چبانے کی طلب۔۔ محمد فیصل شہزاد

مجھے نہیں معلوم کہ میں اتنا چٹورا کیوں ہو گیا ہوں، اب پتا نہیں اسے چٹورپن کہنا بھی چاہیے کہ نہیں، مجھے بہرحال ہر وقت منہ چلانے کو کچھ نہ کچھ چاہیے، بھنے چنے ہوں، مونگ کی تلی ہوئی خستہ دال ہو، بادام اخروٹ ہوں یا سونف سپاری ہی کیوں نہ ہو۔ کچھ بھی ہو!میں نہیں جانتا کہ یہ ذیابیطس کی وجہ سے ہے یا کیا بات ہے  مگر خیال رہے یہ صرف میٹھے کی طلب نہیں ہے ۔۔ بس چبانے کی طلب ہے۔
ایک منٹ اگر لفظ ’’چبانے‘‘ سے آپ کی آنکھوں میں اک کمینی سی چمک لہرائی ہے، پست ذہنیت میں کوئی فتور کروٹ لینے اور  آپ کی سیاہ کرتوت انگلیوں میں کوئی شیطانی تبصرہ جاگنے لگا ہے  تو  براہ کرم اسی لمحے رک جائیے۔۔ ایک گہرا سانس لیجیے اور یہ یاد کیجیے کہ  یہ آپ کی میلی دیوار نہیں ہے جس پر آپ جیسے چاہیں اپنے میلے کپڑے لٹکا دیں۔ یہ روشن جبیں بابا ٹنڈوآدمی کی گل رنگ دیوار ہے اور یہ پوسٹ جسے اس وقت آپ پڑھ رہے ہیں،نہایت سنجیدگی کی  متقاضی پوسٹ ہے۔
جی جی بے شک مجھے تسلیم ہے کہ آپ اپنی فتنہ جو فطرت سے مجبور ہوں گے،آپ کی انگلیاں بے چینی سے کی بورڈ پراپنے فطری اظہار کے لیے تھرک رہی ہوں گی، سو اس فطری خرخشے کی وجہ سے، آپ کوہرگز دوش نہیں دیا جا سکتا  مگر آخر آپ یہ خیال کیوں نہیں کرتے کہ بابا جی کی فرینڈ لسٹ میں شامل ہونے کا  قدرت نے جو آپ کو ایک شاندار موقع دیا ہے، اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کو اپنی تہذیب کا کچھ سامان کر لینا چاہیے؟
گر اپنا اندرون سنوارنا آپ کے بس میں نہیں تو کچھ سدھار کے امکان پر تو ضرور ہی سوچنا چاہیے!سو براہ کرم اپنی فسادی طبیعت پر بوجھ ڈال کر ہی سہی، اپنی حرکتوں سے باز رہیے۔ اللہ سدھرنے میں آپ کی مدد فرمائے آمین
اس خیرخواہی کے بعد یہ ’’عاجز‘‘ اب دوبارہ اپنے مسئلے کی طرف آتا ہے۔ جی تومیں یہ عرض کر رہا تھا کہ یہ ہر وقت منہ  چلانے کی عادت مجھے ہی ہے یا آپ میں سے بھی کسی کو ہے؟
حد تو یہ ہے کہ ابھی کچھ دیر قبل کام کے دوران  ، کہ  جب دماغ پوری طرح سوچ کے سمندر میں غوطے کھا تا، تہہ سے لعل و جواہر چنتا اور انگلیاں مشاقی سے انہیں اسکرین پر منتقل کرتی تھیں  اس وقت اچانک لاشعور میں کچھ وائبریٹ سا ہونے لگا جو جلد ہی شعور کی سطح میں ابھر آیا۔۔
جی ہاں اس وقت منہ  کو حرکت کی، زبان کو چسکے کی اور دانتوں کو کچھ چبانے کی شدید خواہش پیدا ہوئی تھی۔ کچھ ایسی شدید کہ کام میں حرج ہونے لگا، پس اپنی چیزوں والی دراز کھولی کہ کچھ گوہر مقصود ہاتھ لگے مگر افسو۔۔ دراز اسی طرح قابل چبائی اشیاء سے خالی تھی جس طرح ہمارے کچھ دوست حس مزاح سے خالی ہوتے ہیں۔
طلب کچھ اس طرح بڑھی کہ آخر میں نے ذیابیطس کے لیے کارآمد شوابے کی بائیو پلاسجین 7 کی کچھ گولیاں نکالیں اور انہی کو پھانک کر اپنے تئیں کام چلانے کی کوشش کی مگر وہ کم بخت تو بس رکھتے ہی زباں پہ گھل گئیں۔ سر نیہوڑائے مزید اندر تک نظر دوڑائی تو دراز کے ایک نیم تاریک گوشے میں ہمیں قرشی کی وہ لبوب کبیر درماندگی کی حالت میں نظر پڑی، جو ہم کبھی محض شوخ و مستی کو فروتر کرنے کی ہوس میں خرید لائے تھے  مگر جو بے چاری اپنے صفات عجیب ہمارے ’’غدود شوخیہ‘‘ کو منتقل کرنے کی عرصے سے راہ ہی دیکھتی رہ گئی۔ آج بالآخر ہمارے چٹورپن کے کام آئی۔ہم نے طلب سے بے حال ہوتے ہوئے، جلدی جلدی ڈھکن کھولا اورخوشبودار، خوش ذائقہ لبوب انگلی بھر بھر، گلقند سمجھ کر چاٹ گئے۔۔
یہ سب مگر ایسی اشیا تھیں جو دیر تک ساتھ نہ دیتی تھیں، انہیں چبنے کی عادت نہ تھی۔ بس ایک دو بار زبان پہ کروٹیں لیں، دائیں بائیں مسوڑھوں کو چھوا اور قلانچیں بھرتے ہوئے حلق میں کود، معدے کو قربان ہو گئیں،میری طلب کی شدت کہیے یا نشہ۔۔ کسی ایسی ڈھیٹ شے سے ہی دور ہو سکتا تھا جس پر تا دیر دانت مشق چبائی کر سکیں، اور وہ نیچے اترنےسے باز رہے  یا پھر کوئی ایسی شے جو مقدار میں زیادہ ہو، تا کہ دیر تک چلے جیسا کہ چنے  اور وہ تھے نہیں۔ ڈرائی فروٹ ہمارے بے وفا اور کنجوس پختون دوستوں کی بے اعتنائی کی وجہ سے اس سال ہماری دراز میں آ نہیں سکے۔ سو آخر کار خدمت والے ساتھی سے بیس روپے کی بمبئی سپاری اور شاہی ڈیلکس ہی منگوا بیٹھے ہیں کہ کچھ کام چلے۔
جب تک وہ آتا ہے، یہ سوچ کر کہ آپ احباب کو ہی چبا کر طلب کی کچھ تسکین کر لی جائے، یہ پوسٹ ’’اپ مار‘‘ کر رہے ہیں،
اب آپ احباب غصے سے اپنی انگلیاں چباتے ہوئے، ہمیں کچا چبانے کی سوچ رہے ہیں تو بہت بری بات ہے،یہ عادت بالکل مناسب نہیں ہے، گرچہ ہم آپ کو دوش نہیں دیتے کہ یہ بری عادتیں آپ کی گویا فطرت ثانیہ بن چکی ہیں، مگر میرے پیارو! بات وہی ہے کہ بابا جی کی صحبت صالحہ کا کچھ تو آپ کو ثبوت دینا ہی چاہیے۔
لو جی بہت ساری کچھ قابل چبائی چیزیں آ گئی ہیں؛اب ہمیں اجازت دیجیے اور ہاں پوری دردمندی سے ہمارے مسئلے پر غورضرور کیجیے گا۔

Save

Facebook Comments

محمد فیصل شہزاد
فیصل کو منفرد سوچنے کی عادت ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply