ہمارا قیام دی کیسل ہوٹل میں تھا۔ تھکے ہارے ہم دونوں جاتے ہی بستر پہ ڈھیر ہو گئے اور ڈیڑھ دن کی نیند پوری کی۔
شام کو تازہ دم ہو کے  جب میں کمرے سے باہر نکلا تو اس جگہ کی خوبصورتی دیکھ کر  دل خوش ہو گیا۔ پکی ہوئی خوبانی سے لدے درختوں سے گھرا یہ ہوٹل دریائے مناپن کے کنارے واقع تھا جہاں ایک اونچی جگہ دھنک رنگوں کے تخت پوش سے مزین لکڑی کا خوبصورت تخت پوش رکھا تھا جس کے بالکل سامنے دریا کے پار، نگر کے چٹیل پہاڑ تھے۔ چائے کا کپ ہاتھ میں لیئے، دریا کی شوریدہ موسیقی کو سنتے سنتے میں ان پہاڑوں کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ شام کے سائے گہرے ہونے لگ گئے تو ہم باتیں کرتے کرتے اندر آ گئے۔
گھر فون کر کے  خیریت کی اطلاع دی اور اپنے آنے والے سفر کے دوست وجیہ سے گپ شپ میں لگ گیا۔
ایک دانا شخص سے کسی نے پوچھا کہ کیا چیز زیادہ اہم ہوتی ہے، راستہ یا منزل۔ ؟
دانا شخص بولا: تمہارا ہم سفر۔۔۔۔۔۔

اسی قول کے مصداق میں نے وجیہہ سے ایک دوستانہ تعلق استوار کر لیا جس میں چنداں مشکل نہ ہوئی کہ یہ شخص خوش مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ میچور بھی تھا۔
رات کو دریا کنارے اہتمام سے ڈنر لگا دیا گیا جس کے بعد ہم نے ایک چکر اسرار بھائی کے مشہور ہوٹل اوشو تھنگ کا لگایا، مارکیٹ سے ٹریکنگ کے لیئے خشک خوبانی و دیگر لوازمات خریدے اور واپس اپنے ہوٹل آ گئے۔

سلمان کی کہانیاں اور مناپن کا ڈیم
3 جولائی بروز سوموار کی  صبح سویرے بیدار ہو کر  گرم پانی سے غسل کیا جس سے بچی کھچی تھکن بھی اڑ گئی۔ وہیں تخت پہ ناشتہ سرو کیا گیا۔ ٹریکنگ کو دھیان میں رکھتے ہوئے میں نے پراٹھوں سے پرہیز کیا اور تین ٹوسٹ کے ساتھ ہلکے تیل میں بنے فرائی انڈے کو ترجیح دی۔ یاد رکھیں، ٹریکنگ کے دوران ہلکا پھلکا اور کم تیل یا گھی والا ناشتہ کر کے نکلیں البتہ راستے کے لیئے پانی، جوس، بسکٹ اور چاکلیٹ جیسی چیزیں ہمراہ ہونا لازمی ہیں۔

ٹھیک چھ چالیس پہ ہم ہوٹل سے نکلے اور اپنا سفر شروع کیا۔ کچھ آگے جا کر  ہمیں نعیم مل گیا، نعیم ہمارا پورٹر تھا جس نے سامان لے کر  کچھ دیر بعد نکلنا تھا۔
مناپن سے نکلتے ہی دریائے مناپن پہ بنایا گیا دو میگا واٹ کا ”اِل پاور پروجیکٹ” یا ڈیم ہمارے سامنے آ گیا۔ اوپر سے آنے والے تیز پانیوں سے یہ ڈیم بھر  جاتا ہے جس سے بنائی جانے والی بجلی نیچے تک سپلائی کی جاتی ہے۔ سلمان نے ہی بتایا کہ مناپن کے قریبی علاقوں کو بجلی یہیں سے فراہم کی جاتی ہے۔
اس کے بعد ہمارا اصل ٹریک شروع ہوا۔ مناپن گاؤں سے ہاپاکُن تک لگ بھگ چار ساڑھے چار گھنٹوں کا ٹریک ہے (جسے پہاڑی لوگ دو گھنٹے میں آرام سے کر لیتے ہیں) جسے میں نے تین حصوں میں تقسیم کیا تھا۔

پہلا حصہ ایک زِک زیک چوڑے اور پتھریلے ٹریک پر مشتمل ہے جو قریباً ایک سوا ایک گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔ دوسرا حصہ قدرے ہموار ہے جہاں آپ کو درخت اور نالے ملیں گے جبکہ آخری حصہ چڑھائی ہے جو بتدریج بڑھتی جاتی ہے۔

اس ٹریک کے دوران سلمان حیدر خان سے بہت سی باتیں ہوئیں اور انہوں نے اپنی شادی کی روداد سنائی۔ نوجوان سلمان حیدر خان کا تعلق میرے ہمسائے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان سے ہے اور ہم ایک دوسرے کو ادبی گروپ ”پیبورپ” کے توسط سے کئی سال پہلے سے جانتے تھے۔ ایک پسماندہ علاقے کی روایتوں کو پسِ پشت ڈال کر سلمان نے مناپن کو اپنا ٹھکانہ بنایا اور یہیں پہ اپنی جیسی ایک سیاح سے شادی کی جو اپنے آپ میں ایک دلیرانہ قدم تھا۔

اب وہ اور ہماری بھابھی مساء (جن کا تعلق سندھ سے ہے) یہاں ہنسی خوشی سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں اور ہم ایسوں کی خدمت کر رہے ہیں۔
سلمان نے یہاں ہونے والے مختلف چھوٹے موٹے حادثات پہ روشنی ڈالی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بنگی داس اور دِلتر ؛
اتنے میں چلتے چلتے ہم بنگی داس پہنچ گئے جو ایک چراگاہ کا قطعہ ہے۔ یہاں چرواہوں نے اپنی چھوٹے چھوٹے جھونپڑیاں بنا رکھی ہیں۔ ہاپاکن کے راستے میں یہ آخری آبادی نما علاقہ ہے جہاں تک بائیک پہ بھی آیا جا سکتا ہے۔
یہاں ایک درخت کے سائے میں نالے کے ساتھ ہم سستانے لیٹے تو سلمان نے ہمیں دِلتر کا بتایا۔
دِلتر یہاں کی دیسی لسی ہے جسے ٹریکرز کے لیئے سٹنگ جیسے انرجی ڈرنک کا متبادل کہا جاتا پے۔ یہ بھیڑ کا تازہ اور گاڑھا دودھ ہوتا ہے جس کا ذائقہ کھٹا اور نمکین سا ہوتا ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں لسی کا شاید ایک یو دو گھونٹ پیئے ہوں لیکن ٹریکنگ کی وجہ سے میں آدھے سے زیادہ مگ پی گیا بقیہ میں نے سلمان کو دے دیا۔
چلتے چلتے ہم ٹھیک سوا چار گھنٹے بعد ہاپاکن کیمپ سائیٹ پہنچ گئے جسے دیکھ کہ میں اللہ کا شکر ادا کیا اور ہم جوتے اتار کہ ایک کھلے سے ٹینٹ میں بیٹھ گئے۔
ہپاکُن یا ہاپاکُن ایک خوبصورت سی سرسبز جگہ ہے جہاں لگے سفید رنگ کے خیمے اُزبک چرواہوں کے گھروں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اس جگہ سیاحوں کے لیئے ایک ہی باتھ روم ہے جس کا دورازہ ہوا سے ایسا بجتا ہے کہ انسان کی نظریں بس اسی پہ جمی رہیں۔ یہاں ہم نے چائے نوش کی اور ٹھنڈے ٹھار پانی سے منہ دھویا۔ اس کے بعد گرما گرم سوپی میگی نوڈلز پیش کیئے گئے۔ ایک گھنٹی خیمے میں لیٹنے کے بعد ظہر کی نماز پڑھی اور ٹھیک ڈیڑھ بجے تغافری کے لیئے اپنا سفر شروع کیا۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply