اس ہفتے کی فلم “ایک پھول دو مالی” ۔۔ذوالفقار علی زلفی

کیلاش ناتھ (بلراج ساہنی) پہلے ایک کار ایکسیڈنٹ میں اپنے بیوی بچوں کو کھو دیتا ہے پھر ایک حادثے میں مردانگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ـ ستم رسیدہ کیلاش ناتھ دکھوں کا پہاڑ اٹھائے ہمالیہ کے دامن میں واقع ایک گاؤں جا کر کوہ پیمائی سکھانے میں مشغول ہوجاتا ہے ـ کوہ پیمائی کا شوقین شہری نوجوان امر (سنجے خان) کیلاش ناتھ کا طالبعلم ہے ـ گاؤں کی الہڑ حسینہ سومنا (سادھنا) پہاڑ چڑھنے سے پہلے امر کو حسن کے تیروں سے گھائل کردیتی ہے ـ حسن کا رجھانا اور عشق کا تڑپنا ایک مقام پر آکر مدھر سنگیت میں ڈھل جاتے ہیں ـ الفت کے چمنستان میں رنگ برنگے گل کھلنے لگتے ہیں اور دو جواں دل پھولوں کی خوشبو سے مہک مہک جاتے ہیں ـ

محبت کی یہ رنگین داستان ایک موڑ پر آکر سنگین رخ اختیار کرجاتی ہے ـ میٹھے سپنوں میں کڑواہٹ کا زہر گھل مل کر سپنوں کو بے رحم حقیقت میں بدل دیتے ہیں ـ

محبت ایک شرمناک تماشا بن کر سومنا کی گلے میں رسوائی کا طوق بن جاتا ہے ـ بڑا ہے درد کا رشتہ، دکھوں کا مجموعہ کیلاش ناتھ طوق کو پھولوں کے ہار میں بدلنے کی کوشش میں کامیاب ہی ہورہا ہوتا ہے داستان ایک اور موڑ لے کر تین انسانوں کو پیچیدہ گھتی میں الجھا دیتا ہے ـ ان چاروں میں ایک ہے پھول اور دو ہیں مالی ـ فیصلے کا اختیار نہ پھول کے پاس ہے اور نہ مالیوں کے ـ۔۔

درج بالا خلاصہ 1969 کی رومانٹک ہندی فلم “ایک پھول دو مالی” کا ہے ـ فلم کے ہدایت کار دیوندر گویل ہیں جو قبل ازیں 1950 کی فلم “آنکھیں” سے کافی شہرت کما چکے ہیں ـ “آنکھیں” کے بعد “ایک پھول دو مالی” ان کی دوسری اہم ترین تخلیق ہے ـ

فلم کا  سکرپٹ رواں ہے اور دو مقامات پر اسے خوبصورت پیچ دے کر فلم بین کی دلچسپی برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ـ محبت، قربانی اور انسانی جذبوں پر مبنی اسکرپٹ خوبصورت ہے لیکن جھول سے پاک نہیں ـ بالخصوص کیلاش ناتھ کی زائل ہونے والی مردانگی اور امر کی ایک انجان بچے سے الفت کو منطقی لحاظ سے درست ثابت کرنے میں ناکامی ـ چند معمولی کمزوریوں کو اگر صرفِ نظر کیا جائے تو  سکرین پلے دلچسپ اور قابل قبول ہے ـ

ہمالیہ کی گود میں بکھرے خوبصورت مناظر کی عکاسی زیادہ متاثر کن نہیں ہے ـ اسے بہتر بنایا جاسکتا تھا ، پہاڑی مناظر کی مصنوعی عکاسی میں بہتری کی کافی گنجائش موجود ہے اور پہلی نظر میں اس چوک کا پتہ چل جاتا ہے ـ میدانوں اور باغوں کی عکاسی پہاڑوں کی نسبت بہتر اور خوش کن ہے ـ

فلم کی موسیقی روی نے دی ہے اور انہوں نے دھنوں کی ترتیب میں تساہل سے کام نہیں لیا ـ ان دھنوں پر محمد رفیع، آشا بھوسلے اور مناڈے نے آواز کا جادو جگایا ہےـ ہر دھن خوشگوار اور ہر گیت رس دار ہے ـ فلم کے گیتوں کی دلفریبی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ اس کے گیت آج بھی اسی طرح مقبول ہیں ـ جیسے :

“یہ پردہ ہٹادو، ذرا مکھڑا دکھا دو
ہم پیار کرنے والے ہیں کوئی غیر نہیں”

“تجھے سورج کہوں یا چندا
تجھے دیپ کہوں یا تارا
میرا نام کرے گا روشن
جگ میں میرا راج دلارا”

یا

“او ننھے سے فرشتے
تجھ سے یہ کیسا ناطہ
کیسے یہ دل کے رشتے”

Advertisements
julia rana solicitors

اداکاری کا شعبہ اے ون ہے ـ بالخصوص بلراج ساہنی کی سنجیدہ و سنگین اور سادھنا کی شوخ و مغموم اداکاری نے  سکرین پلے کی زبردست ترجمانی کی ہے ـ بلا کی رقاصہ سادھنا نے رقص کے ذریعے بھی بعض مناظر کو یادگار بنایا ہے ـ ان کے رقص میں سستے رومانی جذبات کی ترجمانی کی بجائے اعضا کی سنجیدہ شاعری پنہاں ہے ـ۔سنجے خان کی اداکاری بھی اچھی ہے لیکن وہ مذکورہ دونوں فنکاروں کے سامنے پھیکے پھیکے سے لگتے ہیں ـ سادھنا کی والدہ کا کردار سینئر اداکارہ درگا کھوٹے نے اپنے اسی مخصوص انداز میں نبھایا ہے۔

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply