گود خالی ہے/یوحنا جان

مجھے اس بات کو سُنتے کئی سال بیت گئے ہیں کہ گود ابھی خالی ہے۔ نہ جانے اس آنگن کو کون سی نظر کھا گئی۔ ابھی تک گود ہری بھری کیوں نہ ہوئی؟ کس کی بددُعا نے اثر دکھایا ؟ کس کم بخت نے تعویذ جادو کیا ؟ اکثر گلی، بازار, دفتر جاتے ہوئے اس نے شرمندگی کا سامنا کروایا ۔ بہر حال خدا بہتر کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

درختوں پر نئی کونپلوں نے ہر سال مارچ، اپریل میں اس اُمید کی کرن کو روشن کر رکھا ہے کہ خزاں کے بعد بہار ضرور ہے۔ اندھیرے کے بعد اُجالا نا اُمیدی کے متضاد اُمید کا دامن پکا بھی ہونا لازم ہے۔
ورنہ اُمید ، آس اور تخلیق ہمیشہ کے لیے کنارہ کشی کر لیتی ہے۔ جب ہم آہنگی کی بجائے قنوطیت کا پلڑا ہاتھ میں ہو تو پھر تخلیق کی کوکھ سے تنقید کی گود میں کچھ نہیں آتا اور گود ہمیشہ کے لیے خالی رہتی ہے۔ چہروں پر زہروں کا پینٹ، نیت میں فتور کا زہر اور نظروں میں خارش زدہ عکس رواں دواں ہو تو پھر تخلیق کی بجائے بانجھ پن کا موسم ہر فرد کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ جو اس وقت ہر گھر کی دہلیز کا حصہ بن چکا ہے۔
جس سے نہ صرف دانشمندوں کی بھرمار ملے گی بلکہ اعلٰی تعلیم یافتہ لوگوں کی صفوں میں بدکردار ، نااہل ، کرپٹ، نکمے اور کمینگی کا لبادہ لیے قطار در قطار ملیں گے۔ جو ہر تعلیم یافتہ اور عقلمندوں کی صلاحیتوں کو داغ لگا کر ہمیشہ کے لیے تخلیق کی کوکھ کو داغدار کر دیں گے۔ جس کے نتیجہ میں اُجاڑ ، ویران ، بیابان اور کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہو کر خاندانوں کے خاندان تباہ کر کے رکھ دیں گے۔
یہی برسر اقتدار آنے والے خود تو اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ جہاں جاتے ہیں وہاں پر زہر کا انجکشن ہاتھ میں لیے دوسروں کو بھی اس کا شکار بنا دیتے ہیں۔ ان میں اکثریت کے ہاں نفرت کا( زہر) انجکشن ہمہ وقت جیب میں ہوتا ہے۔
جو بازار اور گلی میں صدا لگاتے ملیں گے جن کا مرکزی مقام عبادت گاہ، درسگاہ ،جنرل سٹور اور قانون کا گہوارہ جو دن بدن بڑھتی اس بھڑکتی آگ پر تیل چھڑکنے کی فضا کو قائم کرنے میں اپنی مثال آپ ہے۔ ان کا عندیہ یہی ہے کہ ان سب کو اپنی لپیٹ میں لینا ہے۔ اس فضا کی زد میں گدھوں کی یلغار، کتوں کی آوازوں میں ہوشربا اضافہ اور مگرمچھ تالابوں سے باہر ہو چکے ہیں۔ جن کا ایک ہی موقف ہے کہ مُردوں کو ہمیشہ کے لیے دے دو۔ اس سے قبل یہ تعفن اور بدبو میں اضافہ کر دیں۔ جو زمین کے لیے ویرانی اور درختوں کے لیے حیرانی کا سبب۔ ہر گزرنے والا اس درخت کی چھاؤں میں سانس تو لے ساتھ وہی اس کے لیے حیران کن تاثرات تخلیق کر کے اس کو کنگال کرنے کا موجب بنے ۔ اس کے ردعمل کے طور پر جو دیکھنے کو ملا وہ یہی ہے چوہدری( چودھری ) بڑے ہیں پر چوہدری ہی نہیں۔ تعلیم ہے پر تربیت نہیں۔ پیسا ہے پر سکون نہیں۔ ذہن ہے تخلیق نہیں، کوکھ ہے امید نہیں۔ ساس ہے پربہو نہیں، چال ہے لیکن چلن نہیں۔ آدمی ہیں انسان نہیں، گونگے ہیں پر زبان نہیں ، عقیدہ ہے لیکن ایمان نہیں جھوٹ ہے مگر سچ نہیں۔ تنقید ہے لیکن سچائی نہیں ، کتاب ہے پر عمل نہیں ۔دل ہے درد نہیں، شک ہے علاج نہیں، دکھاوا ہے مگر حقیقت نہیں، مراثی ہیں پر میراث نہیں۔ فن ہے فنکار نہیں، جسم ہے مگر روح نہیں۔
یہ وہ تلخ حقیقت ہے جن کے وقوع پذیر ہونے سے آج گود خالی ہے۔ تنوع کے گھر گھر پڑاو وہیں۔ کثیرالتعداد جتھوں نے گرد آلود ہوا کے ذریعے وبائی مرض کا شکار کر دیا ہے۔ جو لاعلاج ہونے کا منصوبہ کامیاب کر چکی ہے۔ اس کے پیچھے وہی وجوہات جو ذہنی رویوں میں اختلاف اور باطن کی گندگی کو پنہاں کرنے کے لیے باڈی سپرے، پرفیوم ،طرح طرح کے عِطر اور صرف کپڑوں کا سہارا لینے میں صف اول میں ہیں جبکہ ان کے جسموں اور ذہنوں کے مکان پر طرح طرح کی غلاظت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ ان کو خود ہی باہر نکلنے نہیں دے رہے کیونکہ اصلیت سامنے آ جائے گی۔ یہی گندگی اندر ہی اندر کئی طرح کی بیماریوں کو جنم دے کر جسمانی، ذہنی اور تخلیقی صلاحیت سے محروم کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے مطلب ابھی تک گود خالی ہے۔
پھول ہیں خوشبو نہیں ، جسم ہے مگر طاقت نہیں بلکہ نوبت تو یہاں تک آ پہنچی ہے کہ تعلق بھی ہیں پر تعلق نہیں ۔ مصنوعی رنگوں کی یلغار سے صرف اپنی بدبودار حرکتوں کو اور تمناؤں کے پوجاری گدھوں کا شیوہ اپنا چکے ہیں جن کی کوئی قسم ہی نہیں ہے۔ ان کے ہاں صرف بڑی بڑی عمارتیں مگر اس دھرتی پر بوجھ ہیں۔ سورج بدلتی کروٹ کے ساتھ ان کے چہروں کو پگھلا دیتا ہے لیکن یہ پھر مذاق اڑانے کے لیے اہمق دانشوروں کی مہارت میں فرض نبھاتے ملتے ہیں۔ جو گدھے کو بھی مُردہ کی بجائے فطرتی طور پر حلال قرار دے کر اپنا راستہ سیدھا کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بدبو اور جراثیم مکمل طور پر اپنا اپنا کردار نبھاتے ملتے ہیں۔ پھر وہی خنزیر والے کردار کے سنگ سنگ تاثرات اُبھر کر باطن میں فنجائی پیدا کرتے ہیں۔ مطلب برائی تمھارے اندر سے نکلتی ہے اور ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جو حرام کے پیسوں سے حلال چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں مگر ملتی نہیں۔ ان سب باتوں کا ایک ہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ان کی گود خالی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply